کم عمری کی شادی


کم عمری کی شادی ایک سماجی مسئلہ بن چکا ہے۔ جس سے اور سماجی مسائل جنم لیتے ہیں۔ تعلیم 5 سال سے لے کر 16 سال تک ہر بچے کا بنیادی حق ہے جبکہ کم عمری کی شادی بچے سے تعلیم کا حق چین لیتا ہے۔ اسی طرح کم عمری کی شادی سے ماں اور بچے کے صحت کے حوالے سے کئی بیماریوں یہاں تک کہ حمل و زچگی کے دوران ماں اور بچے کی موت کا سب سے بڑا سبب بھی بتایا جاتا ہے۔ ذمہ داریوں کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو کم عمری ہی میں شادی کے بعد خاندان، اور بچوں کی دیکھ بھال اور روز روز کے روایتی گھریلو لڑائی جھگڑے ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں کو بھی جنم دیتے ہیں جن کے اثرات نہ صرف بچوں اور خاندان پر پڑتے ہیں بلکہ پورا معاشرہ اس کے لپیٹ میں آ جاتا ہے۔ جبکہ آبادی میں اضافہ اور معاشی مسائل کبھی بھی کوئی بھی کم عمری کی شادی سے الگ تھلگ نہیں کر سکتا۔

پاکستان میں کم عمری کی شادی کا شرح 21 فیصد بتایا جاتا ہے۔

ماہرین حقوق اطفال اور میڈیا رپورٹس کے مطابق خیبر پختونخوا میں 15 سال سے کم عمر کی لڑکیوں کی شرح 7۔ 5 فیصد جبکہ ضم شدہ قبائلی اضلاع میں 5۔ 7 فیصد ہے اسی طرح 18 سال سے پہلے کم عمر لڑکیوں کی شادی کا شرح اگر دیکھا جائے تو خیبر پختونخوا میں 27 فیصد اور قبائلی ضم شدہ اضلاع میں 35 فیصد بتایا جاتا ہے۔

کم عمری کی شادی کے پیچھے سب سب سے بڑی وجہ غربت سے جوڑ دیا جاتا ہے والدین عموماً غربت سے چھٹکارا پانے کے لیے لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کر کے ذمہ داری دوسرے خاندان والوں اور لڑکوں کا کم عمری میں شادی کر کے لڑکے ہی پر ڈال کر بری الزمہ ہو جاتے ہیں۔

غربت کے علاوہ جغرافیائی، معاشرتی، سماجی و اقتصادی صورتحال، عدم تحفظ، اور تعلیم کی اہمیت و سہولیات کا فقدان بھی کم عمری کی شادیوں کی وجوہات میں شامل ہیں۔

جہاں تک قانون کی بات ہے تو پاکستان میں 1929 کا میریج رسٹرینٹ ایکٹ تادم تحریر رائج ہے جس میں لڑکی کے لیے شادی کی عمر 16 اور لڑکے کے لیے 18 سال ہے۔ جبکہ سزا ایک ہزار روپے جرمانہ اور ایک مہینے کی قید ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبائی سطح پر سب سے پہلے سندھ نے کم عمری کی شادی کی روک تھام کے لیے 2013 میں قانون سازی کی ہے جس میں لڑکے اور لڑکی دونوں کے لیے عمر 18 18 سال رکھا گیا جس کے مطابق والدین یا دیگر ذمہ داران کے لیے تین سال تک سزا مقرر کی گئی ہے جبکہ اسے ناقابل ضمانت جرم قرار دیا گیا ہے۔

پنجاب نے اس سلسلے میں 2015 میں قانون سازی کی ہے جس میں لڑکی کی عمر 16 سال جبکہ لڑکے کی عمر 18 سال رکھا گیا ہے۔ جس میں 6 مہینے کی قید اور 50 ہزار روپے تک جرمانہ تجویز کیا گیا ہے۔

خیبر پختونخوا، بلوچستان اور اسلام آباد میں کم عمری کی شادی کے روک تھام کے لیے کوئی قانون سازی نہیں ہوئی ہے جہاں اب بھی 1929 کا قانون نافذ ہے۔

خیبر پختونخوا میں اس حوالے سے 2014 میں ایک بل خیبر پختونخوا چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر کمیشن کے زیر نگرانی ڈرافٹ کیا گیا جس پر تمام طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے سٹیک ہولڈرز سے مشاورت اور اپنی رائے کے اظہار کا بھرپور موقع دیا گیا۔ جبکہ اس بل کا صوبائی اسمبلی سے پاس ہونے کا انتظار ہے۔ حالانکہ وقتاً فوقتاً حکومتی متعلقہ وزراء، ممبران اسمبلی اور افسرز نے اس بل کو اسمبلی سے پاس کروانے کا کئی بار عندیہ بھی دیا ہے۔ لیکن تاحال یہ بل قانون بننے کا منتظر ہے۔

اسی طرح اگر دیکھا جائے تو پاکستان نے ’بین الاقوامی معاہدہ برائے حقوق اطفال 1989‘ پر نہ صرف یہ کہ دستخط کیا ہے بلکہ اس کی توثیق بھی کیا ہے جس کے مطابق 18 سال سے کم عمر کا ہر فرد بچہ کہلاتا ہے۔ جس کے مندرجہ ذیل چار بنیادی اصول ہیں 1 ) غیر امتیازی سلوک 2 ) بچوں کی بہترین مفاد 3 ) بقاء و ترقی اور 4 ) شرکت یعنی رائے کا اظہار

یعنی کم عمری کی شادی ’معاہدہ برائے حقوق اطفال‘ کے بنیادی اصولوں ہی کی نفی ہے۔ جس پر پورا معاہدہ کھڑا ہے اس معاہدہ کے اندر بچوں کے براہ راست 43 حقوق ہیں جس کی راہنمائی مندرجہ بالا چار بنیادی اصول کرتے ہیں۔

یوں ’پائیدار ترقی کے اہداف‘ کے مطابق 2030 تک دنیا سے کم عمری کی شادی کا خاتمہ کرنا ہے اور پاکستان ’پائیدار ترقی کے اہداف‘ کا بھی حصہ ہے۔

اسلامی ممالک کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو 24 اسلامی ممالک نے باقاعدہ طور پر کم عمری کے شادی سے متعلق قانون سازی ہوئی ہے کیونکہ کم عمری کی شادی کا مسئلہ ایک عالمگیر مسئلہ ہے اور پوری دنیا میں اس وقت 12 ملین بچے (یعنی ایک منٹ میں 23 بچے ) کم عمری کی شادی کے شکار ہیں۔ اور اگر اس پر بروقت قابو نہیں پا لیا گیا تو یہ شرح 2030 تک 150 ملین تک بڑھنے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔

لڑکیوں کو کم عمری کی شادی سے محفوظ رکھنے میں تعلیم اہم کردار ادا کرتی ہے۔ درحقیقت، لڑکی جتنی دیر سکول میں رہے گی، اس کی 18 سال سے پہلے شادی ہونے اور کم عمری کے دوران بچے پیدا ہونے کا امکان کم ہو گا۔

اس کے علاوہ، تعلیم اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ لڑکیاں روزگار کے حصول کے لیے مہارت اور علم حاصل کریں اور اپنے خاندانوں کی کفالت کا ذریعہ بنیں۔ اس سے غربت کے چکر کو توڑنے اور بچیوں کی شادیوں کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔

پاکستان جو ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں بچپن کی شادی کی شرح زیادہ ہے، لہذا حکومت سے شادی کی کم از کم عمر 18 سال کرنے کی درخواست کرنا مثبت تبدیلی کے لیے ایک اہم پہلا قدم ہے۔

کم از کم عمر بڑھنے کے بعد ، یہ بھی ضروری ہے کہ حکومتی عہدیداروں اور کمیونٹی رہنماؤں کے درمیان ان قوانین کے بارے میں شعور اجاگر کرتے رہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ قوانین نافذ کیے جا رہے ہیں۔

دیگر قانونی پالیسیاں، جیسے پیدائش کے اندراج اور شادیوں کا اندراج، کم عمری کی شادی کو روکنے کے لیے موثر ذرائع ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments