آزادی رائے کے لئے امن کا نوبل انعام


ناروے کی نوبل کمیٹی نے آمرانہ حکومتوں، ناانصافی اور اختیار کے ناجائز استعمال کے خلاف جد و جہد کرنے والے دو صحافیوں کو سال رواں کا امن انعام دے کر یہ واضح کیا ہے کہ آزادی رائے اور خبروں کی خود مختارانہ ترسیل دنیا میں تنازعات ختم کرنے کے لئے بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ نوبل کمیٹی کی چئیرپرسن بیرت رائس آندرسن نے جمعہ کی صبح اوسلو میں اس سال کا امن انعام جیتنے والوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ دو جری صحافیوں کو ملنے والا انعام دنیا بھر میں آمرانہ رویوں اور پرتشدد ہتھکنڈوں کے باوجود آزادی رائے کے لئے کام کرنے والے سب صحافیوں کی خدمات کا اعتراف ہے۔

2021 کا امن انعام فلپائین کی ماریا ریسا اور روس کے صحافی دمیتری مراتوو کو دیا گیا ہے۔ ماریا ریسا نے فلپائین میں آمریت اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے خلاف آزادی اظہار کو مؤثر طریقے سے استعمال کیا ہے۔ وہ ایشیا میں امریکی میڈیا ہاؤس سی این این اور اخبار وال اسٹریٹ جرنل کی نمائیندہ رہی ہیں۔ تاہم 2012 میں انہوں نے نیوز ایجنسی ’راپلر‘ کی بنیاد رکھی۔ اس ایجنسی نے تحقیقاتی صحافت میں نمایاں طور سے کام کیا ہے۔ اس کی رپورٹوں میں متنازعہ صدر روڈریگو ڈیوٹرٹے سمیت فلپائینی لیڈروں کے بارے میں بے خوفی سے رپورٹنگ کی جاتی ہے۔ ماریا ریسا واضح کرتی رہی ہیں کہ آمرانہ حکومتیں کیسے سوشل میڈیا کو عوامی مباحث پر اثرانداز ہونے اور انہیں مسخ کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ اس پس منظر میں پیشہ وارانہ صحافیوں کی خدمات کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔

صحافی دمیتری مراتوو نے روس میں آزادی رائے کی حفاظت کا اہم کام کیا ہے۔ روس میں آزادی سے صحافیانہ خدمات سرانجام دینا مشکل ترین ہوچکا ہے لیکن مراتوو کا اخبار نوواجا گزٹ اس وقت روسی حکومت کے آمرانہ ہتھکنڈوں کے خلاف اہم ترین مزاحمتی آواز کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس اخبار کی بنیاد 1993 میں رکھی گئی تھی۔ اس اخبار کا آغاز سوویت یونین کے آخری صدر میخائل گارباچوف کو 1990 میں ملنے والے نوبل امن انعام کی رقم سے کیا گیا تھا۔ دمیتری مراتوو 1995 سے اس اخبار کے چیف ایڈیٹر ہیں۔ اس اخبار نے شروع سے ہی پولیس تشدد، حکومتی کرپشن کے علاوہ اندرون و بیرون ملک سیاسی مقاصد کے لئے فوج کے استعمال پر ناقدانہ مضامین شائع کئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں اخبار میں کام کرنے والے صحافیوں کو متعدد بار دھمکیاں دی گئی ہیں اور اس کے دو صحافی مارے جاچکے ہیں لیکن دمیتری مراتوو نے نوواجا گزٹ کی خود مختاری پر سودے بازی سے انکار کیا ہے۔ اس وقت یہ اخبار چھوٹا ہونے کے باوجود روس اور اس سے باہر آزادانہ رائے کے اظہار کی اہم علامت بن چکا ہے۔

نوبل کمیٹی کی چئیرپرسن بیرت رائس آندرسن نے سال رواں کے امن انعام کو دنیا میں امن کی کوششوں کے لئے اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ کمیٹی کو یقین ہے کہ خبروں کی آزادانہ ترسیل اور آزادی رائے کے ذریعے ہی عوام میں آگاہی پیدا کی جاسکتی ہے۔ اسی کے نتیجے میں جمہوریت مستحکم ہوتی ہے اور جنگ اور تصادم سے بچنے کا راستہ تلاش کیا جاسکتا ہے۔ اسی پس منظر میں ان بنیادی حقوق کے لئے جد و جہد کرنے والے صحافی دنیا میں قیام امن کی کوششوں کو مضبوط کرتے ہیں۔ یہ طریقہ الفریڈ نوبل کی خواہش اور وصیت کے عین مطابق ہے۔ سال رواں کے امن انعام کے ذریعے نوبل کمیٹی نے واضح کیا ہے کہ ان بنیادی اصولوں کو مستحکم کرنا قیام امن کے لئے ضروری ہے۔

دو صحافیوں کو امن انعام دینے کے فیصلہ کی وضاحت کرتے ہوئے کمیٹی کی چئیر پرسن نے کہا ہے کہ رائے کی آزادی اور کسی دباؤ کے بغیر خبروں کی ترسیل کسی بھی آزاد و جمہوری معاشرے کے لئے اہم ہے۔ جنگ اور تنازعات کے خاتمہ کے لئے آزاد معاشرہ ہی اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔ آزادی رائے کے بغیر جمہوریت کا تصور بھی ممکن نہیں ہے۔ اسی لئے میڈیا کی آزادی تنازعات سے بچنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ کمیٹی کی چئیرپرسن نے البتہ سوشل میڈیاکے ذریعے انتہاپسندانہ نظریات کی ترویج کے حوالے سے واضح کیا کہ آزادی رائے کی بھی حدود ہیں۔ اسی لئے خودمختاری اور ضمیر کی آواز کے مطابق کام کرنے والے صحافی قیام امن کے لئے بے حد اہم ہیں۔ تاہم اس حوالے سے نوبل کمیٹی کی چئیر پرسن نے جن حدود کی طرف اشارہ کیا ہے، ان کا تعلق ضمیر اور پیشہ وارانہ اصولوں کے مطابق روپورٹنگ کرنے کے اصولوں کی پاسداری اور خود مختاری سے کسی ناانصافی کے بارے میں رائے کے اظہار سے ہے۔

نوبل امن انعام کی تقسیم کے حوالے سے یہ بحث ہوتی رہی ہے کہ نوبل کمیٹی کے فیصلے کس حد تک الفریڈ نوبل کی وصیت کے مطابق ہیں یا یہ کس حد تک ایسے ہی لوگوں کو دیے جاتے ہیں جو واقعی دنیا میں قیام امن کا سبب بنے تھے۔ نوبل کی وصیت میں واضح کیا گیا ہے کہ گزشتہ سال کے دوران دنیا میں جنگ کی روک تھام میں کردار ادا کرنے والے کسی فرد یا ادارے کو ہی اس انعام کا مستحق قرار دیاجائے گا۔ اسی نکتہ کی بنیاد پر ناقدین کو متعدد بار نوبل کمیٹی کے فیصلے سے اختلاف ہوتا ہے۔ تاہم کمیٹی کا مؤقف رہاہے کہ دنیا کے تبدیل شدہ حالات میں تنازعات نے نئی شکل و صورت اختیار کی ہے ، اس لئے اسے محض براہ راست لڑی جانے والی جنگوں کی صورت میں دیکھنا ممکن نہیں ہے بلکہ ان عوامل کے خلاف کام کرنے والے افراد اور ادارے بھی بے حد اہم ہیں جن کی وجہ سے تنازعات یا جنگیں شروع ہونےکا امکان ہوتا ہے یا ان کی روک تھام ہوسکتی ہے۔ سال رواں کا امن انعام بھی اسی تناظر میں ایک نمایاں مثال بنے گا۔ آزادی رائے کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے دیا جانے والا انعام دنیا بھر میں ضمیر کی آواز کے لئے خدمات انجام دینے والے صحافیوں کی حوصلہ افزائی کا سبب ہو گا۔

ماضی میں دیے گئے بعض انعامات کے حوالے سے نوبل کمیٹی کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہ روایت موجود نہیں ہے کہ کسی شخص کو انعام دینے کے بعد اس کے امن دشمن اقدامات کی وجہ سے انعام واپس لے لیا جائے۔ اسی لئے نوبل کمیٹی سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ کسی ایسے شخص یا ادارے کا انتخاب کرے جس کا کردار شفاف اور جس کے ارادے کسی شک و شبہ سے بالا ہوں۔ اس حوالے سے حالیہ تاریخ میں سب سے پہلے میانمار میں جمہوری جد و جہد کرنے والی آنگ سان سوچی کا نام لیا جاتا رہا ہے۔ انہیں 1991 میں فوجی حکمرانوں کے خلا ف پرامن جد و جہد کرنے اور طویل عرصہ تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے پر نوبل امن انعام دیا گیا تھا ۔ زیر حراست ہونے کی وجہ سے وہ انعام وصول کرنے کے لئے اوسلو بھی نہیں آسکی تھی۔ تاہم 2012 میں اقتدار حاصل کرنے کے لئے انہوں نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف فوجی لیڈروں کی نسل پرستانہ کارروائیوں کا دفاع کیا اور روہنگیا کے حقوق کی بات کرنے سے گریز کیا۔ اس رویہ کو قیام امن اور نوبل انعام کے مقصد سے متصادم سمجھا گیا تھا۔

2009 باراک اوباما کو امریکی صدر کا عہدہ سنبھالتے ہی نوبل امن انعام کا مستحق قرار دیاگیا۔ ناقدین کا کہنا تھا کہ وہ ایک سپر پاور کے صدر ہیں جو دنیا بھر میں متعدد جنگوں میں ملوث ہے جن میں افغانستان اور عراق کی جنگیں سر فہرست تھیں۔ اس لئے کسی لیڈر کی محض امن دوستی کی باتوں کی بنیاد پر امن انعام دینا مناسب نہیں ہوسکتا۔ بعد میں ان کی صدارت میں افغانستان اور شام میں جنگی کارروائیوں کی وجہ سے نوبل کمیٹی پر باراک اوباما کو امن انعام دینے پر تنقید کی جاتی رہی ہے۔ اسی طرح 2019 میں ایتھوپیا کے وزیر اعظم ابی احمد کو ہمسایہ ملک اریٹیریا کے ساتھ بیس سالہ سرحدی تنازعہ ختم کرنے اور عالمی تعاون کے فروغ کے لئے کام کرنے پر امن انعام کا مستحق قرار دیا گیا۔ تاہم بعد میں انہوں نے اپنے ہی ملک کے تھیگرے ریجن میں حقوق کے لئے جد و جہد کو طاقت سے کچلنے کا اقدام کیا اور ملک میں آزادی رائے پر سخت پابندیاں عائد کی گئیں۔ نوبل کمیٹی کی چئیرپرسن کو آج کی پریس کانفرنس میں اس حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے اس بارے میں بات سے گریز کیا لیکن یہ اعتراف کیا کہ ایتھوپیا میں آزادی رائے کی صورت حال مشکل ہوئی ہے۔

اب فلپائین اور روس سے تعلق رکھنے والے دو ایسے صحافیوں کو امن انعام سے نواز ا گیا ہے جنہوں نے سخت ترین حالات میں بھی اپنے اپنے ملک میں خود مختاری سے خبروں کی ترسیل کے لئے کام کیاہے اور اس مقصد کو پورا کرتے ہوئے شدید مشکلات کا سامنا بھی کیا ہے۔ یہ انعام اگرچہ دو صحافیوں کو دیاگیا ہے لیکن نوبل کمیٹی نے اس حوالے سے میڈیا کی خود مختاری اور آزادی رائے کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ اس طرح دنیا بھر میں مشکل حالات میں سخت گیر نظام یا متعصبانہ رویوں کے خلاف کام کرنے والے صحافیوں کی حوصلہ افزائی کا اہتمام کیا گیا ہے۔ نوبل امن انعام پر ہونے والے مباحث اور انعام وصول کرنے والوں کے منفی رویوں کے سبب اگرچہ اس انعام کی شہرت متاثر ہوئی ہے لیکن آج بھی اسے دنیا میں امن کے حوالے سے اہم ترین ایوارڈ سمجھا جاتا ہے اور اس کی قدر و قیمت سے انکار ممکن نہیں ہے۔

اس پس منظر میں امید کی جاسکتی ہے کہ یہ انعام صرف فلپائین اور روس کی آمریت کے خلاف کام کی ہی حوصلہ افزائی نہیں ہے بلکہ دو صحافیوں کو انعام دے کر نوبل کمیٹی نے امن کے لئے جمہوریت اور آزادی رائے کو عالمی ایجنڈے پر جگہ دی ہے۔ صحافیوں کو ملنے والے اس انعام کے سبب آزادی رائے اور پیشہ وارانہ صحافت کی اہمیت و ضرورت پر شروع ہونے والے مباحث متعد دممالک میں آمریت اور حکومتوں کے سخت گیرہتھکنڈوں کے خلاف رائے عامہ کو مستحکم کرنے میں معاون ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments