ہماری شو آف کرنے کی عادت کب جائے گی؟


پچھلے دنوں ایک جاننے والے کی شادی ہوئی تو لندن تک سے رشتہ دار اس کی شادی میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ شادی بڑی دھوم دھام سے کی گئی۔ ڈھول ڈھمکوں پر خوب پیسے اڑائے گئے۔ ہر رسم کو بخوبی نبھایا گیا۔ ولیمے پر بھی ہر جاننے والے کو مدعو کیا گیا تھا۔ شادی کے کچھ روز بعد ہی سارے رشتہ دار اپنی اپنی استطاعت کے مطابق خرچہ شرچہ کر کے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔

پھر قریبا ایک ماہ بعد نئے کپڑے خریدنے کے لیے ایک دکان پر گیا تو دیکھا وہی لڑکا گاہکوں کو کپڑے دکھانے میں مصروف تھا۔ میں کرسی پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگا کہ کب یہ گاہک جائیں اور میں اپنے لیے کپڑے ڈسکاؤنٹ قیمت پر خرید سکوں، آخر میرا جاننے والا تھا۔ سلام دعا ہوئی اور میں نے اس کی شادی کی کافی تعریف کی کہ یار بڑی دھوم دھام سے کی ہے۔ شادی کوئی کریں تو ایسی کریں۔ یہ بات کی تو بھائی نے آگے سے کہا کہ کم و بیش پچاس ساٹھ لاکھ روپیہ خرچہ کیا ہے میرے رشتہ داروں نے میری شادی پر، اچھی کیسے نہ ہوتی۔

پوچھنے پر بھائی نے ڈھولوں پر لوٹانے والے پیسوں سے لے کر رشتہ داروں کے لندن آنے جانے والے بھی اخراجات ملا شلا کر بتائے ہوئے فیگر کو ٹچ کیا۔ پھر تو مجھے بھی مجبوراً ماننا پڑا کہ ہاں بھئی اتنا خرچہ تو ہوا ہے۔ بات کو آگے بڑھاتے ہوئے میں نے کہا کہ ”یار دکان بڑی شاندار بنائی ہے۔“ ابھی یہ الفاظ میرے منہ سے ادا ہوئے ہی تھے کہ بھائی کا چہرہ مرجھا سا گیا۔ کہنے لگا کہ میں یہاں پچیس ہزار پر ملازم ہوں۔ دکان شیخ صاحب کی ہے۔ بہرحال میں کپڑے شپڑے لے کر گھر کی طرف روانہ ہوا۔

پورے رستے مجھے صرف یہ بات کھٹکتی رہی کہ آیا وہی رشتہ دار جو اس کی شادی میں لاکھوں لوٹا کر گئے، وہ اسے کاروبار کے لیے بیس پچیس لاکھ بھی نہ دے سکے؟ لندن سے اتنے اخراجات کر کے یہاں شادی منانے سے اچھا تھا کہ وہ لوگ اسے شادی کے بعد کوئی اچھا سا کاروبار کر دیتے تو یہ نوجوان اپنی زندگی بھرپور طریقے سے جی رہا ہوتا۔ پھر جب کبھی پاکستان چکر لگتا تب مبارکباد والی بھی رسم بھی پوری ہو جاتی۔

مگر ہماری شو آف کرنے والی عادت ہی ہمارا جینا مشکل بناتی ہے۔ ماں باپ یہ سوچتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے کہ اکلوتے بیٹے کی شادی تھی اور وہ بھی دھوم دھام سے نہیں کی۔ ماموں جان اپنا سوچتے ہیں کہ اکلوتے بھانجے کی شادی پر خرچہ نہ کیا تو عمر بھر طعنے سننے کو ملیں گے۔ انگلینڈ والا چاچا اپنی طرف سے دل کھول کر خرچہ کرتا ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ بیٹھے کہ انگلینڈ والے چاچے نے کنجوسی کا مظاہرہ کیا۔ مگر جب وہی اکلوتا بیٹا فکر معاش کے لیے دربدر ٹھوکریں کھاتا ہے تو پھر کوئی کچھ نہیں کہتا۔

جب وہی بھانجا فکر معاش کو لے کر ڈپریشن میں جاتا یہ تو تب کوئی کچھ نہیں کہتا۔ جب وہی اکلوتا بھتیجا کام کے لیے لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے تب کسی کی نظر نہیں پڑتی۔ تب کسی کو یہ فکر نہیں ہوتی کہ اس کی اس حالت میں مدد کر کے اسے اس حالت سے باہر نکالا جائے۔ شادی ہونے کے بعد کون کس حال میں زندگی گزارتا ہے یہ فکر کسی کو نہیں ستاتی۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ شادی پر صرف ان لوگوں مدعو کیا جانا چاہیے جو بآسانی آ سکے۔ دوسرا یہ کہ شادی پر اتنے اخراجات کرنے سے بہتر ہے کہ بندہ انھیں نقدی کچھ رقم دے دیں یا پھر کوئی اچھا سے کاروبار کر دیں تاکہ وہ آنے والی زندگی میں اس قدر کھجل نہ ہو۔ پھر شادی پر شو آف کرنے سے زیادہ سے زیادہ لوگ یہی کہیں گے کہ بھائی کیا زبردست شادی کی ہے۔ یہ جملہ کچھ دنوں تک سننے میں ملتا ہے اس کے بعد وہ بھی نہیں ملتا۔ پھر یہ جملہ نئے نویلے جوڑے کو کوئی فائدہ نہیں پہنچانے والا۔ پھر ڈھول ٹھمکے پر اتنا پیسا لوٹا کر دولہے یا دلہن کو کیا فائدہ ہوا؟ کھسرے نچوا کر کون سی ایسی راحت ہے جو دولہے یا دلہن کو نصیب ہوئی؟ ہوائی فائرنگ کر کے ایسا کون سا قلعہ آپ نے دولہے کو فتح کر دیا جس کی ملکہ اس کی بیوی بننے والی ہے۔

میں یہ نہیں کہتا کہ شادی بالکل ہی سادگی میں کرو کہ فوتگی کا سا سماں ہو لیکن ہر چیز کی ایک خاص حد تک ہوتی ہے اور وہ حد میں ہی اچھی لگتی ہے۔ اس سے آگے جو بھی کیا جاتا ہے وہ الٹا اس میں بگاڑ ہی پیدا کرتا ہے۔ ڈیسنٹ طریقے سے شادی کریں۔ جو بھی شادی سے جڑے لوازمات ہیں انھیں پورا کیا جائے۔ باقی اوپر کے پیسے جو آپ اڑانا چاہتے تھے وہ نئے جوڑے کی ہتھیلی ہر رکھ دیں تاکہ مستقبل میں یہی رقم ان کے کام آ سکے یا پھر اگر آپ کے پاس اتنا ہی پیسا ہیں تو دولہے بابو کو کوئی اچھا سے کاروبار ہی شروع کر دیجیے تاکہ کل کو وہ اپنی بیوی کے ناز نخرے برداشت کر سکے اور بچوں کی فرمائشیں بھی بآسانی پوری کر سکے۔ جوان نے پوری عمر آپ کو دعائیں نہ دیں تو کہیے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments