آسیب زدہ تاریخ


ڈاکٹر اے کیو خاں مرحوم کے بارے ہمارے حکمرانوں کے ناروا سلوک، ان پر الزامات کی حقیقت، ان کے کردار اور ایٹمی سفر کو جاننے کی جستجو ہوئی تو کئی ملکی و عالمی مصنفوں کی کتابوں کو کھنگالنا شروع کیا۔ ان کے انٹرویوز، کالمز، حلیفوں اور حریفوں کے بیانات دیکھنے، سننے اور پڑھنے کا موقع ملا۔ تاریخ حقائق کی دنیا میں قدم رکھا تو پاکستانی اقتدار کی طوفانی نشیب و فراز اور لڑکھڑاتی تاریخ کے اوراق کی مختلف پرتیں کھلتی چلی گئیں۔

بے ساختہ قلم اٹھا اور 47 سے اب تک کی تاریخ کے چند پیچیدہ تلخ واقعات کو لکھنے کا من چاہا۔ میں تمام سانحات اور ان پر ہوتی تحقیقات کا جائزہ لینا چاہا تو سر چکرا کر رہ گیا۔ ہم بحیثیت قوم بہت قند ذہن یا بے حس تصور ہوئی ہیں۔ ہم ڈگمگاتی تاریخ سے کچھ سیکھنے اور آگے تیار رہنے کی بجائے فوراً سے سب بھول کر ”میں سب کا حاکم“ کا خیال لیے حکمرانی کا سہانا خواب سجائے اقتدار کی مستی میں گم ہو جاتے ہیں۔ ابتدائے پاکستان سے اب تک کے چند بڑے حادثات اور ان پر کی گئی گھسی پٹی تفتیش اور جانچ پڑتال جان کر دل لرزا اٹھا ہے کہ ہمارے حکمران جب اقتدار کی راہداریوں میں فرعونیت کی پگڈنڈیوں پر چہل قدمی کر رہے ہوتے ہیں تو وہ یوں گمان کرتے ہیں کہ یہ طاقت کے بادل ہمیشہ ان کے کنٹرول میں رہیں گے اور ان کو مضبوط پہاڑ کی ماند کوئی ہلا نہیں سکے گا۔

ہمارے بانی پاکستان جب بیماری کی حالت میں کبھی زیارت اور کبھی کوئٹہ کے چکر کاٹ رہے تھے تو وزیراعظم صاحب اقتدار کی رنگ رلیوں میں مصروف تھے۔ قائد اعظم کے معالج ڈاکٹر الہی بخش اور بہن فاطمہ جناح کے مطابق ایک دن بغیر اطلاع کے وزیراعظم لیاقت علی خان اور کابینہ کے جنرل سیکرٹری محمد علی رہائش گاہ پر آئے۔ ان کی آدھا گھنٹہ کی ملاقات کے بعد جناح اس قدر افسردہ ہوئے کہ دوا لینے سے بھی انکار کر دیا۔ لیکن اسی رات جناح کے گھر ڈنر پر لیاقت علی خان لطیفے سنا کر قہقہے لگا رہے تھے۔

یہی جناح جب زندگی موت کی کشمکش میں تھا تو بانی پاکستان، گورنر جنرل کی ایمبولینس راستے میں خراب ہوتی ہے اور اقتدار کے ایوانوں کو خبر تک نہیں ہوتی۔ خراب ایمبولینس کے متبادل کے طور پر کرنل نولز اور ڈاکٹر مستری کو بھیجا گیا تو وہ کافی دیر تک ایمبولینس نہ لا سکے جب قائد خراب ایمبولینس میں بھنبھناتی مکھیوں میں اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھے۔ پھر تاریخ نے پلٹا کھایا تو وہی لیاقت علی خاں ایک پروگرام میں قتل کر دیا گیا لیکن آنے والے سرمست حکمرانوں نے 25 اکتوبر 1951 کو قتل کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن (جو فیڈرل کورٹ کے جج جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں پنجاب کے مالیاتی کمشنر جناب اختر حسین پر مشتمل تھا) تو بنا دیا لیکن اس کا دائرہ کار قتل کے محرکات کا پتا چلانا نہیں بلکہ حفاظتی اقدامات کی ناکامی اور ذمہ داری کے لئے مقرر ہوا۔ 26 اگست 1952 کو پاکستان کے انسپکٹر جنرل سپیشل پولیس نوابزادہ اعتزاز الدین کراچی سے بذریعہ ہوائی جہاز پشاور جا رہے تھے جب طیارہ کھیوڑہ کے مقام پر حادثے کا شکار ہوا۔

صاحبزادہ اعتزاز الدین بھی لیاقت علی خان کے قتل کی تفتیش کر رہے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کے ساتھ اس کیس کے بعض اہم کاغذات کی فائلیں بھی تھیں جو اس حادثے کے ساتھ ہی جل کر راکھ ہو گئیں۔ آج تک ملک کے پہلے گورنر جنرل کی موت بارے لاپرواہی اور پہلے وزیراعظم کے قتل کی تحقیقات اپنے انجام کو نہیں پہنچ سکی۔ ہمارے حکمران اپنے دور حکومت میں اس قدر بے حسی اور فرعونیت کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ آج تک کسی بھی حکمران یا لیڈر نے یہ جاننا تک گوارا نہیں کیا کہ پاکستان کے بانیوں کے ساتھ آخر ایسا کس کے کہنے پر کیا گیا اور اس سے پس پردہ کون آستینی سانپ پوشیدہ ہیں۔ تاریخ آگے قدم بڑھاتی ہے تو فاطمہ جناح پر غلیظ الزامات کو اپنے اوراق پر نقش کرتی ہے۔ ان کو غدار اور انڈین و امریکی ایجنٹ قرار دیا گیا۔

ان کے خلاف صدارتی الیکشن لڑنے اور جیتنے والا جنرل ایوب بعد میں اپنے بستر پر بے یار و مددگار پایا گیا۔ جب معمول کے مطابق ڈاکٹر چیک اپ کے لئے آیا تو اردلی ایوب خاں کے کمرے میں اجازت طلب کرنے گیا تو ان کو مردہ حالت میں پایا۔

تاریخ کی تلخی اور سبق نہ سیکھنے والے سنگدل حکمرانی کا سفر طے کرتے جب بھٹو نے خود کو فرعون سمجھنا شروع کیا اور اپنے خلاف بولنے والوں کو ٹھکانے لگانے کی منصوبہ بندی کی تو قدرت کی تلخی نے ایک موڑ موڑا اور ان کی پھانسی کا حکم نامہ جاری کروا دیا۔ 4 اپریل 1979 کو ذوالفقار علی بھٹو کو رات دو بجے راولپنڈی کی سینٹرل جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔

ان کو راولپنڈی جیل کے زنانے حصے میں ایک سات بائی دس فٹ کی کوٹھری میں قید کیا گیا تھا۔ ان کی پھانسی کا جارحانہ فیصلہ کرنے والے سیاہ سفید کا مالک ڈکٹیٹر جنرل ضیا اسی اقتدار کی الجھتی گتھیوں میں جہاز کریش پر ہلاک ہو گیا۔ 17 اگست 1988 کو سہ پہر کے چار بج کر تیس منٹ ہوئے تھے کہ وہ وی وی آئی پی (VVIP) فلائٹ پاک ون جس میں 31 افراد سوار تھے، نے بہاولپور ائرپورٹ سے ٹیک آف کیا اور کچھ ہی دیر بعد ایک بھڑکتی آگ اور راکھ کا ٹھیر پیچھے چھوڑا۔ آج تک وہ ہلاکت کی وجوہات تلاش نہیں کر کی گئی۔

بے نظیر بھٹو کی شہادت ہو (ان کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ نمبر 202877 میں موت کی وجہ کے کالم میں لکھا گیا کہ ’پوسٹ مارٹم کے بعد علم ہو گا۔ اور آج تک نہ پوسٹ مارٹم ہوا اور نہ علم ہوا) ، نواز شریف کا مشرف کو چیلنج کرنا ہو، مشرف کا ڈاکٹر اے کیو کو سازش کے تحت پھنسا کر خود کو دیوتا ثابت کرنا ہو ساری ہسٹری پردہ در پردہ گرد میں اٹی ہوئی ہے

47 سے لے کر آج تک بشمول عمران حکومت ہمارے حکمراں سابق تاریخ کو سمجھ کر آگے بڑھنے کی بجائے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور خود کو ہی دنیا کا بے تاج بادشاہ سمجھ لینے کی قباحت کی دلدل میں دھنسے جا رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments