ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی درخواست بنام سرکار جس پر فیصلہ اُن کی وفات تک نہ ہو سکا


ڈاکٹر عبدالقدیر
پاکستان کے ممتاز جوہری سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں سنہ 2004 میں سرکاری ٹی وی پر ایک بیان میں جوہری پھیلاؤ میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا تھا۔

اس کے بعد ان پر عائد کی گئی غیر اعلانیہ نظربندی ان کی وفات تک بھی ختم نہ ہوئی۔

اپنی زندگی میں لوگوں سے ملنے اور آزاد زندگی گزارنے کے لیے جو کہ بنیادی انسانی حقوق کے زمرے میں آتے ہیں، ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے عدالتوں میں درخواستیں دیں لیکن انھیں اس بارے میں ریلیف نہیں ملا لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی وفات کے بعد غیر اعلانیہ نظر بندی کے خلاف درخواست ویسے ہی غیر مؤثر ہو جائے گی۔

ڈاکٹر عبدالقدیر نے خود پر عائد کی گئی غیر اعلانیہ نظر بندی کے خلاف آخری درخواست دو سال قبل دائر کی گئی تھی جس پر سپریم کورٹ دو سال سے فیصلہ ہی نہیں کر سکی۔

اپنی اس نظربندی کے خلاف انھوں نے مختلف اعلیٰ عدالتوں میں درخواستیں دائر کیں۔ ایک آخری درخواست پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ میں دو سال قبل یعنی سنہ 2019 میں دائر کی تھی جس پر نہ تو کوئی فیصلہ ہوا اور نہ ہی ان کے وکلا کو سکیورٹی کے نام پر ان سے ملنے کی اجازت دی گئی۔

اس سے پہلے ڈاکٹر عبدالقدیر نے اپنی مبینہ نظربندی کے خاتمے کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی لیکن لاہور ہائی کورٹ نے یہ کہہ کر سماعت کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ اس درخواست کی سماعت کرنا ان کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔

جبری طور پر لاپتہ افراد کے مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

اُنھوں نے کہا تھا کہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ وفاق نے دائر کیا تھا لیکن اُنھیں سزائے موت دینے والے بینچ کو غیر قانونی قرار دینے والی لاہور ہائی کورٹ نے ڈاکٹر عبدالقدیر کی درخواست کو یہ کہہ کر سننے سے انکار کر دیا کہ یہ ان کے دائرہ سماعت میں ہی نہیں آتا۔

قدیر

درخواست گزار ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے وکلا شیخ احسن الدین اور توفیق آصف کے مطابق جب سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر ہوئی ہے اس وقت سے اب تک اس کی صرف پانچ سماعتیں ہوئی ہیں جبکہ پہلی سماعت درخواست دائر کرنے کے نو ماہ بعد ہوئی تھی۔

ایک سماعت کے دوران تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو سپریم کورٹ لایا گیا لیکن متعلقہ حکام نے انھیں کمرہ عدالت میں لے کر جانے کے بجائے اُنھیں سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس میں بٹھا دیا گیا اور پھر وہیں سے ہی اُنھیں ان کے گھر منتقل کر دیا گیا۔

جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے اس درخواست کی سماعت کی تھی اور درخواست گزار کے وکلا نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ ان کے مؤکل کو اگر کمرہ عدالت میں نہیں بلایا جاسکتا تو بینچ کے سربراہ انھیں اپنے چیمبر میں ہی سن لیں، تاہم عدالت نے ان کی استدعا پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان کے جوہری سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان وفات پا گئے

کیا ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ’دھمکی‘ نے 1987 میں پاکستان، انڈیا جنگ ٹالی تھی؟

ریاستی مجرم سے ریاستی جنازے تک: ’محسن پاکستان‘ کی قومی خدمت سے قومی مجرم بننے کی داستان

عدالت نے بہرحال اس وقت کے اٹارنی جنرل انور منصور خان کو ہدایت کی تھی کہ وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ان کے گھر پر جا کر ملاقات کر کے آئیں اور اُن سے پوچھیں کہ انھیں کن مشکلات کا سامنا ہے۔

عدالتی حکم پر اس وقت کے اٹارنی جنرل نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ملاقات کی تھی جبکہ عدالت نے 24 جون سنہ 2020 کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے وکلا کی اپنے مؤکل کے ساتھ ملاقات کرنے کی اجازت دی لیکن درخواست گزار کی ان کے وکلا سے ملاقاتیں یہ کہہ کر نہیں کروائی گئی کیونکہ اس عرصے کے دوران سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کا انتقال ہو گیا تھا اس سے ایسے حالات میں درخواست گزار کی ان کے وکلا سے ملاقات کروانا ممکن نہیں تھا۔

سماعت کے دوران ڈاکٹر عبدالقدیر کے وکلا نے اپنے مؤکل کے گھر کی تصویر کشی کرتے ہوئے کہا کہ جس جگہ ان کے مؤکل کو سکیورٹی کے نام پر قید تنہائی میں رکھا گیا ہے اس علاقے سے بہت کم لوگوں کو گزرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر کوئی وہاں سے دو بار گزر جائے تو وہاں پر موجود سکیورٹی کے اہلکار اسے پکڑ لیتے ہیں اور اس سے تفتیش شروع کر دیتے ہیں کہ وہ کس مقصد کے لیے ادھر آئے ہیں۔

ڈاکٹر عبدالقدیر

ان کا کہنا تھا کہ ان کے مؤکل کی عمر 85 سال سےزیادہ ہے اور اس عمر میں انھیں اپنے رشتے داروں اور دوستوں سے ملنے کی ضرورت ہے لیکن انھیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے وکلا کے مطابق تقریباً ایک سال کے بعد ان کی درخواست دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کی گئی۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اس درخواست کی چوتھی سماعت کے دوران متعلقہ حکام سے ڈاکٹر عبدالقدیر حان سے گذشتہ سات ماہ کے دوران ہونے والی ملاقاتوں کا ریکارڈ طلب کیا تھا لیکن متعلقہ حکام کی طرف سے ایسا کوئی ریکارڈ عدالت میں پیش نہیں کیا گیا تھا۔

درخواست گزار یعنی عبدالقدیر خان کے وکلا کی طرف سے ذمہ داروں کے خلاف عدالتی حکم پر عمل درآمد نہ کرنے پر سخت کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا لیکن عدالت نے متعلقہ حکام کو ایک ماہ میں دوبارہ رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔

اس درخواست کی پانچویں سماعت جو کہ آخری ثابت ہوئی، کے دوران جب درخواست گزار یعنی عبدالقدیر خان کی صحت کا ذکر ہوا تو ان کے وکلا کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان جو کہ کورونا کا شکار تھے، صحت یاب ہوکر گھر واپس آ گئے ہیں۔

اس پر بینچ کے سربراہ عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جو وینٹیلیٹر لگنے کے باوجود صحت یاب ہو کر گھروں کو لوٹے ہیں۔

اس پر درخواست گزار کے وکلا کا کہنا تھا کہ یہ سب عوام کی دعاؤں کی وجہ سے ہوا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے وکلا نے بینچ کے سربراہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کے مؤکل کی صحت یابی کے لیے انھوں نے بھی دعائیں کی ہیں جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ لی اور خاموشی اختیار کی۔

ان کے وکلا نے یہ بھی کہا کہ جب ڈاکٹر عبدالقدیر بیمار تھے تو نہ تو وزیر اعظم اور نہ ہی کسی وزیر نے ان کی صحت کے بارے میں پوچھا اور نہ ہی ان کی تیمار داری کی۔

ڈاکٹر عبدالقدیر

اس درخواست کی آخری سماعت 15 ستمبر کو ہوئی تھی اور عدالت نے یہ سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کر دی تھی تاہم درخواست کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے اس کی اگلی تاریخ نہیں دی تھی۔

اس سے قبل سنہ 2008 میں ڈاکٹر عبدالقدیر نے اپنی غیر اعلانیہ نظربندی کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی تو اس میں عدالت نے انھیں نقل و حرکت کی اجازت تو دے دی تھی لیکن اس کو ان کی سکیورٹی کے ساتھ مشروط کر دیا تھا۔

اس عدالتی احکامات کے بعد کچھ عرصے کے لیے ڈاکٹر عبدالقدیر کو محدود پیمانے پر آنے جانے کی اجازت دے دی گئی لیکن اس کے بعد سکیورٹی کے نام پر اس عدالتی حکمنامے پر عمل درآمد روک دیا گیا۔

واضح رہے کہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں جب عبدالقدیر سے ایک ٹی وی بیان میں ایٹمی پھیلاؤ کے بارے میں اعتراف کروایا گیا تھا اور بعد میں انھوں نے اس پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ انھیں ایسا کرنے کا مشورہ سابق وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین اور سابق وزیر قانو ن ایس ایم ظفر نے دیا تھا۔

انھوں نے کہا تھا کہ اس مشورہ میں ان دونوں کا کہنا تھا کہ اس بیان کے بعد ان کے لیے کوئی پرشانی نہیں ہو گی اور وہ باقی زندگی آرام سے گزاریں گے لیکن ایسا نہیں ہوا اور جوں ہی سرکاری ٹی وی پر ان کا اعترافی بیان ختم ہوا تو ڈاکٹر عبدالقدیر کے بقول کچھ لوگ زبردستی انھیں اٹھا کر اپنے ساتھ نامعلوم مقام پر لے گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments