کیا ادب نوبل انعام کے مستحق با ادب ہیں؟


1896 میں سویڈش شہریت کے حامل ایک شخص ایلفریڈ نوبل نے اپنے انتقال سے قبل ایک وصیت لکھوائی۔ اور وہ وصیت یہ تھی کہ اس نے اپنی پوری زندگی جتنا بھی پیسہ کمایا جو کہ اس وقت تقریباً نوے لاکھ ڈالر کے قریب ایک خطیر رقم تھی، اسے ہر سال ایسے اداروں یا افراد کو بطور انعام دی جائے جنہوں نے فزکس، کیمسٹری، طب، ادب اور امن کے میدان میں کارہائے نمایاں سرانجام دیے ہیں۔ گویا ان کی زندگی میں مذکور پانچ ایسے شعبہ جات تھے جن میں کسی ایجادات، انسانی خدمات کے عوض انعام دیا جانا قرار پایا تاہم 1968 میں معاشیات کو بھی شامل کر لیا گیا، وجہ شاید یہ تھی کہ معاشیات کے بغیر کوئی ملک یا ریاست ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہو سکتی لہذا اس شعبہ میں جو ادارہ یا فرد انسانیت کے فلاح کے لئے کوئی خدمت سرانجام دے گا اسے بھی نوبل انعام سے نوازا جائے گا۔

گویا سویڈش اکیڈمی آف نوبل انعام ہر سال چھ کیٹگری میں دنیا کے سب سے بڑے ایوارڈ اپنے اپنے شعبہ میں منفرد کارہائے سر انجام دینے پر یہ انعام دیتی ہے۔ یہ انعامات ہر سال دسمبر کے مہینہ میں دیے جاتے ہیں۔ انعامات کے لئے تقریب تقسیم انعامات سویڈن میں انعقاد پذیر ہوتی ہے جبکہ صرف امن کے ایوارڈ کے لئے اس تقریب کو ناروے میں سجایا جاتا ہے۔

اس سال ادب کا نوبل انعام پہلی مرتبہ تنزانیہ کے مشہور ادیب عبدالرزاق قورنہ کو دیا جا رہا ہے۔ جنہیں انعام کے طور پر گیارہ لاکھ امریکی ڈالر دیے جائیں گے۔ اگر آپ نوبل انعام کی فہرست کو جائزہ لیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ ادب کے میدان میں زیادہ تر انعام کے حقدار یورپی ادیبوں کو ہی ٹھہرایا جاتا رہا ہے۔ تقریباً 90 سے زائد تعداد یورپی ادبا کی بنتی ہے جنہیں اس انعام سے نوازا گیا ہے جبکہ موجودہ انعام 119 واں پرائز ہے۔

اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ نوبل انعام کی کمیٹی کو شاید یورپ سے باہر زیادہ ادب کی خدمت کرنے والے ادیب نظر آتے نہیں یا پھر دیگر علاقوں میں اس ادب کا فقدان ہے جو کمیٹی کی توقعات اور امیدوں کے مطابق نہیں ہوتا ہے۔ عبدالرزاق قورنہ کو نو آبادیات کے تہذیبوں پر اثرات اور پناہ گزینوں کے ساتھ مختلف براعظموں میں پیش آنے والے مسائل اور مصائب کو آسان الفاظ میں بیان کرنے پر دیا گیا ہے۔ اگرچہ عبدالرزاق قرنہ نے صرف دس ناول اور مختصر سٹوریز کی کتابیں ہی لکھیں ہیں تاہم ان میں سے دو کتابیں بہت مقبول ہوئیں۔

ایک ان کا مشہور ناول ”پیراڈائیز“ جو کہ 1994 میں شائع ہوا اور اس ناول نے عوام میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ تاہم ”بائی سی سی“ نے عبدالرزاق کو اس لئے مقبول عام کیا کہ اس ناول میں انہوں نے دنیا کی توجہ مہاجرین کے مصائب اور مسائل کی طرف مبذول کروائی۔ کیونکہ وہ خود بھی 1960 کی دہائی میں تنزانیہ سے ہجرت کر کے بطور پناہ گزیں برطانیہ میں مقیم ہو گئے تھے۔ اس لئے وہ خود بھی پناہ گزینوں کے مصائب کے عینی شاہد اور متاثرین میں سے ہیں۔ یعنی

جو تن لاگے سو تن جانیں۔

علاوہ ازیں طب کا نوبل انعام دو امریکی سائنسدانوں ڈاکٹر ڈیوس جو لیس (یونیورسٹی آف کیلی فورنیا) اور ڈاکٹر آرڈم ( اسکرپ ریسیرچ انسٹی ٹیوٹ کیلی فورنیا) کو ان کے کام لمس اور حرارت کی تحقیق پر دیا جا رہا ہے۔ امن کا نوبل انعام اس سال دو صحافیوں کے حصہ میں آیا۔ جن میں سے ایک (ماریہ ایسا) کا تعلق فلپائن جبکہ دوسرے (ڈمٹری موراتوف) کا تعلق روس سے ہے۔ ان دونوں صحافیوں کو آزادی اظہار کا بہادری سے دفاع کرنے پر امن انعام سے نوازا جا رہا ہے۔ اسی طرح اس سال کیمسٹری میں تین جبکہ فزکس میں دو سائنسدانوں کا نوبل انعام سے نوازا جا رہا ہے۔ لیکن

کبھی ہم نے اس بات پر غور کیا ہے کہ جب بھی ادب اور امن کا نوبل انعام دیا جاتا ہے ان میں ایک تو یورپ کے صحافی، ماہرین اور سائنسدانوں کو ترجیح دی جاتی ہے، جبکہ دوسری بات یہ کہ آپ تحقیق کر لیجیے گا کہ ایسے افراد کو اس انعام کا اہل قرار دیا جاتا ہے جنہوں نے مصائب، مسائل، جنگوں، پناہ گزینوں، بیماریوں وغیرہ کی بات کی ہوگی۔ گویا مسائل کو اجاگر کرنے کی بات کی نہ مسائل کے حل کا حصہ بننے میں شمولیت اختیار کی ہو۔

یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات ایسے انعامات متنازعہ یا تنقید کا باعث بن جاتے ہیں۔ زیادہ تر تنقید بھی امن ادب اور معاشیات کے انعامات پر کی گئی ہے۔ یہ بھی تاریخ کا ایک حصہ ہے۔ اگر ہم غور کریں تو اندازہ ہو گا کہ یہ تینوں شعبے عوام کی نفسیات، ملکی ترقی و تنزلی اور قوموں کے عروج و زوال کا مظہر ہوتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ کہ انعامات کے متحملین کے لئے تعصب کا دامن پکڑ لیا جاتا ہو۔ جیسے کہ ایک مشہور ہے کہ علامہ اقبال کو اس لئے انعام سے نہیں نوازا گیا کہ وہ قوم میں بیداری کا جذبہ پیدا کر رہے تھے اور یورپ کے خلاف نظریات کے بھی وہ امین تھے۔ اس لئے انہیں اس انعام سے محروم رکھا گیا۔ خیر میرا خیال تو یہ ہے کہ علامی جیسی شخصیت کسی انعام کی پرواہ کرنے والی نہیں تھی۔ انہیں کسی انعام اور ایوارڈ کا کوئی لالچ نہیں تھا ان کی ذات ان سب باتوں سے مبرا تھیں۔

اسی لئے میں یہ سوچتا ہوں کہ ابھی تک جتنے بھی ایورڈز اس پلیٹ فارم سے ادب اور امن کے لئے دیے گئے ہیں کیا ان کی ذات اسم بامسمیٰ تھی کہ یا پھر اناں ونڈے شیرنی مڑ مڑ اپنیاں نوں۔ کیا ادب کے نوبل انعام کے حقدار خود با ادب تھے اور امن کے متحمل انعام یافتگان خود امن کے خواں تھے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments