ڈاکٹر عبد القدیر خان سے ایک ملاقات


دس اکتوبر 2021 کی صبح پاکستان کے ہیرو، پاکستان کے محسن، ڈاکٹر عبد القدیر خان جو پاکستانیوں کے دلوں میں بستے تھے راہی ملک عدم ہوئے۔ ان کی رحلت پر ہر پاکستانی مغموم ہے۔ ہر آنکھ اشکبار ہے۔ وہ پاکستان کے ہیرو، اسے ناقابل تسخیر بنانے والے قومی سپوت تھے۔ عجیب اتفاق ہے کہ اس عظیم شخصیت سے میری ملاقات ٹھیک پانچ برس قبل 2016 میں اسی تاریخ یعنی دس اکتوبر کو ہی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر قدیر صاحب سے میرا تعارف ہمارے ایک مشترکہ دوست ناصر ناکاگاوا نے کرایا تھا۔ میں آسٹریلیا سے پاکستان گیا تو ڈاکٹر صاحب کو اپنے آنے کی اطلاع دی۔ انہوں نے اگلے ہی دن اپنے گھر مدعو کر لیا۔

دس اکتوبر کی خوشگوار شام لگ بھگ چار بجے ہم دامن کوہ میں واقع ڈاکٹرصاحب کی رہائش گاہ کے باہر پہنچے۔ میرے ہمراہ میرا چھوٹا بھائی خالد محمود مرزا بھی تھے، جن کے بارے میں سیکورٹی والے ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی سب کچھ معلوم کر چکے تھے کیونکہ وہ قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں۔ تاہم یہ چست عملہ میرا پس منظر جاننے کے لئے بے تاب تھا جب کہ میرا ریکارڈ خاموش تھا۔ بہرحال انہوں نے اپنی تسلی کی۔ میرے ہاتھ میں کتابیں دیکھ کر انہیں اندازہ ہو گیا کہ میرا تعلق شعر و ادب سے ہے۔

ان مراحل سے گزر کر اندر پہنچے تو سادہ سی قمیص او ر پتلون میں ملبوس دراز قد اور با رعب شخصیت کے مالک ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے مرکزی دروازے پر ہمارا پرتپاک استقبال کیا۔ یہ سادہ سی شخصیت کروڑوں پاکستانیوں کے دلوں میں بستی ہے جب کہ دشمنوں کے دلوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے وسیع و عریض ڈرائنگ روم کے ایک گوشے کو آرام کرسی، تپائی اور بے شمار کتابوں کے ساتھ لکھنے پڑھنے کا گوشہ بنایا ہوا تھا۔

انہوں نے ہمیں بیٹھنے کی دعوت دی اور خود اپنی آرام کرسی پر براجمان ہو گئے۔ ان کے چہرے اور رنگت سے نقاہت ظاہر ہو رہی تھی لیکن جب انہوں نے گفتگو شروع کی تو اس میں تھکن کا شائبہ تک نہ تھا بلکہ روانی اور شگفتگی تھی۔ ابتدا میں آسٹریلیا اور یورپ اور ان کے طرز حیات کا ذکر ہوا۔ آسٹریلیا میں ادبی اشغال پر گفتگو ہوئی۔ میں نے اپنی دو کتابیں ’خوشبو کا سفر‘ اور ’تلاش راہ‘ انہیں پیش کیں۔ علاوہ ازیں میں نے اپنی اگلی کتاب سفر عشق (سفرنامہ حج) کا مسودہ پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب سے درخواست کی کہ وہ مسودہ پڑھ کر اپنی رائے تحریر کر دیں تو میری بہت حوصلہ افزائی ہو گی۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا۔ ”میری صحت اچھی نہیں رہتی ہے۔ ہفتے میں دو کالم بھی لکھنے ہوتے ہیں جس سے تھک جاتا ہوں۔ پھر بھی کوشش کروں گا“

ڈاکٹر صاحب نے ہمیں دو کتابیں عنایت کیں ان میں سے ایک کتاب کا نام ہے ’نوادرات‘ ۔ اس کتاب میں ڈاکٹر خان نے مختلف شعرائے کرام کے کلام کا انتخاب مجتمع کیا ہے۔ اس میں ریاضؔ خیر آبادی سے صوفی غلام تبسمؔ تک مختلف اساتذہ اور مختلف شعراء کے کلام سے انتخاب شامل ہے۔ اس کتاب کے آغاز میں ڈاکٹر پیرزادہ قاسمؔ، عبد القادر حسن، زاہد ملک، ناصرؔ زیدی اور علی زیدی نے اپنے تاثرات قلم بند کیے ہیں۔ محسن پاکستان نے اپنی خوبصورت تحریر میں آٹو گراف کے نیچے یہ اشعار لکھے۔

اس ملک بے مثل میں ایک مجھ کو چھوڑ کر
ہر شخص بے مثال ہے اور باکمال ہے
گزر تو خیر گئی ہے تیری حیات قدیر
ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے

ان اشعار سے ڈاکٹرصاحب کے دل میں موجود حزن و ملال مترشح ہے۔ کاش کہ ہم اپنے محسن کا یوں دل نہ دکھاتے۔ ڈاکٹرصاحب نے ہمیں جو دوسری کتاب عنایت کی اس کا نام ہے ’خراج تحسین‘ ۔ اس کتاب میں محسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان اور ان کے رفقائے کار کو ملک بھر کے شعرائے کرام کا منظوم خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔ اس کتاب پر ڈاکٹر صاحب نے آٹو گراف کے بعد لکھا۔ :

ملی ہے علم کی دولت قدیر خان کو پیہم
بنا ہے عیش تجمل حسین خان کے لئے

اس شعر میں بھی معاشرے کے منفی رویوں پر طنز ہے، جہاں علم و ہنر کی قدر نہیں ہے بلکہ دولت ہی سب کچھ سمجھی جاتی ہے۔ کتابوں کے تبادلے کے بعد ڈاکٹر صاحب سے مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ میں نے انہیں آسٹریلیا میں ہونے والی ادبی سرگرمیوں سے آگاہ کیا۔ ادب کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا ”یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ اردو زبان و ادب نے دنیا کے مختلف حصوں میں ترقی کا سفر جاری رکھا ہوا ہے۔ امریکہ، یورپ، مشرق وسطیٰ، جاپان اور آسٹریلیا ہر جگہ اردو ادب پر کام ہو رہا ہے۔

ماشاء اللہ بہت اچھی کتابیں لکھی جا رہی ہیں۔ تاہم پڑھنے والے کم ہیں۔ انہوں نے مزید کہا“ کاش ہمارے حکمرانوں کو بھی پڑھنے لکھنے کا شوق ہوتا۔ اتنی اچھی کتابیں اور کالم لکھے جاتے ہیں لیکن حکمرانوں نے جیسے نہ پڑھنے کی قسم کھائی ہے۔ اس لیے نہ وہ سیکھ پاتے ہیں اور نہ عوام کی آواز ان تک پہنچ پاتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ معاشرے میں علم و ادب کی قدر نہیں ہے۔ یہاں پیسے والوں کا طوطی بولتا ہے چاہے یہ پیسہ جس طریقے سے بھی کمایا ہو۔ ”

میں نے پوچھا ”موجودہ دور کے شعرا اور ادبا میں کس کی تخلیقات پسند ہیں؟“

ڈاکٹر صاحب نے کہا ”طارق بھائی، بہت طویل فہرست ہے۔ بہت سے لوگ ہیں جو بہت اچھا لکھ رہے ہیں۔ تاہم یہ کلام عام لوگوں تک پہنچ نہیں پاتا۔ اول تو پڑھنے کا رواج کم ہو گیا ہے دوسرا یہ کہ معیاری ادب کے قاری محض گنے چنے ہیں۔“

میں نے سوال کیا ”ڈاکٹر صاحب! آج کے اور پچاس برس قبل کے پاکستان میں کیا فرق ہے؟“

ڈاکٹر صاحب مسکرائے، پھر سنجیدہ ہوئے ”پچاس برس قبل ہم ترقی کے سفر پر گامزن تھے۔ کرپشن کم تھی اور سادہ زندگی تھی۔ کچھ اصول و ضوابط پر عمل ہوتا تھا۔ حکمران بھی بہتر تھے۔ آج کل سب کچھ بدل گیا نفسا نفسی ہو گئی ہے۔ مال و دولت کے پیچھے بھاگنے کا چلن عام ہے۔ سب سے لاپروا ہمارے حکمران ہیں۔ وہ چاہتے ہی نہیں کہ ہمارا ملک ترقی کر کے دنیا میں کوئی مقام حاصل کرے۔ ایک بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق دنیا کی ایک ہزار اچھی یونیورسٹیوں میں پاکستان کی صرف ایک یونیورسٹی ہے۔

ہماری کوئی اور یونیورسٹی اس معیار کے قریب بھی نہیں ہے۔ میں نے اس معاملے پر کافی غور کیا۔ بہت سی ریسرچ کی اور ماہرین تعلیم کی مدد سے ایک جامع رپورٹ تیار کی کہ ہماری یونیورسٹیوں کا معیار کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ یہ بہت مشکل اور محنت طلب کام تھا۔ یہ رپورٹ ایک عرصے سے حکومت کے ایوانوں میں پڑی خاک چاٹ رہی ہے۔ کوئی وزیر، مشیر اور افسر اس پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں ہے“

میں نے سوال کیا ”اس طرح کی سفارشات آپ نے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے اور بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لیے بھی تیار کی تھیں، اس کا کیا بنا؟“

ڈاکٹرصاحب نے آہ بھری اور فرمایا ”وہی جو میری تعلیمی سفارشات کا بنا۔ کوئی چاہتا ہی نہیں کہ لوڈ شیڈنگ کا عذاب ملک سے ختم ہو۔ وہ کوئی ایسا منصوبہ نہیں بنانا چاہتے جس سے ملک کے وسائل بڑھیں اور باہر سے درآمد کم ہو اور ملک پر بوجھ کم ہو۔ حکمران اس طرح کے منصوبوں میں دلچسپی لیتے ہیں جن میں ان کو کمانے کا موقع ملے۔ میں تو کب سے پیٹ رہا ہوں کہ باہر سے مہنگی بجلی اور مہنگے پروجیکٹ خریدنے کے بجائے ملکی وسائل کو استعمال کر کے بجلی پیدا کی جائے۔

مگر حکمرانوں کو میری یہ بات پسند نہیں ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں۔ دیکھیں میں نے تو اپنی پوری زندگی پاکستان کے لیے وقف کر دی ہے۔ یورپ میں میرا شاندار مستقبل تھا، وہ چھوڑ چھاڑ کر صرف پاکستان کی خدمت کے لیے یہاں چلا آیا۔ یہاں میرے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے اس کو تو چھوڑیں، میرے منصوبے اور میری سفارشات جو ملک کے لیے ہیں ان کو بھی درخور اعتناء نہیں سمجھا جاتا“ فضا بوجھل ہو گئی۔ اتنے میں ڈاکٹرصاحب کا ملازم چائے اور دیگر لوازمات لے کر آیا۔ چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے میں نے ڈاکٹر صاحب سے دریافت کیا ”آج کل آپ کے کیا مشاغل ہیں۔ لکھنے لکھانے کا سلسلہ جاری ہے کیا؟“

اس سوال سے ان کے چہرے کا تناؤ قدرے کم ہوا ”طارق بھائی بس یہی ایک شغل باقی ہے۔ ہفتے میں دو کالم لکھتا ہوں۔ ایک انگریزی اور ایک اردو میں۔ اس کے علاوہ گاہے گاہے سائنسی مضامین بھی لکھتا ہوں۔ پھر بھی وقت بچ جاتا ہے تو آپ جیسے اچھے ادیبوں اور شاعروں کو پڑھ کر دل بہلاتا ہوں۔ اس عمر میں اس سے زیادہ ہو بھی نہیں سکتا۔ سفر وغیرہ سے پرہیز کرتا ہوں پھر کبھی کبھی ٹی وی انٹرویوز اور عزیز و اقارب سے ملنے کراچی جانا پڑتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے میری دونوں کتابوں کی ورق گردانی کرتے ہوئے کہا بھئی سفرنامے تو مجھے پسند ہیں لیکن ناول اور افسانے پڑھنے کا زیادہ شوق نہیں ہے۔ یوں بھی یہ وقت کا زیاں ہیں۔ بہرحال آپ لکھتے رہیں۔ آپ جیسے لوگ معاشرے کا دماغ، آنکھ اور زبان ہوتے ہیں۔ جس معاشرے میں لکھنے والے لکھتے ہوں اور لوگ پڑھتے ہوں وہ تشدد اور بے راہ روی سے بچا رہتا ہے۔ آپ نے آسٹریلیا میں رہ کر دیکھا ہو گا کہ مغرب میں مطالعہ کا رواج کتنا عام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان معاشروں میں تحمل، برداشت اور رواداری بھی عام ہے۔ ایک پڑھا لکھا شخص تشدد، انتہا پسندی اور عدم رواداری کا مرتکب نہیں ہو سکتا۔“

ہم نے دو دفعہ اجازت چاہی لیکن ڈاکٹر صاحب نے نہایت شفقت سے بیٹھنے کے لیے کہا۔ آخر میں رخصت ہونے لگے تو ڈاکٹر صاحب نے باہر آ کر بہت شفقت اور محبت سے الوداع کیا۔ اس ملاقات کے ایک ہفتے بعد ڈاکٹرصاحب کا فون آیا۔ انہوں نے کہا طارق بھائی میں نے آپ کی زیر طبع کتاب کا مسودہ پڑھا ہے۔ یہ بہت اچھی کاوش ہے میں نے اپنا تبصرہ تحریر کر دیا ہے اور آپ کو پوسٹ کر رہا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب کی صحت اور دیگر مصروفیات کے پیش نظر مجھے امید نہیں تھی کہ وہ مسودہ پڑھ کر اپنی رائے دے پائیں گے۔

اگلے دن ٹی سی ایس کے ذریعے کتاب کا مسودہ اور ڈاکٹر صاحب کا نہایت خوشخطی سے تحریر کردہ تبصرہ مل گیا۔ ان کی تحریر پڑھ کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اتنے عظیم انسان نے میری تحریر کی اتنی تعریف کی کہ مگر میرا کلیجہ دگنا ہو گیا۔ محسن پاکستان کا یہ تبصرہ میرے لیے ایوارڈ اور اعزاز سے کم نہیں ہے۔ انہوں نے لکھا ”مرزا صاحب نے کتاب کیا لکھی ہے کہ عشق الہٰی اور عشق رسولﷺ میں کلیجہ نکال کر رکھ دیا ہے آپ نے نہ صرف راستے کے سفر کی تفصیلات قلم بند کی ہیں بلکہ مکہ شریف اور مدینہ شریف میں دلی تاثرات پلیٹ میں رکھ کر پیش کر دیے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ طارق محمود مرزا صاحب جس طرح ہمیں اپنے ساتھ لے کر چلتے ہیں تو بالکل یہی احساس ہو تا ہے کہ ہم خود حج کر رہے ہیں اور تمام مراحل سے گزر رہے ہیں۔ یہ کتاب دلی جذبات، عشق رسولﷺ و عشق الہٰی کی نہایت اعلیٰ عکاسی ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ وہ تمام لوگ جو حج کا فریضہ ادا کرنا چاہتے ہیں وہ اس کتاب کا مطالعہ کریں اور پھر حج پر جائیں“

ڈاکٹر قدیر خان اقبال کے وہ دیدہ ور ہیں جو ہزاروں سال کی بے نوری کے بعد پیدا ہوتے ہیں۔ دعا ہے کہ پروردگار ان کو جوار رحمت میں بلند مقام عنایت فرمائے اور پاکستان کو ہمیشہ قائم اور دائم رکھے۔ آمین۔

قدیر خان کے زمانے میں اگر ہوتے اقبال
قصیدہ کہتے وہ اس مرد جاوداں کے لیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments