انڈیا اور چین: سرحدی کشیدگی کم کرنے کے مذاکرات ناکام، دونوں ملکوں کی ایک دوسرے پر الزام تراشی


چین، انڈیا
انڈیا اور چین کے درمیان متنازع سرحدی علاقے میں کشیدگی کم کرنے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات ایک بار پھر ناکام ہوگئے ہیں جس کا قصوروار دونوں ممالک نے ایک دوسرے کو قرار دیا ہے۔

اتوار کو دونوں ملکوں کے اعلیٰ فوجی حکام نے تصدیق کی کہ دو ماہ بعد مذاکرات کا یہ پہلا اجلاس بغیر کسی پیشرفت کے ختم ہوا۔

چین نے اس کی وجہ انڈیا کے ’نامناسب اور غیر حقیقی مطالبات‘ کو قرار دیا جبکہ انڈیا کا کہنا ہے کہ چین نے ’تعمیری مشوروں سے اتفاق نہیں کیا‘ اور یہ کہ اس نے ’کوئی ایسی متبادل تجویز بھی پیش نہیں کی۔‘

چین: ’انڈیا کا رویہ نئے ٹکراؤ کی وجہ بن سکتا ہے

انڈیا اور چین کے درمیان لداخ کے ہاٹ سپرنگ سیکٹر میں ایل اے سی سے فوجیں پیچھے ہٹانے کے سوال پر مذاکرات ناکام ہونے کے بعد چین نے کہا ہے کہ انڈیا کے رویے سے خطے میں نئے ٹکراؤ کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔

یہ بات چیت اتوار کو لداخ کے مولڈو-چوشل میٹنگ پوائنٹ پر دونوں افواج کے کور کمانڈروں کے درمیان تقریباً نو گھنٹے تک چلی تھی۔

چین کے اخبار گلوبل ٹائمز نے پیپلز لبریشن آرمی یعنی پی ایل اے کی مغربی کمان کے ایک بیان کا حوالہ دیا ہے جس میں انڈیا کے مطالبات کو ’نامعقول اور غیر حقیقت پسندانہ‘ قرار دیا گیا ہے۔ اس میں ارونا چل پردیش میں حال ہی میں پیش آنے والے ایک واقعے کا بھی ذکر ہے۔

اس تحریر میں چین کے دفاعی ماہرین نے ’انڈیا سے نئے ٹکراؤ کے خطرے‘ کی وارننگ دیتے ہوئے زور دیا ہے کہ ’چین کو مذاکرات میں نہ صرف انڈیا کے مغرور مطالبات مسترد کر دینے چاہییں بلکہ انڈیا کی فوج کی طرف سے نئی جارحیت کا دفاع کرنے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔‘

پی ایل اے کرنل لانگ شاؤ ہوا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’چین اور انڈیا کے تعلقات کے پہلوؤں اور دونوں ملکوں کی افواج کی صورتحال کے مدنظر چین نے سرحدی کشیدگی کو ختم کرنے کی بے انتہا کوشش کی اور اپنی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔‘

ڈیڑھ برس قبل لداخ خطے کی گلوان وادی میں دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان خونريز ٹکراؤ ہوا تھا اور سیکٹروں میں چینی افواج کی پیشرفت ہوئی۔ اب چین اور انڈیا چینی فوجیوں کی پرانی پوزیشن پر واپسی کے لیے بات چیت کر رہے تھے۔

اس حوالے سے اب تک 13 بار مذاکرات کے لیے اجلاس ہو چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا چین تنازع: ایک سال بعد وادی گلوان میں حالات کیا ہیں؟

خطے میں امریکہ کی فوجی سرگرمیاں بڑھنے سے انڈیا کس تذبذب کا شکار ہوتا جا رہا ہے؟

انڈیا چین سرحدی کشیدگی: چین پیچھے ہٹنے پر کیسے راضی ہوا؟

چینی فوج پینگونگ سو جھیل اور بعض دوسرے مقامات سے پیچھے ہٹ گئی ہے لیکن عسکری اہمیت کے حامل ڈپیسانگ پلین، ڈیمچوک، ہاٹ سپرنگ اور کئی دیگر علاقوں میں وہ اب بھی پورے جنگی ساز و سامان کے ساتھ موجود ہے۔

ایل اے سی کے دونوں جانب انڈیا اور چین کے ہزاروں فوجی گذشتہ برس کے ٹکراؤ کے بعد سرحدی علاقے میں تعینات ہیں۔

شینگوا یونیورسٹی میں نیشنل سٹریٹجی انسٹی ٹیوٹ مرکز کے سربراہ شین فینگ کا کہنا ہے کہ انڈیا چاہتا ہے کہ صرف چین یکطرفہ طور پر قدم اٹھائے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’چین صورتحال کو وسیع تناظر میں دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے اور چاہتا ہے کہ دونوں ممالک برابر کے اقدامات کریں۔ لیکن اب چین کا صبر ٹوٹ چکا ہے۔ اب اسے انڈیا کی مغرور سوچ کو توڑنا ہو گا۔‘

انڈیا: چین نے تعمیری مشوروں سے اتفاق نہیں کیا

انڈیا، چین، لداخ

ادھر دلی میں انڈین فوج کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں افواج کی بات چیت میں تصفیہ طلب معاملوں پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔ ’انڈین مندوبین نے چینی فریق کو بتایا کہ ایل اے سی پر جو موجودہ صورتحال ہے وہ چین کے ذریعے باہمی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سرحدی لائن کو یکطرفہ طور پر تبدیل کرنے کی کوشش سے پیدا ہوئی ہے۔ اس لیے یہ لازم ہے کہ چین باقی ماندہ علاقوں میں بھی مناسب قدم اٹھا کر مغربی سیکٹر میں ایل اے سی پر امن بحال کرے۔‘

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ انڈین فوجی مندوبین نے مذاکرات میں باقی جگہوں کے سوالوں کو حل کرنے کے لیے ’تعمیری مشورے‘ دیے لیکن بقول ان کے ’چینی مندوبین نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور نہ ہی اس کی جگہ کوئی متبادل تجویز پیش کی۔ اس لیے اس میٹنگ میں باقی ماندہ علاقوں کا کوئی حل نہیں نکل سکا۔‘

مذاکرات میں انڈیا کی قیادت لداخ خطے کے کور کمانڈر لفٹیننٹ جنرل پی جی کے مینن کر رہے تھے جبکہ چین کی جانب سے شینجیانگ ملٹری خطے کے کمانڈر میجر جنرل لیو لین نے بات چیت کی۔

یہ مذکرات ایک ایسے وقت میں ہوئے جب محض دو روز قبل انڈین میڈیا نے انڈین فوج کے ذرائع کے حوالے سے خبر دی تھی کہ ملک کے شمال مشرقی خطے اروناچل پردیش میں ایک ہفتے پہلے انڈین اور چینی فوجیوں کے درمیان ٹکراؤ ہوا۔ اس کے تحت چینی فوجی گشت کرتے کرتے انڈین خطے میں داخل ہو گئے تھے۔

بعض خبروں میں بتایا گیا تھا کہ انڈین فوج نے مبینہ طور پر بعض چینی فوجیوں کو کچھ دیر تک پکڑ کر رکھا تھا۔

تاہم چینی میڈیا میں انڈیا کی ان خبروں کو ’افواہ‘ قرار دیا گیا ہے۔ چینی فوج کے حوالے سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ چینی افواج 28 ستمبر کو چین اور انڈیا کی سرحد پر ڈانگ زہانگ خطے میں معمول کی گشت پر نکلی تھی کہ انھیں انڈین فوج کی جانب سے ’نامناسب رکاوٹ کا سامنا ہوا۔ چینی افسروں اور فوجیوں نے سختی سے جوابی قدم اٹھایا اور اپنی گشتی مہم پوری کر کے واپس آگئے۔‘

انڈین میڈیا میں فوج کے ذرائع سے بتایا گیا تھا کہ ’اروناچل پردیش کے توانگ خطے میں چینی فوجیوں نے انڈین خطے میں داخل ہونے کی کوشش کی، انڈین فوجیوں سے ان کی ہاتھا پائی ہوئی اور انھوں نے چینی فوجیوں کو واپس پیچھے دھکیل دیا‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments