ہرنائی میں صحافیوں نے کیا دیکھا


رات کے تین بج کر ایک منٹ پر مجھے محسوس ہوا کہ زمین ہل رہی ہے۔ میں خوفزدہ ہو گیا کیونکہ زمین مسلسل ہل رہی تھی۔ زلزلے کی اتنی شدید زندگی میں پہلی بار محسوس کیا۔ چونکہ کوئٹہ زلزلے کے خطرناک فالٹ لائن پر واقع ہے۔ اور یہاں وقتاً فوقتاً زلزلے آتے رہتے ہیں۔ لیکن چھ ستمبر کے زلزلے کی شدت زیادہ تھی۔ میں نے اسی وقت ادارے تک زلزلے کی بابت اطلاع دی۔ چونکہ رات گہری تھی میں نے اپنے مکان کا جائزہ لیا تو وہ صحیح سلامت تھا کسی نقصان کا اندیشہ نہ ہونے کی وجہ سے میں واپس سو گیا۔ لیکن صبح جب ہرنائئی سے نقصانات کے خبریں آنا شروع ہوئیں تو میں حیران رہ گیا اور جلد ہی مجھے اپنے ادارے کی طرف سے صحافتی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لئے ہرنائی کے لئے رخت سفر باندھ لینے کے لئے کہا گیا۔

ہزار خان بلوچ کا تعلق صحافتی ادارے انڈیپنڈنٹ اردو سے ہے۔ انہوں نے مزید تفصیل بتاتے ہوئے کہا ہرنائی جو کہ کوئٹہ سے شمال کی طرف 175 کلومیٹر مسافت پر واقع ہے۔ سڑک کی حالات دگرگوں ہونے اور پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے ہم اپنے دیگر ساتھی صحافیوں کے ساتھ دن کے تین بجے بمشکل ہرنائی تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔

ہزار خان کے مطابق : ہمیں زلزلے سے نقصانات کے اثرات شاہ رگ کے علاقے میں نظر آئے جہاں مکان کی چھت گرنے سے ایک بچہ جاں بحق ہوا تھا۔ لوگوں میں خوف و ہراس تھا۔ چونکہ زلزلے کا مرکز ہرنائی بازار کے قریب علاقہ تھا اور نقصانات بھی شہر کے قریب علاقوں جن میں غریب آباد، کلی مرزا، کلی جلال آباد۔ بابو محلہ۔ گوڈغوژہ۔ گودی محلہ، تکہ زیریں، اسپاندہ، مڑے زئی، غڑمئی اور دیگر شامل محلوں میں اکثر مکانات یا تو مہندم ہوچکے یا ان میں دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ جو رہنے کی قابل نہیں ہیں۔

ہزار خان کے بقول: لوگوں میں ہراس اتنا تھا کہ لوگ کمروں میں جانے سے بھی کترا رہے ہیں۔ ہسپتال میں سہولیات کا فقدان تھا۔ صرف دو بستر تھے ان کے حالت بھی خراب تھی۔ ہسپتال کے احاطے میں مذہبی سیاسی جماعت جمعیت العلما اسلام اور فرنٹیئر کور کے جانب سے میڈیکل کیمپ لگے ہوئے تھے۔

جبکہ حکومتی اقدامات کہیں پر بھی نظر نہیں آرہے تھے۔ زلزلہ زدگان ملبے پر پریشان بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کا سائبان زلزلے نے چھین لیا تھا اور متاثرین کھلے آسمان تلے رات گزارنے پر مجبور تھے۔

جمیل خان فری لانسر صحافی ہیں وہ بھی ہزار خان بلوچ کے ہمراہ چھ ستمبر کے زلزلے کے بعد کوئٹہ سے زلزلہ زدہ علاقے ہرنائی پہنچے تھے۔ ان کے مطابق جس وقت ہم پہنچے تو ہمیں حیرانی ہوئی متاثرین بے سروسامانی کے عالم میں پڑے ہوئے تھے۔ انھیں ابتدائی طور پر حکومت کی طرف سے کوئی امداد نہیں پہنچی تھی۔ یہاں تک کہ انہوں نے شام کے پانچ بجے تک کھانے کے لئے بھی کچھ نہیں ملا۔ بچے بھوک سے بلک رہے تھے۔ حکومتی دعوؤں کے برعکس متاثرین بے یارو مددگار پڑے ہوئے تھے۔

امدادی سرگرمیاں نہ ہونے کی برابر تھیں۔ جمیل کے مطابق مقامی لوگوں نے شکایت کی کہ کچھ لوگ آئے تصاویر کھنچوا کر چلے گئے۔ اور اس سے قبل جب ہرنائی میں سیلاب آیا جس میں سینکڑوں مکانات بہہ گئے تھے۔ حکومت نے امداد دینے کا وعدہ کیا لیکن اس وعدے پر تاحال عمل درآمد نہیں ہوسکا اور اب بھی ہمیں حکومت سے امداد کی کوئی توقع نہیں ہے۔

جمیل کے مطابق: ہرنائی اور اس کے قریب علاقوں میں نوے فیصد مکانات رہنے کی قابل نہیں رہے۔ ان میں وہ مکانات زیادہ متاثر ہوئے تھے جن کے چھت پر گارڈر رکھے گئے تھے۔

یاد رہے ہرنائی، پشین، زیارت اور کوئٹہ زلزلہ کے فائٹ لائن موجود ہیں۔ ماہر ارضیات پروفیسر ڈاکٹر دین محمد کاکڑ کے مطابق ان علاقوں میں ہر دس سے پندرہ سال میں زلزلے آتے رہتے ہیں۔ جب تک ان اضلاع میں ماڈل گھر نہیں بنائے جائیں گئے قیمتی جانیں اس طرح لقمہ اجل بنتی رہیں گی۔

ڈاکٹر دین محمد نے خبردار کیا ہے کہ کوئٹہ سے پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع غزہ بند میں ایک خطرناک فالٹ لائن موجود ہے، جہاں دو سو سال سے کوئی زلزلہ نہیں آیا ہے، اس فالٹ پر کافی انرجی جمع ہو چکی ہے، جب کہ کوئٹہ میں زلزلہ ری لوڈ ہو چکا ہے۔ البتہ یہ بتانا مشکل ہے کہ کس وقت آ سکتا ہے۔

تو لہٰذا حکومت کو مستقبل میں نقصانات سے بچنے کے لئے بلڈنگ کوڈ پر عمل درآمد یقینی بنانا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments