ہندو انتہا پسندی کا چیلنج


بھارت بنیادی طور پر اپنے آئینی ، قانونی اور سیاسی فریم ورک میں ایک سیکولر ریاست ہے ۔لیکن عملی طور پر اس وقت بھارت کی جو تصویر ہم کو دنیا بھر میں نظر آ رہی ہے یا بالادست ہے وہ ہندواتہ کی بنیاد پر سیاست اور انتہا پسندی پر مبنی رجحانات ہیں۔بی جے پی ، آر ایس ایس سمیت دیگر ہندو انتہا پسند جماعتوں کی سیاست نے مودی کی قیادت میں اقلیتوں کے لیے سنگین مشکلات پیدا کردی ہیں ۔انتہا پسندی پر مبنی یہ رجحان محض بھارت کے لیے ہی نہیں بلکہ خطہ کی مجموعی سیاست کے لیے بھی بڑا خطرہ ہے ۔

خود بھارت میں موجود سیکولر سیاست سے جڑے افراد یا ادارے مودی کی انتہا پسندی کی سیاست پر بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھا رہے ہیں او ران کے بقول اگر مودی کی انتہا پسندی پر مبنی پالیسی کا یہ عمل جاری رہا تو ہم داخلی محاذ پر خود کو تنہا محسوس کریں گے ۔اس وقت بھارت میں انتہا پسندوں اور سیکولر طبقہ کے درمیان جاری سیاسی رسہ کشی ظاہر کرتی ہے کہ اس بحران نے مودی کی حکمرانی اور طرز عمل کو بھی چیلنج کیا ہے ۔

حال ہی میں فرانسیسی مصنف کر سٹوف جیفرلاٹ جو کنگز کالج لندن میں بھارتی سیاست اور سماجیات کے پروفیسر ہیں کی کتاب شائع ہوئی ہے ۔ کتاب کا نام Modi’s India: Hindu Nationalism and the Rise of Ethnic Democracy

)مودی کا ہندوستان:ہندو قوم پرستی اور نسل پرستانہ جمہوریت کا ظہور(ہے ۔اس کتاب میں ان کے بقول ہندو انتہا پسند قوم پرست سیلف سنسر شپ کے لیے طرح طرح کے منفی ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ بھارت میں ہندواتہ کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو ملک و قوم دشمنی اور غداری سے جوڑا جاتا ہے ۔اسی طرح اسرائیلی اخبار ہارٹز میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ایک طرف تو بھارتی وزیر اعظم نریند ر مودی اسلامی انتہا پسندی کے خطرے کے بارے میں دنیا بھر کے سربراہوں سے گفتگو کر رہے ہیں لیکن بھارت کو لاحق حقیقی خطرہ انتہا پسند ہندووں کی طرف سے ہے جن کی بدتمیزیوں اور اسلام مخالف تعصب سے خود مودی کی اپنی جماعت بھی محفوظ نہیں ہے ۔

روزنامہ ایکسپریس کے اداریہ کے’’ بقول امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی کی جاری کردہ رپورٹ میں بھی بتایا گیا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر ہندو انتہا پسند مظالم میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے ۔انتہا پسندوں کی جانب سے کسی بھی شخص کو گاو کشی کے الزام میں قتل کیا جاسکتا ہے ، اقلیتوں کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے ، غیر ہندووں کی آبادیوں پر حملے ہوتے ہیں او ر اعلی بھارتی حکام خود انسانی حقوق کی پامالی میں ملوث ہیں۔‘‘

بنیادی طور پر نریندر مودی ہندواتہ کو اپنی سیاست اور انتخابات کے تناظر میں ایک بڑا سیاسی کارڈ سمجھتے ہیں ۔ان کے بقول اگر وہ سیاست اور اقتدار میں کامیاب ہونگے تو ان کی ہتھیار یہ ہی ہندو انتہا پسندی ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس وقت جو بھی بھارت میں ہندو انتہا پسندی کے نام پر ہو رہا ہے او رجو بھی انتہا پسند عناصر وہاں اقلیتوں اور مسلموں کے خلاف کر رہے ہیں ان کو نہ صرف مودی حکومت بلکہ ایک سطح پر ریاست کی سطح پر سرپرستی بھی شامل ہے ۔

یہ ہی وجہ ہے کہ آج بھارت میں انتہا پسند ہندو ماضی کے مقابلے میں زیادہ طاقت ور ہو گئے ہیں او ران کو لگتا ہے کہ مودی حمایت کے ساتھ ہی وہ اپنا ہندواتہ کا ایجنڈا بھارت پر مسلط کر سکتے ہیں ۔ انتہا پسند ہندو برملا یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ جس نے بھی بھارت میں رہنا ہے اسے ہندواتہ کی سیاست اور اجارہ داری کو قبول کرنا ہوگا ۔بھارت کے یہ انتہا پسند ہندو اور ان کے سرپرست نریند ر مودی برملا کہتے ہیں کہ ہم سیکولر ریاست کے مقابلے میں ہندواتہ کی ریاست چاہتے ہیں ۔

خود پاکستان کی ریاست کئی دہائیوں تک مسلم انتہا پسندی کا شکار رہی ہے اور آج بھی اس کی شکلیں کسی نہ کسی سطح پر موجود ہیں ۔ لیکن پاکستان نے جس حکمت عملی کے ساتھ انتہا پسندی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دہشت گردی سے نمٹنے کی جو جنگ لڑی ہے اس کی کامیابی کا ہر سطح پر اعتراف کیا جانا چاہیے ۔ اگرچہ یہ جنگ ابھی موجود ہے لیکن ماضی کی شکل سے بہت مختلف ہے اور ہم نے کافی حد تک اس جنگ میں خود کو سرخرو کیا ہے ۔

یہ جنگ بدستور لڑی بھی جا رہی ہے اور نیشنل ایکشن پلان، پیغام پاکستان، دختران پاکستان سمیت ہائبرڈ وار سے نمٹنا ہی اس جنگ کا حصہ ہے ۔لیکن ہمارے مقابلے میں بھارت اب جس تیزی سے مذہبی انتہا پسندی کی جانب بڑھ رہا ہے وہ بھی ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے ۔ لیکن لگتا یہ ہے کہ مودی حکومت نہ تو اپنے تجربات سے کچھ سیکھنا چاہتی ہے اور نہ ہی دنیا کے تجربات سے کچھ سیکھ کر انتہا پسندی کے مقابلے میں امن اور رواداری کی سیاست کو لے کر آگے بڑھنا چاہتا ہے ۔

مسئلہ محض ہندو انتہا پسندی کا ہی نہیں بلکہ مودی اور سخت گیر ہندو انتہا پسند عناصر پاکستان مخالفت میں بھی پیش پیش نظر آتے ہیں ۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں خرابی ، ڈیڈ لاک اور مقبوضہ کشمیر میں تاریخ کی بدترین انسانی حقوق کی پامالی میں بھارت پیش پیش نظر آتا ہے ۔ اس وقت مودی حکومت کی حکمت عالمی دنیا میں پاکستان کو سیاسی اور سفارتی محاذ پر تنہا کرنا ، الزام تراشی کی سیاست اور خاص طور پر آج کل اس کے ایجنڈے کا اہم حصہ افغانستان کو غیر مستحکم کرنا اور وہاں کے بحران کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالنا ہے ۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو بھارت اپنے لیے بڑا خطرہ سمجھتا ہے او راس کی اب حکمت عملی یہ ہی ہے کہ افغانستان کے بحران کو اور زیادہ خراب کر کے پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کیا جائے ۔

سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ آج جو کچھ بھارت میں ہو رہا ہے اس پر عالمی دنیا ، طاقت ور بڑے ممالک اور عالمی فورمز خاموش ہیں ۔ ان کی آوازوں میں وہ شدت نہیں جو دنیا چاہتی ہے ۔ بظاہر ایسا لگتا ہے جیسے عالمی دنیا بھارت کی منفی سیاست کے خلاف مزاحمت کرنے یا ان پر دباو ڈالنے کی بجائے ان کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے ۔عالمی دنیا میں انسانی حقوق اور مذہبی آزادیوں پر کام کرنے والے اداروں کی اہم رپورٹس پر بھی دنیا خاموش ہے ۔

بالخصوص جو بربریت ہمیں مقبوضہ کشمیر میں نظر آ رہی ہے اس پر عالمی دنیا واقعی بے حسی کا شکار ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بھارت کی انتہا پسندی اور پرتشدد سیاست کی چوہدراہٹ اور زیادہ مضبوط یا ڈھٹائی کی صورت میں نظر آتی ہے ۔بھارت مقبوضہ کشمیر پر کسی بھی قسم کی عالمی ثالثی کے لیے بھی تیار نہیں او رجو بھی بھارت کو پاکستان سے تعلقات کی بہتری کا دعوت دیتا ہے تو بھارتی رویہ اس دعوت کے خلاف نظر آتا ہے ۔پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت دونوں ماضی سے نکل کر مستقبل کی طرف اور علاقائی استحکام اور معاشی ترقی کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا چاہتی ہے ۔

اسی تناظر میں ہم تواتر کے ساتھ بھارت کو بامقصد مذاکرات اور تعلقات کی بہتری کی دعوت دے رہے ہیں کہ ہمیں ماضی کے تناو ، ٹکراو اور تضادات سے باہر نکل کر مستقبل کی طرف پیش قدمی کرنا چاہیے ۔لیکن بھارت اس حوالے سے آگے کی سطح پر بڑھنے کے لیے تیار نہیں ۔حالانکہ اس وقت علاقائی سطح پر تمام ممالک کے درمیان باہمی تعاون ، معاشی ترقی ، سیاسی اور سماجی بنیادوں پر عملا ایک دوسرے کی مدد کے ساتھ علاقائی ترقی کے عمل کو آگے بڑھانے کی ہونی چاہیے۔

بھارت کی اس عمل میں بڑی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عملی طور پر مثبت کردار کے ساتھ باقی ممالک کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کو بہتر بنائے اور بلاوجہ انتہا پسندی، مذہبی تفریق اور نفرت یا کسی تعصب کی بنیاد پر بلاوجہ کا ٹکراو پیدا کرے ۔ اس عمل میں اگر پاک بھارت تعلقات بہتر ہوتے ہیں اور دونوں مل کر انتہا پسندی اور مذہبی طور پر موجود جنونیت کا مقابلہ کرنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی اختیار کریں تو یہ ہی عمل دونوں ممالک سمیت خطہ کی ترقی ، خوشحالی او رامن کی عملی سیاست میں کلیدی کردار ادا کرنے کا سبب بن سکتا ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments