دکھ درد بانٹنے والے لوگ عظیم ہوتے ہیں


اس دنیا میں بہت سارے ایسے لوگ آج بھی موجود ہیں جو زندگی کی صعوبتیں برداشت کر کے تھک جاتے ہیں لیکن اس کا اظہار دوسرے لوگوں سے نہیں کرتے اور نہ ہی دوسرے لوگوں پر اپنی اندرونی کیفیت ظاہر ہونے دیتے ہیں لیکن کیوں کہ وہ لوگ خود اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں اور ساری زندگی ان مشکلات کا سامنا کرتے ہیں اور ڈٹ کر مقابلہ بھی کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ دوسروں کی تکالیف کو ان کے جذبات کو سمجھ پاتے ہیں اور بغیر کسی لالچ و طمع کے ان کی ہر ممکن مدد کرتے ہیں اور ان کے دکھوں کا مداوا کرتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہماری تکلیف کوئی اس وقت تک محسوس نہیں کر پاتا جب تک وہ انسان خود اس کرب اور تکلیف سے نہ گزرا ہو۔

یہ ہمدرد لوگ دل کے بہت صاف اور مزاج کے بہت نرم ہوتے ہیں جو خود تکلیف برداشت کر لیتے ہیں لیکن کسی دوسرے کو اس تکلیف یا مصیبت میں مبتلا نہیں دیکھ سکتے۔ خود اندر سے ٹوٹے ہوئے ہوتے ہیں لیکن اپنی ساری زندگی دوسروں کی زندگی سنوارنے میں ان کے ٹوٹے دلوں کو جوڑنے میں گزار دیتے ہیں۔

کسی دوسرے کی تکلیف کو سمجھنا اور اس کو محسوس کرنا بہت کم لوگوں کے بس کی بات ہوتی ہے پھر ان لوگوں کی مدد کرنا آسان کام نہیں ہوتا اور یہ کام وہی لوگ کرتے ہیں جن کو اللہ تعالی توفیق عطا فرماتے ہیں۔ دردمند دل ہونا بھی اللہ تعالی کی خاص عنایت ہے ورنہ یہ دنیا بہت سارے سنگ دل لوگوں سے بھری ہوئی ہے جو دوسروں کو نہ صرف تکلیف دیتے ہیں بلکہ ان کو پریشان دیکھ کر سکون محسوس کرتے ہیں۔ ایسا ہر دور میں ہوتا رہا ہے کہ لوگ اپنے مطلب کے لئے دوسروں کے جذبات کا استعمال کرتے ہیں لیکن یہ ہمدرد لوگ وہ گمنام سپاہی ہوتے ہیں جو اپنی زندگی دوسروں کی خدمت میں وقف کر دیتے ہیں۔

دراصل یہ لوگ معاشرے میں اعتدال لے کر آتے ہیں اور بہت ساری وہ برائیاں جو معاشرے میں پیدا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے اس سے بچا لیتے ہیں۔ اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمیں کئی ایسی مثالیں نظر آئیں گی جہاں یہ فرشتہ صفت لوگ دوسرے لوگوں کی مدد کرتے ہیں ان کی ڈھال بنتے ہیں ’بے سہارا لوگوں کا سہارا بنتے ہیں لیکن اپنے اس عظیم کام کو سرعام آنے نہیں دیتے کیونکہ وہ کوئی بھی کام شہرت حاصل کرنے کے لئے نہیں کرتے بلکہ اپنی آخرت کے لئے کرتے ہیں۔ اپنے دلی سکون کے لئے کرتے ہیں۔

لیکن دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ اکثر یہ لوگ تنہائی کا شکار ہوتے ہیں دکھ سہتے سہتے خود اندر سے ختم ہو جاتے ہیں۔ دراصل یہ لوگ خود خوش ہونا بھول جاتے ہیں لوگوں میں خوشیاں بانٹتے بانٹتے اپنے لئے خوشیاں تلاش کرنا بھول جاتے ہیں اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ان کو کسی مضبوط سہارے کی ضرورت پڑتی ہے جو ان کو سنبھال سکے۔ آخر ایک انسان کب تک اکیلا رہ سکتا ہے اس کو کوئی ایسا سہارا چاہیے ہوتا ہے جو ان کو سنبھال سکے۔ ان کو سمجھ سکے اور اس کا ساتھ دے سکے تاکہ وہ اپنی توانائیوں کو بہتر انداز میں لوگوں کی خدمت میں استعمال کر کے آسانیاں بانٹ سکیں۔

ہمیں اپنے اردگرد ایسے لوگوں کی تلاش کرنی چاہیے جو اپنی زندگی دوسروں کے لئے وقف کر دیتے ہیں اور اپنی خوشیاں ان لوگوں کے لئے قربان کر دیتے ہیں جو بے سہارا ہوتے ہیں۔ ہمیں ایسے نایاب لوگوں کی خوشیوں کا خیال رکھنا چاہیے تاکہ وہ بھی اپنی زندگی کو خوشیوں کے ساتھ گزار سکیں۔ دوسروں کے لئے آسانیاں بانٹنا ہی اصل کامیابی ہے۔

اپنی زندگی کی خوشیوں کو قربان کر کے دوسروں کو سکھ اور خوشی پہنچانے والے لوگ نایاب ہوتے ہیں۔ اکثریت تو اپنی ذات میں مگن رہتی ہے یا زیادہ سے زیادہ اپنے گھر والوں تک محدود رہتے ہیں لیکن ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں جو غیروں کو اپنوں کی طرح خود سے قریب رکھتے ہیں۔

ان لوگوں کا مقصد حیات لوگوں کی مدد کرنا ہوتا ہے اور بے سہارا کو سہارا دینا ہوتا ہے اب چاہے وہ کسی فلاحی ادارے سے منسلک ہو کر کام کریں یا انفرادی طور پر کام کریں۔ ان جیسے انمول لوگوں کی سوچ ہی مختلف ہوتی ہے وہ اللہ تعالی کی ان مخلوق کو جو زمانے کے ٹھکرائے ہوئے ہوتے ہیں ان کے لئے آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔ تاکہ وہ ایک بار پھر سے سر اٹھا کر جینے کے قابل ہو سکیں۔

یہ اللہ والے لوگ جانتے ہیں کہ اللہ تعالی کی پیدا کردہ مخلوق کا خیال کرنا ان کا سہارا بننا اولین عبادت میں شمار ہوتا ہے اور اپنا عیش و آرام چھوڑ کر دکھی لوگوں کی مدد کرنا ان کو آسائش مہیا کرنا سب عبادتوں سے اول ہے۔ ان کا یہی عمل آخرت میں نجات کا باعث بنے گا۔

ایک مفکر نے کیا خوب کہا ہے کہ دل کے لئے سب سے اچھی ورزش دوسروں کی مدد کرنا ہے۔ ایک اور مصنف کا خیال ہے کہ اصل زندگی ہی اس وقت شروع ہوتی ہے جب دوسروں کا سوچیں اور ان کے ساتھ بھلائی کا سلوک کریں حتٰی کہ ہمیں وہاں سے بدلے کی امید نہ ہو یعنی بے لوث ہو کر خدمت کی جائے۔

اگر آپ زندگی کی صعوبتیں برداشت کر کے تھک گئے ہیں تو اپنے سے زیادہ پریشان حال اور مصیبت زدہ کی مدد کریں آپ اپنی پریشانی بھول کر ان لوگوں کی پریشانی دور کرنے میں مگن ہو جائیں گے اور انمول بن جائیں گے۔

کینیڈا کے مشہور مصنف چارلس ڈی لٹ لکھتے ہیں کہ ”وہ ایسی دنیا میں نہیں رہنا چاہتے جہاں لوگ ایک دوسرے کی مدد نہ کرتے ہوں۔ ہم دوسرے لوگوں کی سوچ نہیں بدل سکتے لیکن ذاتی طور پر اچھا کام کر کے دوسروں کے لئے مثال قائم کر سکتے ہیں“ ۔

دنیا میں ہمارے اردگرد آج بھی ایسے بے شمار لوگ موجود ہیں جو اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھا رہے ہیں۔ ہمیں ایسے لوگوں کی قدر کرنی چاہیے اور ان کو نہ صرف عزت کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے بلکہ ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments