مذہب کی آڑ میں سیاسی ناکامیاں چھپانے کی کوشش


امریکہ نے واضح کیا ہے کہ اسے پاکستان کے ساتھ وسیع الجہتی تعلقات کی ضرورت نہیں ہے البتہ افغانستان کی صورت حال کے حوالے سے تعاون جاری رہے گا۔ تاہم پاکستان کی وزارت خارجہ نے اس معاملہ پر خاموش رہنا مناسب خیال کیا ہے۔ پاکستانی میڈیا میں مسلسل چہ میگوئیوں ہورہی ہیں کہ پاک فوج میں حالیہ تبدیلیوں کے بارے میں طریقہ کار کے مطابق وزیر اعظم ہاؤس سے نوٹی فیکیشن جاری نہیں ہؤا ۔ کیا یہ حکومت اور فوج کے درمیان عدم اعتماد کی نشانی ہے؟ وزیر اعظم ہاؤس نے اس پر کوئی تبصرہ کرنا ضروری نہیں سمجھا۔

وزیر اعظم عمران خان نے البتہ عید میلادالنبیﷺ کے حوالے سے عشرہ رحمت للعالمین منانے کا اعلان کیا ہے۔ اس سلسلہ میں منعقد ہونے والی پہلی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے ’رحمت للعالمین اتھارٹی‘ بنانے کا اعلان کیا اور بتایا کہ اس اتھارٹی کے سرپرست وہ خود ہوں گے اور یہ ادارہ پاکستان اور دنیا میں اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرے گا، اسلامی تاریخ کی شان و شوکت بیان کرے گا اور اس مدینہ ریاست کا سبق عام کیا جائے گا جو رسول پاکﷺ کی قیادت میں انتہائی مختصر وقت میں معرض وجود میں آئی اور آج بھی بنی نوع انسان کے لئے مثال ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ اسے مغربی ’فحاشی‘ سے نجات دلا کر سنت نبوی ؑکے راستے پر گامزن کیا جائے کیوں کہ اللہ کا وعدہ ہے کہ ’اگر مسلمان رسول ؑکا بتایا ہؤا راستہ اختیار کریں گے تو وہ اس ملک کو اوپر لے جائے گا‘۔ اب وزیر اعظم کی قیادت میں اس سبق کو عام کرنے کا اہتمام ہوگا تاکہ پاکستان پر رحمتوں کا نزول ہو۔

پاکستان کی مختصر تاریخ گواہ ہے کہ کوئی بھی حکومت اور لیڈر اسی وقت مذہب کو ’لاٹھی‘ بنانے کا عزم کرتا ہے جب اس کے پاس عوام کو درپیش مسائل کا کوئی حل نہ ہو اور حقیقی مسائل سے توجہ مبذول کروانے کے لئے عقیدہ کو ہتھکنڈا بنا کر لوگوں میں افتراق، بے چینی اور پریشان خیالی کو عام کرنا مقصود ہو تاکہ حکمران وقت کی سیاسی غلطیوں کی بجائے معاشرے میں غیر ضروری مباحث کا آغاز ہو۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایسی ہی مشکل سے نجات پانے کے لئے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے، شراب پر پابندی لگا نے اور جمعہ کو ہفتہ وار چھٹی جیسے اقدامات کئے تھے لیکن یہ ’دینی اقدامات‘ بھی نہ تو ان کے اقتدار کو طول دے سکے اور نہ ہی انہیں پھانسی کے پھندے سے بچا سکے۔ ان کے جانشین ضیا الحق نے افغانستان میں سوویت کمیونزم کے خلاف امریکی جنگ کو اسلامی جہاد کا لبادہ پہنا کر نفرت، فرقہ پرستی، انتہا پسندی اور تشدد کا بیج بویا تھا ۔ اس شدت پسندی سے پیدا ہونے والے رجحانات نے پاکستانی معاشرہ کو اندر سے کھوکھلا کیا اور ملکی معیشت بتدریج رو بہ زوال ہوئی۔

اسی فوجی آمر نے خود کو اللہ کا سپاہی ثابت کرنے اور پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کے لئے توہین مذہب کے قانون میں انسانیت سوز شقات شامل کیں۔ ان شقات کی وجہ سے ملک میں توہین مذہب کو مذاق بنا لیا گیا اور ہر طبقہ کے لوگ اسے ذاتی مفاد کے لئے استعمال کر کے مذہب کی بدنامی کا سبب بنتے ہیں۔ تاہم اس معاملہ کی مذہبی حساسیت کی وجہ سے کسی کو ان قوانین کو تبدیل کرنے یا ضیا الحق کی ناجائز ترامیم ختم کرنے کا حوصلہ نہیں ہؤا۔ توہین مذہب کا یہ قانون نافذ ہونے کے بعد سے یوں گمان ہونے لگا ہے کہ پاکستان میں لوگوں کا واحد مشغلہ ہی توہین مذہب ہے جس کے تدارک کے لئے ضیاالحق جیسے مرد مومن کو ایسی شقات نافذ کرنا پڑیں جو نہ تو کسی دوسرے اسلامی ملک میں دکھائی دیتی ہیں اور نہ ہی اسلامی فقہ میں اس کی کوئی ناقابل تردید مثال تلاش کرنا ممکن ہے۔ اس کے باوجود پاکستان اس سفر رائیگاں سے گریز کا سامان کرنے کے قابل نہیں ہے۔

اب عمران خان پر یہ القا ہؤا ہے کہ گزشتہ پندرہ سو برس کے دوران کسی مسلمان کو اسلامی تاریخ، سیرت النبیﷺ اور مدینہ ریاست کی خوبیاں سامنے لانے کی توفیق نہیں ہوئی ، اس لئے اللہ تعالیٰ نے شاید انہیں اس نیک کام کے لئے چن لیا ہے۔ وزیر اعظم کا دعویٰ ہے کہ ترقی و خوشحالی کے لئے کوئی کام اس وقت تک انجام نہیں پا سکتا جب تک اس ملک کے عوام سیرت النبیﷺ سے مکمل طور سے آگاہ نہ ہوں اور سنت نبویؑ پر عمل پیرا نہ ہوں۔ اس لئے اب رحمت للعالمین اتھارٹی کے ذریعے یہ مقصد حاصل کیا جائے گا۔ اسلام آباد کی تقریب میں طویل تقریر کے دوران عمران خان نے اس اتھارٹی کے حوالے سے جو باتیں کی ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں خود بھی اس کے خد و خال سے آگاہی نہیں ہے ۔ لیکن وہ امور حکومت کے ہر پہلو میں اپنی حکومت کی ناکامیوں کو عوام کی ’بداخلاقی، لاعلمی اور گمراہی ‘ کا سبب قرار دے کر اب دین کے نام پر ایک نیا شوشہ چھوڑ رہے ہیں اور ملک میں ایک نئے افتراق اور پریشان خیالی کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں۔ انہیں اس بات سے غرض نہیں کہ ان کے اقدامات سے ملک میں پہلے سے غیر محفوظ مذہبی اقلیتوں کے حقوق متاثر ہوں گے یا مسلمانوں میں فروغ پانے والی انتہا پسندی مزید راسخ ہوگی جس سے دہشت گردی کا سبب بننے والی شدت پسندی پھیلے گی۔ نفرت اور انتہا پسندی سے نجات پانے کے کسی منصوبہ کا اعلان کرنے کی بجائے سرکاری سرپرستی میں تعصبات اور خود پسندی کے ایک نئے مزاج کو عام کرنے کا اعلان کیا جارہا ہے۔

مغربی ممالک کے کامیاب انسانوں کو گمراہ کرنے والے رول ماڈل قرار دے کر ملک کے وزیر اعظم نے اپنے نوجوانوں کو پیغام دیا ہے کہ اللہ کا بتایا ہؤا سیدھا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی راستے کے خد وخال واضح کرنے کے لئے اب عمران خان نے خود اپنی نگرانی میں رحمت للعالمین اتھارٹی بنائی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس اتھارٹی کے مختلف شعبوں کو مسلمہ اسلامی اسکالروں کی نگرانی میں چلایا جائے گا۔ تاہم وہ یہ بتانے سے قاصر رہے کہ خود اپنے بقول ساری زندگی ’ گمرہی‘ میں گزارنے کے بعد وہ خود کو کیسے اس قابل سمجھتے ہیں کہ پیغمبر اسلام کی زندگی سے سبق سیکھنے کی تگ و دو کرنے کی بجائے، وہ اس اتھارٹی کا سرپرست اعلیٰ بن رہے ہیں جو پاکستان کے علاوہ باقی دنیا کے لوگوں کو بھی دین کا درست راستہ بتائے گی؟ اور جس میں ہر کام اسلامی اسکالروں کی رہنمائی میں انجام پائے گا۔ کیا ایک خالص مذہبی ادارے کو سیاسی نگرانی میں دینے کا واحد مقصد اسے سیاسی فائدے کے لئے استعمال کرنا نہیں ہے؟

’رحمت للعالمین ا تھارٹی‘ کا نقشہ ابھی غیر واضح ہے تاہم وزیر اعظم نے آج اس حوالے سے جو باتیں کی ہیں ، ان سے یہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ وہ اپنی حکومت کی انتظامی، معاشی اور دیگر شعبوں میں ناکامی کو چھپانے کے لئے اب مذہبی لبادہ پہن کر خود کو تقدیس کے کسی ایسے مقام پر فائز کرنے کا ارادہ ظاہر کررہے ہیں جو ہر قسم کی تنقید اور احتساب سے بالا ہوگا۔ عمران خان کی نگرانی میں یہ اتھارٹی نصاب تعلیم سے لے کر میڈیا پر نشر ہونے والی ہر بات کی نگرانی کا فریضہ ادا کرے گی۔ یہ وہی طریقہ جو دنیا کے بدترین فاشسٹ لیڈر اپنے اپنے وقت میں اختیار کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ مذہبی علامات استعمال کرکے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کا طریقہ عمران خان کی خواہش کے مطابق شاید انہیں’ ناقابل تسخیر‘ تو نہ بنا سکے لیکن پہلے سے تقسیم شدہ معاشرہ میں مزید انتشار ضرور پیدا ہوگا۔ ایک ایسے موقع پر جب مذہب اور ریاست کو الگ کرنے کے اقدامات ضروری تھے، عمران خان کی حکومت وہ کام بھی اپنے ذمہ لینا چاہتی ہے جو ملک کے لاکھوں مولوی اور قریب35000 مدارس پہلے سے انجام دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس سے پہلے خیراتی منصوبوں کو احساس پروگرام کے نام پر ’نیشنلائز ‘ کرنے کی کوشش کی جا چکی ہے ۔ اب دین کی تفہیم میں سرکاری اور غیر سرکاری اسلام کی نئی تقسیم پیدا کرنے کا افسوسناک کام کیا جائے گا۔

عمران خان نے اسلامی ریاست کی مثال دیتے ہوئے کہا ہے کہ: ’ حضورﷺ کی ساری محنت انسانوں کے لئے تھی۔ دنیا کی بڑی جمہوریتیں بھی تصور نہیں کرسکتیں کہ خلیفہ وقت حضرت علیؓ ایک یہودی شہری سے عدالت میں کیس ہار جاتے ہیں۔ حضرت علی کا مقام دیکھیں کتنا بڑا تھا لیکن جج کہتا ہے میں آپ کی بیٹی کی گواہی قبول نہیں کرتا۔ یہ انسانیت کا نظام تھا اور سب انسان برابر تھے۔ ایک یہودی کو بھی ملک کے سربراہ سے وہی انصاف مل رہا تھا‘۔ وزیر اعظم تاریخ کا سبق یاد کروانے سے پہلے اگر یہ بتادیتے کہ ان کے نئے پاکستان میں انصاف کی فراہمی کے لئے کیا اقدمات کئے گئے اور کیا انہوں نے ملکی اقلیتوں کے خلاف ہونے والے کسی ایک واقعہ کا نوٹس لے کر کسی قصور وار کو کیفر کردار تک پہنچانے کا اہتمام کیا ہے؟

اسی طرح یہ بیان کہ ’ سیرت نبوی ﷺ انسانوں کو اکٹھا کرنے کا تصور تھا۔ قیادت کا پیمانہ دیا کہ ایک قائد انسانوں کو اکٹھا کرتا ہے، نفرتیں پھیلا کر تقسیم نہیں کرتا‘۔ کیا عمران خان خود اپنا سراپا اس آئینے میں دیکھنے کا حوصلہ کرسکتے ہیں؟ ان کی گفتگو، طرز سیاست اور الزام تراشی کے ہتھکنڈوں نے اس قوم کو تقسیم کیا ہے۔ ملک میں گروہ بندی بڑھی ہے اور نفرتوں میں اضافہ ہؤا ہے۔ وہ اپنے سیاسی مخالفین پر ایسے الزامات عائد کرتے ہیں جو ابھی تک کسی عدالت میں ثابت نہیں ہوئے ۔ پاناما پیپرز سامنے آنے پر مخالفین کو کیفر کردار تک پہنچانے کا تہیہ کرنے والے پنڈورا پیپرز میں اپنے ساتھیوں کے کارناموں پر خاموش ہونا بہتر سمجھتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ ’عظمت اور خود ساختہ دیانت‘ کا تاج پہنے خود کو سرفراز کرنے میں حجاب نہیں کرتے۔

عمران خان جان لیں کہ ملک میں مہنگائی، معاشی پریشانی، اجناس کی کمیابی اور بدامنی اصل مسائل ہیں۔ حکومت ان مسائل پر توجہ دینے کی بجائے تبلیغ دین کو اپنا نصب العین قرار دے کر اپنی ناکامی کا اقرار کررہی ہے۔ یہ اعلانات وزیر اعظم اور حکمران جماعت کی سیاسی غلطیوں اور معاشی ناکامیوں پر پردہ نہیں ڈال سکیں گے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments