نواب سراج الدولہ: خواب اور حقیقت



خواب

مرزا محمد سراج الدولہ بنگال کے بگڑتے ہوئے حالات سے واقف تھے اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے افواج کے اقدامات سے آگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ آنے والے دنوں میں ہونے والی جنگ سے نمٹنے کے لیے پیش بندی بھی کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنی چاروں بیویوں لطف النساء بیگم، زیب النساء بیگم، عماد النساء بیگم اور ام زہرہ کو آگاہ کیا کہ حالات خراب ہو رہے ہیں اور لگتا ایسا ہے کہ انگریزوں سے جنگ کرنی پڑے گی اور اس جنگ کے نتیجے میں شاید ہم بنگال کھو بیٹھیں اور انگریز ہم سب کو جان سے مار دیں۔ انہوں نے اپنی بیویوں کو آنے والی مشکلات سے نمٹنے کے لیے ذہنی طور پر آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ ان کی یہ بھی کوشش تھی کہ شاہی خاندان میں موجود جھگڑوں کو ختم کیا جائے۔

انہیں اپنے جاسوسی کے ذرائع سے پتا لگ گیا تھا کہ مہرالنساء بیگم جو گیتی کے نام سے جانی جاتی تھیں اور سراج الدولہ کی سب سے چہیتی بیگم لطف النساء کی بڑی بہن تھیں جن کے مال و دولت پر انہوں نے قبضہ کر لیا تھا، وہ محل کے حالات سے غیر مطمئن تھیں اور کئی امراء اور وزراء کے ساتھ مل کر مسلسل سازشوں میں مصروف تھیں، گو کہ سراج الدولہ نے انہیں قید کر دیا تھا مگر ان کے پھیلائے ہوئے سازشوں کے جال میں بہت لوگ تھے جو مسلسل بے چینی کا سبب بنے ہوئے تھے۔

سراج الدولہ نے مہرالنساء بیگم کو رہا کر کے انہیں ان کا محل واپس کر دیا اور اپنی بیوی لطف النساء کے ذریعے سے انہیں رام کرنے کی کوشش کے ساتھ ان سے صلح کرلی تھی اور انہیں حالات کی سنگینی سے بھی آگاہ کیا تھا۔

مہرالنساء بیگم کے مصاحبوں سے ہی سراج الدولہ کو پتا چل گیا تھا کہ سازش کرنے والوں میں میرجعفر جو کہ سراج الدولہ کے سپہ سالار تھے وہ ایک اہم کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں، انہیں پتا چل گیا تھا۔ جگت سیٹھ اوی چند اور کرشن چندر سازش میں شامل تھے۔ اور اپنا اثر و نفوذ بڑھا رہے تھے۔

سراج الدولہ کی چھوٹی بہن شہزادی افین بیگم دیوان موہن لال سے بیاہی ہوئی تھیں جو بنگال کے ہندوؤں میں اچھا اثر و رسوخ رکھتے تھے۔ سراج الدولہ نے انہیں اعتماد میں لے کر میرجعفر کی سرگرمیوں سے آگاہ کیا اور انہیں بتایا کہ وہ اگر جگت سیٹھ، اوی چند اور کرشن چندر کو مختلف طریقوں اور ذریعوں سے اعتماد میں لے لیں تو وہ میرجعفر اور ان کے بیٹے کو گرفتار کر کے قتل کر دیں گے اور فوج کی کمان خود سنبھال لیں گے یا میرمون کے حوالے کریں گے جو سراج الدولہ کے انتہائی وفادار اہلکار تھے۔

موہن لال نے انہیں بتایا کہ انہیں پتا ہے کہ اوی چند اور کرشن سراج الدولہ سے خائف ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ان کی دولت بھی مہرالنساء بیگم کی دولت کی طرح سراج الدولہ قبضے میں لے لیں گے۔ نواب سراج الدولہ نے انہیں یقین دہانی کرائی تھی کہ انہیں تسلی دی جائے اور بتا دیا جائے کہ مہرالنساء کی دولت واپس کردی گئی ہے اور سراج الدولہ آپس میں کوئی جنگ نہیں کریں گے۔

موہن لال نے سراج الدولہ کو مشورہ دیا تھا کہ وہ شیعہ اور سنی عالموں کو بلا کر انہیں بھی اعتماد میں لیں کیونکہ میرجعفر کے ان مولویوں سے اچھے تعلقات ہیں اور انہوں نے انہیں اس بات پر بھڑکایا ہوا ہے کہ علی وردی خان نے موہن لال کو سرکاری افواج میں اہم عہدے پر رکھا گیا ہے۔

سراج الدولہ نے میرجعفر، ان کے بیٹے میران اور میرجعفر کے داماد میر قاسم کو گرفتار کر لیا اور یہ بات یقینی بنائی کہ دربار میں موجود ایسٹ انڈیا کمپنی کے نمائندے ولیم واٹسن کو اس بات کی خبر نہ لگے۔ انہوں نے جاسوسوں کا ایک خاص نظام بنایا تھا جس کے تحت انہیں غیرملکی فوجیوں کی سرگرمی سے آگہی رہتی تھی وہ یہ بات سمجھ رہے تھے کہ انگریز ان کے عمائدین اور قریبی لوگوں سے مسلسل رابطے میں ہیں اور ان کے ذریعے سے بنگال پر اپنا مستقل تسلط چاہتے ہیں۔

سراج الدولہ نے احمد شاہ ابدالی اور مرہٹوں کے پاس اپنے نمائندے بھیج کر انہیں آمادہ کیا تھا کہ وہ بنگال پر حملہ آور نہیں ہوں گے۔ انہوں نے انہیں بھی یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ اگر انگریز بنگال پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئے تو پھر وہ پورے ہندوستان پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں گے۔

درپردہ یہ کارروائیاں کرنے کے ساتھ ساتھ سراج الدولہ نے اپنی فوج کی تنظیم کی تھی اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی افواج پر پلاسی کے مقام پر رات کے اندھیرے میں حملہ کر دیا تھا جب وہ جنگ کے لیے تیار نہیں تھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجیں میرجعفر کی ہدایت کے مطابق جمع ہو رہی تھیں تاکہ وہ جنگ شروع کر کے سراج الدولہ کا خاتمہ کر دیں لیکن وہ منصوبہ ناکام ہو گیا۔ منصوبہ یہ تھا کہ پلاسی کے میدان میں کیمپ کی ہوئی فوج کو سراج الدولہ پہلے ہی نشانہ بنا کر ان کا صفایا کر دیں گے۔

سراج الدولہ نے میرجعفر، میر قاسم اور میران کو قتل کرا دیا تھا اور ان کی بیواؤں کو الگ حویلیوں میں وظیفہ مقرر کر کے رکھ دیا تھا۔

جنگ پلاسی میں شکست کے بعد انگریز افواج کے پیر اکھڑ گئے تھے اور سراج الدولہ کی حکومت پورے بنگال پر قائم ہو گئی تھی۔ فتح کے بعد سراج الدولہ نے اپنی پوری طاقت بنگال حکومت کو مستحکم کرنے پر صرف کردی تھی تاکہ بنگالی عوام خوشحال ہوں۔ انہوں نے اپنے بہنوئی موہن لال کو اہم عہدہ دے کر ہندوؤں کو بھی اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی تھی۔ بہت جلد ہندوؤں اور مسلمانوں کی ایک ایسی مضبوط فوج بن گئی تھی جس نے بنگال اور بہار میں سراج الدولہ کی مستحکم حکومت قائم کردی تھی۔

حقیقت

سراج الدولہ کو بڑے لاڈ پیار کے ساتھ پالا گیا تھا۔ وہ اپنے نانا علی وردی خان کو بہت عزیز تھے جنہوں نے انہیں اپنا ولی عہد بنایا ہوا تھا۔ سراج الدولہ نے نوعمری میں ہی کئی شادیاں کرلی تھیں اور نانا کے لاڈ و پیار کی وجہ سے اکثر و بیشتر ایسے فیصلے کرلیتے تھے جن سے نقصان اٹھانا پرتا تھا۔ یہ بھی روایات ہیں کہ سراج الدولہ انتہائی بدتمیز انسان تھے۔ عمائدین، خواص اور فوج کے جرنیلوں سے ان کا رویہ انتہائی نامعقول ہوتا تھا۔ وہ کسی کی عزت کا خیال نہیں رکھتے تھے۔ انہیں لوگوں کو مضحکہ خیز ناموں سے پکارنے کی عادت تھی اور وہ کسی کی بھی بے عزتی کرنے سے نہیں چوکتے تھے۔ وہ بچگانہ طبیعت رکھتے تھے اور ان میں نظم و ضبط کی بہت کمی تھی۔

انہوں نے اپنی پہلی جنگی مہم میں کامیابی کے بعد پٹنہ شہر پر قبضہ کر لیا تھا اور اپنے نانا کے خلاف بغاوت کی تھی لیکن بہت جلد ان سے معافی مانگ کر واپس ان کے ساتھ شامل ہو گئے تھے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں اس بات کا ادراک نہیں تھا کہ امور سلطنت کس طرح سے چلاتے ہیں اور سیاسی سمجھ بوجھ کو کس طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی جارحانہ طبیعت کی وجہ سے اپنی سب سے بڑی سالی کو ناراض کر دیا تھا۔ ان کی جائیداد اور دولت پر قبضہ کر لیا تھا۔ ان کی بری سالی کا بہت زیادہ اثر و رسوخ تھا اور وہ شاہی خاندان میں اپنی دولت کی وجہ سے جانی جاتی تھیں جس کا اندازہ میرجعفر کو بہت اچھے طریقے سے تھا۔ میر جعفر نے سراج الدولہ کے خلاف سازش میں انہیں شامل کر لیا تھا۔

سراج الدولہ بہت اچھے سپاہی بھی نہیں تھے ان کی شخصیت میں سربراہانہ صلاحیتیں کم تھیں اور انہوں نے علی وردی خان سے حاکمیت کے اصولوں کو سمجھنے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لی تھی۔

میرجعفر کی بھتیجی شرف النساء علی وردی کی بیوی تھیں۔ میرجعفر خاندان میں چپقلشوں کا فائدہ اٹھانے میں انہیں سراج الدولہ کی بڑی سالی مہرالنساء بیگم، جگت سیٹھ، اوی چند اور کرشن چندر کی حمایت شامل تھی۔ انہوں نے ولیم واٹسن کے ذریعے لارڈ کلائیو سے رابطہ کیا اور پلاسی کے میدان جنگ میں اپنی فوج کو انگریزوں کے خلاف لڑنے نہیں دیا۔ سراج الدولہ کے وفادار میرمدن کے قتل ہونے کے بعد سراج الدولہ کو بھاگنا پڑا مگر انہیں میرجعفر کے بیٹے میران کے اہلکاروں نے گرفتار کر لیا اور محمد علی بیگ کے ”نمک حرام ڈیوڑھی“ پر انہیں قتل کر دیا، میران نے سراج الدولہ کی بیگم لطف النساء بیگم پر شدید تشدد کیا تاکہ سراج الدولہ اور ان کی دولت کا سراغ لگا سکے۔ لطف النساء بیگم کو مرشد آباد میں ہی قید میں رکھا گیا۔ میرجعفر اور ان کے بیٹے میران نے باری باری لطف النساء کو اپنی زوجیت میں لینے کی کوشش کی مگر لطف النساء نے جلاوطن ہونے کے باوجود انہیں ٹھکرا دیا۔ لطف النساء کو کئی سال جلاوطنی میں ڈھاکہ شہر میں رہنا پڑا۔

دیوان موہن لال کو قتل کر دیا گیا اور ان کے بڑے بیٹے راجہ سرمنت لال کو بھی میرجعفر کے بیٹے میران کے حکم پر قتل کر دیا گیا۔ دیوان موہن لال کی بیوی شہزادی افین بیگم اور ان کے بیٹے راجہ ملکالال اور بیٹی جلیبی النساء کو جلاوطنی کی زندگی گزارنی پڑی، بعد میں جلیبی النساء کی شادی بہادر علی خان سے ہوئی۔

لطف النساء کو 1765 ء میں مرشد آباد جانے کی اجازت دے دی گئی جہاں انہوں نے اپنی بیٹی ام زہرہ بیگم کی پرورش کی اور ان کی شادی سراج الدولہ کے بھتیجے میر اسد علی خان مراد دو دولہ سے ہوئی۔ ام زہرہ بیگم کا نام قدسیہ بیگم صاحبہ رکھا گیا۔ قدسیہ بیگم کے چار لڑکے اور ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ میر اسد علی خان ڈھاکہ کے نواب بنے مگر جلد ہی ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کے بچوں کو بھی لطف النساء نے پال پوس کر بڑا کیا۔

لطف النساء کا انتقال 1790 ء میں ہوا اور انہیں سراج الدولہ کے پہلو میں خوش باغ میں دفن کیا گیا۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments