گولی نمبر ’بہاول پور


     

بہاولپور مبارک ہو ’آپ صحافت کی دنیا میں ایک بڑے سیٹ اپ کا حصہ یوں بن گئے ہیں کہ آپ کی دھرتی کے فرزند ضیاء شاہد صاحب کے بیٹے چیف ایڈیٹر روزنامہ خبریں‘ امتنان شاہد نے لاہور سے آ کر اپنی دھرتی بہاولپور کو صحافت کی دنیا میں قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے روزنامہ خبریں کی بہاول پور سے اشاعت کا بڑا فیصلہ لیا ہے۔ یہ بات ریکارڈ پہ ہے کہ جناب ضیاء شاہد ’صحافت کی دنیا میں اعلی مقام پر پہنچنے پر بہاول پور کی محبتوں اور اس کو درپیش مسائل کو کبھی نہیں بھولے تھے‘ اور نہ ان کے بیٹے امتنان شاہد بھولے ہیں ’ضیاء شاہد صاحب نے بہاول پور کے عوام کی خوشیوں اور غم کو اپنا سمجھا‘ ستلج کی کہانی سے لے کر عام آدمی کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھتے ہوئے جب ’جب بہاول پور کے ایشوز پر لکھتے تھے تو تخت لاہور کے ایوان لرزتے تھے‘ ، ضیاء شاہد صاحب نے بہاولپور کی محرومیوں کا مقدمہ قومی سطح پر یوں رکھا جیسے کہ حق تھا وگرنہ بہاولپور کے مقامی اخبارات تو اپنے تئیں ’بہاولپور صوبہ پر جنرل یحییٰ خان کے ڈاکا پر آواز اٹھاتے لیکن بصد احترام دیگر قومی اخبارات میں بہاول پور کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ کوریج نہیں دی جاتی تھی‘ لیکن جیسے ضیاء شاہد صاحب نے بہاول پور کے ایشوز کو روزنامہ خبریں میں اٹھایا اور روزنامہ خبریں کو عام آدمی کا اخبار بنایا تو ’مجبوراً دیگر اخبارات کو اپنی گرتی ساکھ کو بچانے کے لئے ہاتھ پاؤں مارنے پڑے‘ لیکن پھر بھی بھی خبریں کو جو اعزاز حاصل ہے ’وہاں سے کہیں دور کھڑے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں‘ چیف ایڈیٹر روزنامہ خبریں جناب امتنان شاہد نے ضیاء شاہد صاحب کو روزنامہ خبریں کی بہاولپور سے اشاعت کا تحفہ دے کر ان کی روح کو خوش کر دیا ہے ’یہ ضیاء شاہد صاحب کا خواب پورا ہوا ہے‘ وہ اس بہاول پور دھرتی کا فرزند ہونے ناتے اس سے بے لوث محبت اور پیار کرتے تھے۔ جناب امتنان شاہد اپنے اس بڑے فیصلے پر مبارکباد قبول کریں ’اب میں اس طرف آتا ہوں کہ راقم الحروف روزنامہ خبریں کی بہاول پور سے اشاعت پر اتنا خوش کیوں ہے؟

اس کی ایک تو بڑی وجہ یہ ہے کہ بہاولپور کے ایشوز جو کہ اس سے پہلے دبے رہے ہیں‘ وہ اب سامنے آئیں گے ’بیشک روزنامہ خبریں ملتان میں بہاول پور کے ایشوز کو کوریج ملتی تھی لیکن اگر مجھے اختلاف کرنے کی اجازت دیں تو اتنی نہیں ملتی تھی‘ جتنے کا وہ حقدار تھا ’وجہ سادہ تھی کہ ملتان بڑا اسٹیشن تھا ”اس کے اپنے ایشوز اتنے تھے کہ بہاولپور کے مسائل کو جو کوریج ادارہ دینا چاہ رہا ہوتا تھا‘ وہ نہیں ملتی تھی ’کچھ ملتان کے دوست بھی اپنی رائے ملتان کے خانہ میں ڈال دیتے تھے‘ پھر بہاولپور والے اپنے صوبہ بہاولپور بحالی پر فوکس کرتے تھے جبکہ ملتانی سرائیکی صوبہ کے حامی تھے ’یوں اس بڑے اور احساس ایشو پر دونوں آمنے سامنے آ جاتے تھے؟

اس بڑے اور حساس ایشو پر معاملات اور طرف چلے جاتے تھے؟ لیکن ضیاء شاہد صاحب نے بہاول پور کے ساتھ ملتان کی اس کہانی کا حل یہ نکالا تھا کہ وہ بہاول پور کے لئے کالم لکھتے تھے تاکہ بہاولپور کی حق تلخی پوری کی جا سکے‘ ساتھ میرے جیسے طالب علم پر نظر پڑی کہ یہ بہاول پور کے ایشوز پر بولتا اور لکھتا ہے تو روزنامہ خبریں میں بحیثیت کالم نگار موقع دیا ’میرے لیے یہ بات بڑے اعزاز سے کم نہیں تھی کہ میں جناب ضیاء شاہد کی زیر سرپرستی میں لکھنے لگ گیا‘ میری بہاولپور سے محبتوں کی کہانی اپنے بڑے بھائی ڈاکٹر نعیم کلاسرا کی بدولت تھی ’انہوں نے جہاں نے ایک طرف قلم پکڑنا سکھایا‘ وہاں بہاولپور کے انقلابی ’سیاسی اور صحافی دوستوں کی ایسی کھیپ دی جو کہ کتاب دوست کے علاوہ کمال لوگ تھے‘ ادھر نعیم بھائی کی عباس منزل کے کمرہ نمبر ( 19 ) کی الماری لائبریری سے جہاں مختلف موضوعات پر اعلی کولیکشن پر مشتمل کتابوں کی زیارت ہوئی ’وہاں عباس منزل کے ساتھ جڑی سینٹرل لائبریری بہاول پور میں موجود بہاولپور کی تاریخ کی کتابیں‘ میرے لیے خزانہ تھیں ’ادھر نعیم بھائی کی زندگی کی بڑی خوشی یہ ہوتی تھی کہ ہم کتابوں کی دنیا میں رہیں۔

نواب آف بہاول پور بھی کیا تعلیم دوست شخصیت تھے‘ انہوں نے جہاں اپنی ریاست بہاولپور کے لوگوں کو اعلی تعلیمی ادارے دیے ’وہاں پر سینٹرل لائبریری کی شکل میں انمول تحفہ دیا‘ اعلی ’بہت اعلی‘ پھر بہاول پور کے مقامی اخبارات کی قربت ملی بالخصوص روزنامہ کائنات بہاولپور تھا ’میرے لیے روزنامہ کائنات بہاولپور میں بحیثیت رپورٹر کام کرنا اعزاز یوں تھا کہ بہاول پور کی صحافت میں ابتدائی ادوار کے اخبارات کی صف اول کے اخبارات میں شامل ہونے کے علاوہ عوام کے ایشوز پر فوکس رکھتا تھا۔

روزنامہ کائنات‘ بہاولپور میں رپورٹر اور پھر ایڈیٹر احمد علی بلوچ کی محبتوں کی بدولت کالم لکھنے کا بھی آغاز کیا ’اس دوران میری نظر روزنامہ کائنات بہاولپور کے“ گولی نمبر ”پر پڑی‘ جو کہ روزنامہ کائنات بہاولپور نے اشاعت خاص کے طور پر شائع کیا تھا ’“ گولی نمبر ”شائع کرنے کی نوبت یوں آئی تھی، جب جنرل یحیی خان نے ون یونٹ کو ختم کیا تو بہاول پور صوبہ بحال کرنے کی بجائے اس کو پنجاب میں شامل کر دیا‘ اس فیصلے کے ردعمل میں بہاولپور کے لوگ رنگ۔ نسل اور زبان سے بالاتر ہو کر احتجاج کے لئے نکلے تو ایوانوں کے در و دیوار ہل گئے ’ادھر یحیی خان نے بہاولپور صوبہ بحالی کے حامیوں پر گولی چلانے کا حکم دیا تو ستلج دریا کے پانی کا رنگ سرخ ہو گیا‘ لیکن وہ دن اور آج کا دن بہاولپور کے عوام صوبہ بحالی کے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ بہاولپور کے عوام اور نواب صاحب پاکستان پر قیام پاکستان پر احسانات کی شکل میں یوں برسے ’جیسے روہی میں باکر وال برستا ہے مطلب جو پاکستان کے لئے ضرورت تھا‘ نواب آف بہاولپور پیش کرتے گئے لیکن یہاں اس بات کا اعتراف کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے محسن نواب بہاولپور کی عوام کو محبتوں کی بدولت ککھ بھی حکمرانوں کی طرف سے واپس نہیں لٹایا گیا ہے جو کہ زیادتی ہی بلکہ بہت بڑی نا انصافی ہے۔

آج کل روزنامہ خبریں بہاولپور کے ویب ایڈیشن کی ترجیحی بنیادوں پر زیارت کرتا ہوں ’روزنامہ خبریں بہاولپور کی ٹیم کی اوپننگ کو سراہتا ہوں۔ اور کچھ بہاولپور سے روزنامہ خبریں نے جو سیکنڈل ابھی تک بریک کیے ہیں‘ ان میں سے آپ کی اجازت سے دو ایک ٹواب کے لئے پیش بھی کرتا ہوں۔ ”عملہ کی نا اہلی یا ملی بھگت ’بہاولپور کارپوریشن کی اربوں کی مالیاتی اراضی پر مافیا قابض‘ پٹرول پمپس اور دکانیں تمیر ’سال ہا سال سے لیز ایگریمنٹ ختم ہونے کے باوجود مافیا کا قبضہ چھوڑنے سے انکار‘ “ اب اندازہ کریں کہ کس طرح حکومتوں نے مافیا کے آگے ہتھیار ڈالے ہوئے ہیں ’اس بھی بڑا سیکنڈل جو کہ روزنامہ خبریں بہاولپور میں رپورٹ ہوا ہے‘ وہ یہ ہے کہ چولستان اراضی کی بندر بانٹ 4 لاکھ ایکڑ بغیر معاوضہ لیز پر دینے کا انکشاف ’حیرت ہوتی ہے کہ حکومتی اداروں کی موجودگی کے باوجود اتنی بڑی سطح پر وارداتیں ہو رہی ہیں، اب ایک پٹواری کی وارداتیں بھی چلتے چلتے سن لیں‘ وہ یہ ہے کہ کرپٹ پٹواری کے پاس 3 مواضعات کا چارج اور کروڑوں کی بے نامی کی جائیدادیں بنالی ہیں۔ مطلب انی مچی ہوئی ہے۔ ادھر ہیڈراجکاں ’پونے چار کروڑ کا مدینہ پارک کا منصوبہ کرپشن کی نذر ہو چکا ہے‘ رہے نام اللہ کا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments