سٹیلتھنگ: سیکس کے دوران کونڈم کیوں اتارا؟ دو امریکی خواتین نے قانون سازی کا مطالبہ کر دیا


آج سے تقریباً 30 برس قبل بطور طوائف کام شروع کرنے کے چند ماہ بعد ہی میکسین ڈوگن حاملہ ہو گئی تھیں۔

وہ ایک نئے کلائنٹ کے ساتھ اینکوریج الاسکا کے مساج پارلر میں تھیں جب اس نے جنسی عمل کے دوران بغیر بتائے کونڈم اتار دیا۔

اس حرکت سے انھیں جھٹکا لگا اور وہ باتھ کی جانب بھاگیں، لیکن جب وہ واپس آئیں تو وہ شخص جا چکا تھا۔

ڈوگن اس وقت 20 کے پیٹے میں تھیں اور انھوں نے فوراً ایک قریبی صحت مرکز سے ٹیسٹ کروائے تھے تاکہ یہ پتا لگایا جا سکے کہ کہیں کوئی جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماری تو انھیں نہیں لگ گئی۔ تمام ٹیسٹوں کے نتائج منفی دیکھ کر انھوں نے شکر ادا کیا۔

چھ ہفتے بعد ڈوگن نے اسقاط حمل کروا لیا۔ اس کا خرچہ 300 ڈالر تک تھا (جو آج کے ایکسچیج ریٹ کے مطابق 220 پاؤنڈ بنتا ہے) اور اس کے بعد ایک ماہ تک وہ کام نہیں کر سکیں۔

اس شخص نے ان کے ساتھ جو کیا وہ غلط تھا۔ لیکن انھیں یہ معلوم تھا کہ یہ غیرقانونی نہیں تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘ایسے عمل کے حوالے سے کہیں بھی قانونی چارہ جوئی نہیں کی جا سکتی تھی۔’

تاہم اب امریکہ کی ایک ریاست میں ایسا کیا جا سکے گا۔

گذشتہ جمعرات کو کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسوم نے ایک نئے قانون پر دستخط کیے ہیں جس کے ذریعے بغیر رضامندی کے کنڈوم اتارنے یعنی ‘سٹیلتھنگ’ کو غیرقانونی قرار دیا گیا۔ کیلیفورنیا سٹیلتھنگ کو غیرقانونی قرار دینے والی پہلی امریکی ریاست ہے۔

سین فرانسسکو میں رہنے والی ڈوگن کو یہ قانون ان کے ساتھ دہائیوں قبل ہونے والے واقعے کا ایک واضح قانونی حل فراہم کرتا ہے۔ سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس قانون کے باعث متاثرہ افراد کے لیے متعدد تبدیلیاں آنے کا امکان ہے جن کے پاس ڈوگن کے برعکس اب عدالت سے رجوع کرنے کا حق حاصل ہو گا۔

کیلیفورنیا کی اسمبلی کی رکن کرسٹینا گارشیا یہ بل ایوان میں لے کر آئی تھیں اور ان کا کہنا ہے کہ ‘ہم یہ یقینی بنانا چاہتے تھے کہ اسے صرف غیراخلاقی ہی نہیں، غیرقانونی بھی سمجھا جائے۔’

گارشیا اس قانون کے مسودے پر سالوں سے کام کر رہی ہیں۔ سنہ 2017 اور پھر 2018 میں بھی انھوں نے ایوان میں ایسے بل متعارف کراوئے تھے جن کے باعث سٹیلتھنگ کو غیرقانونی عمل قرار دیا گیا تھا اور اس کے ذریعے وکلا ملزمان کے لیے قید کی درخواست بھی کر سکتے تھے۔ یہ قانون یا تو ایوان میں ہی دم توڑ گئے یا انھیں موثر انداز میں سنا ہی نہیں گیا۔

تاہم اس نئے مسودے میں صرف سول قانون میں تبدیلی کی گئی ہے اور اسے کیلیفورنیا کی پارلیمان نے بغیر کسی رکاوٹ کے منظور کر لیا تھا۔ اب متاثرہ افراد ملزمان کے خلاف ہرجانے کے لیے مقدمہ دائر کر سکتے ہیں تاہم اس ضمن میں ان کے خلاف مجرمانہ دفعات کے تحت کارروائی نہیں کی جا ئے گی۔

گارشیا نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘میں اب بھی سمجھتی ہوں کے اسے ریاست کے ضابطہ تعزیرات میں شامل کرنا چاہیے۔ اگر رضامندی نہیں لی گئی، تو کیا یہ ریپ یا جنسی حملے کے زمرے میں نہیں آتا؟

آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ سٹیلتھنگ کو اب جنسی عمل کے مختلف طریقوں اور اس حوالے سے کیے جانے والے استحصال کی فہرست میں سمجھا جا سکتا ہے حالانکہ یہ ضابطہ تعزیرات میں شامل نہیں ہے۔ تاہم گارشیا کی جانب سے لایا گیا قانون ہرجانے کے حوالے سے ابہام دور کر دیتا ہے جو ماہرین کے مطابق متاثرین کو مقدمے کی پیروی کرنے میں مدد کرے گا۔

گارشیا کا کہنا ہے کہ وہ اس مسئلے پر قانون لانے کے لیے سنہ 2017 میں ییل لا سکول کی ایک تحقیق سے متاثر ہوئی تھیں جو وہاں کی طالبہ الیگزینڈرا براڈسکی لائی تھیں۔ براڈسکی کو عام فہم زبان میں لفظ سٹیلتھنگ کے استعمال کو مقبول بنانے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے۔

براڈسکی اب شہری حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک وکیل ہیں اور کتاب ’سیکچویل جسٹس‘ کی مصنف بھی۔ اس کتاب میں انھوں نے ایسی کئی کہانیاں لکھی ہیں جن میں ان متاثرہ افراد سے بات کی گئی ہے جو رضامندی کے ساتھ کسی رومانوی یا جنسی رشتے میں بندھے ہوئے تھے۔

براڈسکی لکھتی ہیں کہ ان سب کی کہانیوں کا آغاز عموماً ایک ہی طرح ہوتا تھا۔ ‘مجھے نہیں معلوم یہ ریپ ہے یا نہیں لیکن۔۔۔’

انھوں نے اس حوالے سے جنسی عمل کے ذریعے منتقل ہونے والی بیماریوں اور حمل کے بارے میں اپنے خدشات بھی بتائے اور یہ بھی بتایا کہ کیسے انھیں اس کے بعد دھوکہ دہی اور اپنی جسمانی حدود کی خلاف ورزی کا شدید احساس ہوا۔ لیکن جن متاثرین نے براڈسکی سے بات کی، جن میں سے اکثر نے پہلے بھی ریپ کے واقعات رپورٹ کیے تھے، انھوں نے سٹیلتھنگ کو جنسی حملہ قرار نہیں دیا۔

براڈسکی کہتی ہیں کہ ‘لوگ اب بھی یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ‘میرے نزدیک مسئلہ کا ایک اہم حصہ یہ بھی ہے کہ جن لوگوں کے ساتھ ایسے واقعات ہوئے انھیں ایسا لگتا ہے کہ یہ صرف انھی کے ساتھ ہوئے ہوں گے۔’

تاہم گارشیا کے قانون کا جائزہ لیتے ہوئے کیلیفورنیا کی سینیٹ عدالتی کمیٹی نے ایک تحقیق کی جو یہ بتاتی ہے کہ سٹیلتھنگ ‘خطرناک حد تک’ عام ہے۔

کنڈوم

سنہ 2019 میں نیشنل لائبریری آف میڈیسن میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں معلوم ہوا کہ 12 فیصد خواتین نے جن کی عمر 21 سے 30 برس کے درمیان ہے سٹیلتھنگ کے تجربے سے گزرنے کے بارے میں بات کی ہے۔ اسی سال آسٹریلیا کی موناش یونیورسٹی کے محققین کو معلوم ہوا کہ تین میں ایک خاتون، اور پانچ میں سے ایک مرد جو مردوں سے سیکس کرتے ہیں اس عمل کا نشانہ بن چکے ہیں۔

سنہ 2019 میں شائع ہونے والی ایک اور تحقیق کے مطابق تقریباً 10 فیصد مردوں نے تسلیم کیا کہ انھوں نے سیکس کے دوران بغیر رضامندی کنڈوم اتارا تھا۔ اپنے مقالے میں براڈسکی نے ایک مشہور سٹیلتھنگ بلاگر کا بھی حوالہ دیا جن کی ویب سائٹ اب تو بند ہو گئی ہے لیکن پہلے وہ اس کے ذریعے مردوں کو خفیہ طور پر کنڈوم اتارنے کے مشورے دیتے تھے۔

اس بلاگ پر اپنی رائے کا اظہار کرنے والوں میں کچھ نے لکھا کہ یہ ایک خاتون کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی ٹانگیں کھولے، اور ایک مرد کا حق ہے کہ وہ اپنا بیج بوئے۔’

تاہم جہاں سٹیلتھنگ کے حوالے سے آگاہی میں اضافہ ہوا ہے، آئینی اعتبار سے اس بارے میں سستی دکھائی گئی ہے۔ ایسے ممالک جہاں سٹیلتھنگ کو جنسی حملہ قرار دیا گیا ہے جن میں برطانیہ، جرمنی اور نیوزی لینڈ شامل ہیں، یہ بہت کم ہوتا ہے کہ کسی کو سزا ہوئی ہو۔ اس کی ایک وجہ مجرم کے ارادے کو ثابت کرنا ہے۔

سِول میں فوجداری کے مقدمات کے مقابلے میں جرم ثابت کرنے کا بوجھ کم ہوتا ہے اور کسی دعوے کے بارے میں قانونی چارہ جوئی کرنے کے حوالے سے فیصلہ متاثرین کا ہوتا ہے، پراسیکیوٹر کا نہیں۔ براڈسکی اور گارشیا دونوں سمجھتی ہیں کہ ریاست کی جانب سے سٹیلتھنگ کو باضابطہ طور پر ایک غیرقانونی عمل قرار دینے کی خاصی اہمیت ہے۔

براڈسکی کہتی ہیں کہ ‘سوچیے کے متاثرین کو کیسا محسوس ہو گا جب انھیں معلوم ہو گا کہ ریاستِ کیلیفورنیا یہ سمجھتی ہے کہ ان کے ساتھ جو ہوا وہ غلط تھا اور اس کا قانونی حل نکالا جانا چاہیے۔’

سماجی مسائل کے لیے کام کرنے والی تنظیم ای ایس پی ایل ای آر ہی نے اس قانون کی حمایت کی ہے۔ اس تنظیم کی بانی ڈوگن ہیں اور وہی اسے چلا رہی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ اس کے ذریعے سیکس ورکرز کو اپنے ایسے کلائنٹس کے خلاف مقدمات بنانے کی اجازت ہو گی جو کنڈوم اتارتے ہیں اور پھر امید ہے کہ اس کے بعد مزید قانونی حفاظت حاصل کیے جانے کی راہ ہموار ہو گی۔ خاص طور پر ایسے گروپس کے لیے جنھیں قانونی نظام میں خاص طور پر امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ڈوگن کہتی ہیں کہ ‘یہ (سٹیلتھنگ) کسی کے ساتھ بھی ہو سکتی ہے۔’

تاہم ابھی جنسی حملوں اور ریپ سے متعلق واقعات کو رپورٹ نہ کرنا ایک مسئلہ ہے۔ براڈسکی کے مطابق جو افراد اس طرح کے دعوے کرتے ہیں انھیں ‘شک کی نگاہ’ سے دیکھا جاتا ہے۔ جب بات سٹیلتھنگ کی ہوتی ہے تو یہ روایتی ردِ عمل شدت اختیار کر جاتا ہے کیونکہ ‘جیسا کہ تفصیل میں درج ہے کہ نقصان سیکس کے لیے رضامندی کے بعد ہوتا ہے۔’

اس پیش رفت کو ایک اہم پہلا قدم سمجھا جا رہا ہے خاص طور پر اس لیے کہ اسی نوعیت کے قانون ریاست نیویارک اور وسکانسن میں پاس نہیں ہو سکے تھے۔

گارشیا کہتی ہیں کہ ‘مجھے فخر ہے کہ کیلیفورنیا ملک میں ایسی پہلی ریاست ہے لیکن میں دیگر ریاستوں کے رکنِ پارلیمان کو بھی چیلنج کرتی ہوں کہ وہ بھی ایسے قوانین پاس کریں۔ ایک ریاست تو ہو گئی، لیکن 49 ابھی باقی ہیں۔’

اس تحریر میں لگے گرافکس بشکریہ اینجلیکا کیساس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32496 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments