ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وفات: ’اے کیو خان ہمارے ہیرو تھے، انھوں نے ایٹم بم بنانے کے بعد بھی بڑی قربانی دی‘


ڈاکٹر عبدالقدیر خان
پاکستان کے جوہری پروگرام میں کلیدی کردار کے حامل سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اسلام آباد میں وفات پا گئے ہیں
جب میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نماز جنازہ کے لیے اسلام آباد کی فیصل مسجد کے احاطے میں پہنچی اور یہاں موجود ان کے ایک رشتہ دار سے بات کرنا چاہی تو وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کا نام لکھا جائے۔ شاید اب بھی وہ اس حوالے سے محتاط ہیں۔

میں نے جب ان سے پوچھا کہ نظر بندی سے متعلق ڈاکٹر عبدالقدیر کا ردعمل کیسا تھا تو انھوں نے بتایا کہ ان کے یہ تمام سال ’بہت مشکل اور تنہائی میں گزرے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’وہ زندگی سے بھرپور انسان تھے۔ مگر ان کے شکوے تو میڈیا پر بھی نظر آئے۔ یہ قید تنہائی تھی۔ وہ رشتہ داروں سے ملنا چاہتے تھے، وہ فیملی مین تھے۔ مگر یہ ممکن نہیں تھا۔ وہ دبے الفاظ میں شکایت کرتے تھے مگر اب یہی ان کی زندگی کا حصہ تھا۔ آج ایک باب ختم ہوا ہے۔‘

فیصل مسجد کے باہر تیز بارش میں کھڑا دیکھ کر ایک باریش شخص نے مجھ سے پوچھا تھا کہ ’کیا ایسا کوئی امکان ہے کہ آپ آج ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی فیملی سے ملیں؟‘

ہزاروں کے مجمع میں ایسا ممکن نہیں تھا اور اب جبکہ نماز جنازہ بھی ختم ہو چکی تھی اور میں رش کے ڈر سے باہر پارکنگ میں پہلے ایک پولیس وین اور پھر ایک فوجی جیپ کے کور میں تھی۔ اسی دوران ہمیں ڈاکٹر عبدالقدیر کے ایک قریبی رشتہ دار نے جوائن کیا۔ اور پھر ان کے پرانے ساتھی بھی وہیں پہنچ گئے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان

جب ایمبولینس پہنچی تو لوگ اس کے ساتھ لپکے ہوئے تھے

یہاں بے انتہا رش تھا اور مسجد کی پارکنگ سے باہر نکلنا بظاہر ناممکن تھا۔ سو ہم وہیں انتظار میں کھڑے رہے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ان قریبی فیملی ممبر نے بتایا کہ ان سے ملاقات کرنا بہت مشکل کام تھا۔ ’ہم ان کے براہ راست خاندان کا حصہ ہیں۔ مگر ان سے ملاقات اجازت کے بغیر ممکن ہی نہیں تھی۔ ہم پہلے ان سے رابطہ قائم کرتے، پھر وہ سکیورٹی کو ہمارے بارے میں بتاتے، ملاقات کا مقصد بتایا جاتا اور پھر ان سے ملنے کی اجازت ملتی۔‘

مگر اس کے ساتھ وہ یہ بھی دہراتے رہے کہ ’ڈاکٹر اے کیو خان کتنے بڑے ہیرو تھے اس کا اندازہ آج یہاں آنے والوں کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی عوام ان سے محبت کرتی تھی۔‘

یہ بھی پڑھیے

پاکستانی ایٹمی پروگرام کی کہانی

ریاستی مجرم سے ریاستی جنازے تک: ’محسن پاکستان‘ کی قومی خدمت سے قومی مجرم بننے کی داستان

’جوں ہی ٹی وی بیان ختم ہوا کچھ لوگوں نے زبردستی اٹھا کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا‘

اتوار کی شام وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی شاہ فیصل مسجد کے باہر کا منظر صبح سے مختلف تھا۔ صبح جب یہاں آنا ہوا تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وفات کی خبر نہیں آئی مگر یہاں چھٹی منانے والوں کا خاصا ہجوم تھا۔

شام کو یہاں آنے کے تمام راستوں پر پولیس اور فوجی دستے تعینات تھے۔ انٹرنیٹ کام نہیں کر رہا تھا اور لوگ جوق در جوق پیدل ہی مسجد کی جانب آ رہے تھے۔

بعض اوقات کسی گروپ میں شامل کوئی شخص نعرہ لگاتا اور وہاں موجود لوگ اس کا جواب دیتے۔ وی آئی پیز کے لیے مسجد کا مین گیٹ مختص تھا جبکہ عام عوام کے لیے دیگر داخلی راستے کھولے گئے تھے۔

جب ایمبولینس پہنچی تو لوگ اس کے ساتھ لپکے ہوئے تھے۔ اس دوران تیز بارش بھی شروع ہو گئی اور اچانک ہی صف بندی کا اعلان کر دیا گیا۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے جسد خاکی کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر فیصل مسجد کے احاطے میں لایا گیا جہاں ان کی نمازِ جنازہ ادا کیے جانے کے بعد انھیں ایچ ایٹ کے قبرستان میں سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا

ان کی وصیت سے متعلق بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ان کی وصیت تھی کہ ’ایک تو ان کی قبر ان کی اہلیہ کے ساتھ ہو، دوسرا تدفین ایچ ایٹ میں کی جائے۔ (واضح رہے کہ ان کی اہلیہ حیات ہیں)۔ ہم سب نے اصرار کیا تھا کہ حکومت کی مان لیں اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی تدفین فیصل مسجد میں کریں مگر ان کے بچوں نے کہا کہ نہیں، جو وصیت ہے وہی کریں گے۔‘

واضح رہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر کی تدفین کے لیے حکومت کی جانب سے پیشکش کی گئی تھی کہ یہ فیصل مسجد کے احاطے میں کی جائے۔ تاہم ان کے اہلخانہ نے یہ کہہ کر یہ پیشکش مسترد کر دی کہ ان کی تدفین وصیت کے مطابق کی جائے گی۔

ان کے سابق ساتھی نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک شفیق سینیئر تھے۔ ’ایک وقت تھا کہ ان کی ٹیم میں پانچ ہزار لوگ کام کر رہے تھے مگر ان کی کوشش ہوتی تھی کہ سب ان کو یاد رہیں۔ وہ ایک بار ملنے کے بعد نام تک یاد رکھتے تھے۔‘

ان کے سابق ساتھی کہتے ہیں کہ وہ ایک پراجیکٹ میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی سرپرستی میں کام کر رہے تھے ’مگر ایک موقع پر میں اس سے متعلق ایک مسئلے میں پھنس گیا۔ میں اپنے کمپیوٹر پر بیٹھتا اور روز اس کو حل کرنے کی کوشش کرتا۔ ایک دن ڈاکٹر صاحب آئے اور میرے سسٹم پر ناک کیا۔‘

’میں نے مڑ کر دیکھا تو میں گھبرا گیا کہ وہ باس ہیں۔ مگر وہ مسکرائے اور کہنے لگے ’میں سمجھ گیا ہوں کہ آپ کہاں پھنس گئے ہیں۔‘ پھر انھوں نے مجھے سمجھایا کہ کیسے میں اس کو حل کر سکتا ہوں۔ میرے نزدیک یہ ایک سینیئر ہونے کے ناطے ان کی سمجھ بوجھ اور شفقت دونوں کا ہی مظاہرہ تھا۔‘

ان کے ساتھی اور اہلخانہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ایک ایسا ہیرو سمجھتے ہیں جو پاکستانی عوام کی نظر میں تو ہیرو تھے مگر حکمرانوں کی جانب سے انھیں ’بے جا سختی اور تنہائی‘ کا سامنا کرنا پڑا۔

ان کے ساتھی نے ان کی نظربندی سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ ہمارے ہیرو تھے، اور انھوں نے ایٹم بم بنانے کے بعد بھی بڑی قربانی دی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32494 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments