کیا واقعی جنرل فیض حمید آنے والے آرمی چیف ہوں گے؟


اس وقت سوشل میڈیا، جنرل میڈیا، سیاسی حلقوں اور دیگر متعلقہ افراد کے درمیان یہ بحث زور شور سے جاری و ساری ہے کہ آنے والے آرمی چیف جنرل فیض حمید ہی ہوں گے۔ ساری دنیا میں نیشنل سیکیورٹی کے ادارے زیر بحث آتے ہیں اور آتے رہے ہیں لیکن ہمارے ہاں یہ ریشو کچھ زیادہ ہی ہے بلکہ یہ بحث وقت سے بھی پہلے شروع ہوجاتی ہے۔ گزشتہ چھ سات مہینوں سے یہ بحث چہ مگوئیوں کی صورت میں ہو رہی تھی اور اب کھل کے سامنے آ گئی اور وہ اس لئے سامنے آ گئی کہ جنرل فیض حمید کو پشاور کا کور کمانڈر تعینات کیا گیا ہے اور کسی بھی آرمی چیف کے لئے کم سے کم چھ مہینے تک کسی کور میں بحیثیت کور کمانڈر تعینات رینا لازمی ہے۔

حالانکہ اور بھی تبادلے ہوئے ہیں اور آئی۔ ایس۔ پی۔ آر نے اس کو معمول کے تبادلوں اور تقرریوں کا ورک گردانا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں ہمیشہ سے ڈی۔ جی آئی۔ ایس۔ آئی کا عہدہ اگر ایک جانب بہت اہمیت کا حامل رہا ہے تو دوسری جانب سیاسی آمیزش کی وجہ سے سیاسی پارٹیوں اور سیاسی قائدین کے ساتھ الجھاؤ، ٹکراؤ اور داؤ پیچ کے تسلسل میں تنازعات میں بھی رہا ہے۔ سیاسی طور پر اپوزیشن تو کبھی اس ادارے کے سربراہ سے خوش رہے ہی نہیں جس کی تازہ ترین مثال مریم صفدر کی ہے۔

جبکہ برسر اقتدار سیاسی قیادت کو روز روز یہ بولنا پڑتا ہے یا عوام کو باور کرانا پڑتا ہے کہ حکومت اور فوج ایک پیج پر ہے حالانکہ یہ بولنے کی نہیں بلکہ سمجھنے کی بات ہے کہ حکومت اور فوج کو لازماً ایک پیج پر ہونا چاہیے اگر ایک پیج پر نہ ہو تو چلنا کیسے ممکن ہو گا۔ لیکن سیاسی طور پر یہ ہمارا ایک سیاسی مزاج بن چکا ہے کہ یہ کوئی خبر ہی نہیں ہوتی کہ حکومت اور فوج ایک پیج پر ہو بلکہ خبر اس وقت بنتی ہے جب یہ دونوں یا تو ایک پیج پر نہ ہو یا پھر معمولی سا بھی اختلاف کا شائبہ ہو جیسے کہ آج کل ہو رہا ہے۔

مسئلہ میرے خیال میں صرف سیاسی نہیں بلکہ یہ فوج کا اندرونی ڈسپلن کا بھی مسئلہ ہے۔ اس وقت تین جنرلز فیض حمید سے سینئیر ہیں۔ اور جنرل قمر باجوہ کو ریٹائرڈ ہونے میں سال سے ایک مہینہ اوپر کا عرصہ باقی ہے اور اس کے بعد بھی ان کی عمر سال سوا سال بچتی ہے عین ممکن ہیں کہ ان کو بقیہ عرصہ کے لئے بھی توسیع دے دی جائے۔ تو ایسی صورت میں جنرل فیض حمید پھر آرمی چیف نہیں بن سکتے ہیں اور وہ اس عرصے میں ریٹائر ہوجائیں گے۔

ہاں البتہ جنرل قمر باجوہ ریٹائرڈ ہوتے ہیں اور ان کو توسیع مزید نہیں ملتی تو جنرل حمید کے لئے کچھ وقت کے لئے موقع بن سکتا ہے لیکن بیچ میں جو تین اور جنرلز ہیں وہ بھی تو کوالیفائیڈ اور فل پروفیشنل ہیں وہ بھی اس سب سیناریو کا یقیناً بغور مشاہدہ کر رہے ہوں گے۔ میرے خیال میں یہ بات اس وجہ سے زبان زد عام ہوئی کہ ان تقرریوں سے خاص کر جنرل فیض حمید کے ہٹانے اور ان کی جگہ جنرل انجم کے تقرری پر وزیر اعظم عمران خان راضی نہیں تھے۔

کہا یہ جا رہا ہے کہ وہ چاہتے تھے کہ جنرل فیض حمید مزید چھ سات مہینے رہتے اور اس کے لئے بنیاد افغانستان کے موجودہ حالات کو بنایا گیا ہے جبکہ ہر آنے والا جنرل اتنا ہی پروفیشنل ہوتا ہے جتنا جانے والا ہوتا ہے۔ ایک اڑتی ہوئی خبر میں نے ایک منجھے ہوئی صحافی کے منہ سے یہ بھی سنی کہ عمران خان کو روحانی طور پر یہ کہا جا رہا ہے کہ اس وقت کی جو تبادلے اور تقرریاں ہو رہی ہیں وہ آپ کے لئے نیک شگون نہیں ہیں جس پر عمران خان شاید اس لئے بھی تیار ہو نہیں رہے ہیں۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ آرمی جو بھی لسٹ اعلی سطح کی تقرریوں اور تبادلوں کا وزیر اعظم کے پاس آتی ہے وہ زیادہ تر آرمی ہی کے سلیکشن اور معیار کی بنائی ہوئی ہوتی ہے اور وزیر اعظم اس پر من و عن دستخط کرتے ہیں۔ شاید ایک دفعہ وزیر اعظم بے نظیر نے اپنی خواہش کے مطابق اس میں ایک ردو بدل کیا تھا۔ یا وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے دور کے آرمی چیف کو نظر انداز کر کے کوئٹہ کے کور کمانڈر سے ملاقات کی تھی۔ لیکن ان خواہشات کا صلہ پھر ان دونوں وزیر اعظم صاحبان کو مل بھی گیا تھا۔

اب عمران خان کی باری کہہ لیں یا اختیار کہہ لیں، ہیں اور وہ اس کو استعمال کرنا بھی چاہ رہے ہیں دیکھتے ہیں یہ ان پر راس آتا ہے یا کہ نہیں۔ لیکن میرے ذہن میں ہمیشہ سے بطور وکیل یا ایک لاء سٹوڈنٹ کی حیثیت سے ایک سوال اٹھتا ہے وہ یہ کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے اس وقت سے کئی بار دیکھا ہے کہ ہمیشہ کسی جونئیر جنرل کو سینئیر پر فوقیت دے کر آرمی چیف بنا دیا جاتا ہے اور پھر ان سینئیر جنرلز  نے بادل ناخواستہ اپنے عہدوں سے استعفے دیے ہیں۔

کیا کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ جب کسی جونئیر جنرل کو آرمی چیف تعینات کیا جا رہا ہو اور وہ عین وقت پر انکار کر دے کہ میں یہ ترقی نہیں لیتا کیونکہ میں جونئیر ہوں جو مجھ سے سینئیر ہے مجھ سے پہلے ان کا حق ہے، کہ یہ مسئلہ ہی سرے سے ختم ہو جائے اور یہ ایک پریسیڈنٹ بن جائے گا جیسے کی ججز کی تقرری میں الجہاد ٹرسٹ کیس میں سنیارٹی پر تقرری کی نظیر موجود ہے اور جب کبھی اس کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو اس پر وکلاء برادری احتجاج کرتی ہے جیسے کہ حال ہی میں سندھ ہائی کورٹس سے چوتھے نمبر پر جج صاحب کی تقرری سپریم کورٹ میں ہوئی یا اس سے پہلے بھی اسی چوتھے نمبر کے ایک جج صاحب کی تقرری اسی عدالت سے سپریم کورٹ میں ہوئی تھی۔ یہ سوال میرے ذہن میں تھا میں نے کر تو دیا لیکن پتہ نہیں مجھے کرنا چاہیے تھا کہ نہیں؟ یا پھر اس سوال کا جواب مل بھی سکتا ہے کہ نہیں؟ یا یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا اور ہمارے نیشنل سیکیورٹی کے ادارے یوں ہی سیاست کی نذر ہوتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments