نوٹیفیکیشن نہ آیا، تو بھونچال آ جائے گا


افواج پاکستان کے کور کمانڈر میٹنگ کے بعد آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز میں ہائی کمانڈ لیول کے تبادلے اور تقرریوں کی اطلاع دی جاتی ہے۔ جس میں لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کور کمانڈر پشاور، لیفٹننٹ جنرل محمد عامر کور کمانڈر گوجرانوالہ اور لیفٹننٹ جنرل عاصم منیر ماسٹر کوارٹر تعینات کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ لیکن افواہوں کا بازار تب گرم ہوا جب اس پریس ریلیز میں ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کو کور کمانڈر پشاور تعینات کیے جانے کی خبر تو تھی، لیکن اس پریس ریلیز میں نئے ڈی جی آئی ایس آئی کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ جیسے بعد میں اپ ڈیٹ کر دیا گیا اور پاکستان کے تمام ٹی وی چینلز لیفٹننٹ جنرل ندیم احمد انجم نئے ڈی جی، آئی ایس پی آر تعینات کیے جانے کی نیوز دینے لگے۔

اس خبر کے آتے ہی جیسے سوشل میڈیا پر بھونچال آ گیا ہو۔ سب لکھنے لگے۔ کہ ابھی تک کوئی بھی پریس ریلیز پرائم منسٹر ہاؤس سے جاری کیوں نہیں کی گئی؟ جنرل فیض حمید کا تبادلہ اور نئی پوسٹنگ ہر طرف بحث کا موضوع بن گی۔

مسلم لیگ نون کے ورکرز سمیت کچھ صحافیوں نے اس کا کریڈٹ مریم نواز کو دینا شروع کر دیا۔ کہ یہ سب کچھ ان کے دبنگ بیان اور جنرل فیض حمید پر لگائے گئے الزامات کی وجہ سے ہوا۔ سوشل میڈیا پر موجود ایک طبقہ یہ لکھتا رہا۔ کہ جنرل باجوہ نے شدید دباؤ کی وجہ سے تبادلے کیے ہیں۔

لیکن جب اٹھ اکتوبر کو نیشنل سیکورٹی کی میٹنگ ہوتی ہے تو اس میں بھی جنرل فیض حمید ہی شامل تھے نئے ڈی جی آئی ایس آئی اس میٹنگ میں شامل نہیں تھے۔ لہذا نیشنل سیکورٹی میٹنگ کی فوٹیج سامنے آتے ہی ہر صحافی اپنی اپنی پوٹلی سے مختلف رنگوں کے نگینے ڈھونڈ کے لانے لگے۔ کوئی لکھنے لگا۔ سیم پیج پھٹ گیا ہے۔ آرمی چیف اور وزیراعظم کے درمیان اختلاف پیدا ہو گئے ہیں۔ اور کسی وقت بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ملک میں مارشل لا لگ سکتا ہے۔

صحافی عمر چیمہ نے لکھا ”بعض اوقات تقرری و تبادلوں کی خبریں چل جاتی ہیں بعد میں پتہ چلتا ہے کہ ابھی تک تو سمری ہی منظور نہیں ہوئی“

”پہاڑی پر موجود درویش کا اصرار ہے کہ ٹویٹر والا مجاہد حساس ذمہ داریوں کے لئے بہتر ہے جبکہ مرد مجاہد کی نگاہ نے کسی اور کو چن لیا، جس کے سبب ابھی تک کی صورتحال اصرار اور انکار کے درمیان لٹکی ہوئی ہے“

کچھ مبصرین نے کہا ”کہ مریم نواز کا بیان اتنا زیادہ سخت تھا کہ بینظیر بھٹو نے بھی کبھی ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایسے بات نہیں کی ہو گی۔

نجم شیٹھی نے کہا کہ ان کی آخری اطلاعات کے مطابق، وزیراعظم عمران اس بات پر آڑ گئے ہیں۔ کہ اپ نے میرے سے اجازت لئے بغیر نئے ڈی جی، آئی ایس آئی کو اپوائنٹ کیوں کیا۔ لہذا میں اب اس سمری پر سائن نہیں کروں گا۔ جبکہ دوسری طرف جنرل باجوہ بھی اپنی بات پر آڑ گئے ہیں۔ کہ جو نام جنرل ندیم انجم کا فائنل کر دیا ہے۔ اب وہی نیا ڈی جی، آئی ایس آئی ہو گا ”

مبشر لقمان لکھتے ہیں ”اس وقت دارالحکومت میں ایک بڑا طوفان برپا ہے۔ سینگ پھنس گئے ہیں”
ثناء بچہ لکھتیں ہیں ”سامعین متوجہ ہوں۔ ملک ایک نازک مرحلے سے گزر رہا ہے“
عارف حمید بھٹی لکھتے ہیں ”مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نہیں مردا“
ارشد شریف نے انڈین گانے کے کلپ کے ساتھ لکھا ”تو جانے من ہے جان جگر ہے۔ تیرے لئے جان بھی حاضر ہے“
صابر شاکر نے لکھا
”‏اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے۔ نئے باب، نئے دور کا آغاز ہے ”
مبشر زیدی نے لکھا ”نوٹیفکیشن معطل“

پھر ذرائع اور اندر کی خبروں کے مطابق کہا جانے لگا۔ کہ معاملات طے پا گئے ہیں۔ اب نئے ڈی جی، آئی ایس آئی ندیم انجم ہی رہیں گے۔

پھر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان کی ملاقات ہوتی ہے اور وہ مطالبہ کرتے ہیں۔ کہ پاکستان میں فی الفور نئے اور صاف شفاف الیکشن کروائے جائیں۔

خیر یہ سب بیان بازی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اپوزیشن کے پاس کرنے کو کچھ ہے نہیں۔ وہ لوگ پچھلے تین سال سے تو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہو نہیں سکے۔ عوام کے لئے کیا خاک تحریک چلائیں گے۔

مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ جب آرمی چیف بھی وہی ہیں۔ وزیراعظم بھی وہی ہیں، تو نیا ڈی جی آئی ایس آئی آئے یا پرانا ہی رہے۔ کرنا تو اسے وہی ہے جو انھیں آرمی چیف یا پرائم منسٹر کہیں گے۔

سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کور کمانڈر پشاور کی تقرری ایک بالکل نارمل طریقہ کار تھا۔ اور ان کی یہ پوسٹنگ پینڈنگ بھی تھی۔ کیونکہ اس پوسٹنگ کے بعد اب وہ اگلے سال 22 نومبر 2020 کو نئے آرمی چیف بننے والوں کی ریس میں شامل ہو گئے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان کوئی تناؤ یا کنفیوژن ضرور ہے۔ یہ عہدہ اتنی اہمیت کا حامل کیوں ہے اور اس کی تقرری کیسے کی جاتی ہے اس ہر تھوڑی بات کر لیتے ہیں۔

آئی ایس آئی کا ادارہ ایک وفاقی ادارہ ہے اور وزارت دفاع کے انڈر آتا ہے۔ لہذا یہ ڈی جی، آئی ایس آئی کی تقرری اور تعیناتی وزیراعظم کی صوابدید ہوتا ہے۔ یہ عہدہ شاید اس لئے اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ ادارہ ایک ہی وقت میں وفاقی حکومت اور عسکری قیادت کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔ اور اس ادارے کا سربراہ اپنے ادارے کے اندر لوگوں کو رکھ اور نکال سکتا ہے۔ جب کہ وزیراعظم انھیں ہٹا اور رکھ سکتے ہیں۔ اور آرمی چیف اپنے ادارے کی طرف سے تین نام منتخب کر کے وزیراعظم کو بھیج دیتے ہیں۔ اور پھر یہ وزیراعظم کی صوابدید ہوتی ہے وہ جس مرضی کو منتخب کر کے آئی ایس آئی کا سربراہ مقرر کر دیں۔

اس دفعہ شاید طریقہ کار مختلف تھا۔ یا پھر وزیراعظم کو پریس ریلیز کے بعد ان تبادلوں کا پتہ چلا، خیر جو کچھ بھی تھا۔ اس دفعہ کچھ تو ایسا ہوا تھا۔ جو معمول سے ہٹ کر ہوا تھا۔

پاکستان میں سب کو پتہ تھا کہ جنرل فیض حمید وزیراعظم عمران خان کے کافی کلوز ہیں۔ اور وہ ان کے جانے کے بعد شاید کسی ایسے شخص کو لانا چاہتے ہیں۔ جس میں وہ جنرل فیض حمید کا عکس دیکھ سکیں۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان جنرل فیض کی جگہ جنرل آصف غفور کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ آج منگل ہے اور وزیراعظم ہاؤس سے آج بھی نئے ڈی جی، آئی ایس آئی کے نام کی سمری ریلیز نہیں کی گئی ہے۔

آنے والے دنوں میں صورتحال بہت زیادہ دلچسپ ہونے جا رہی ہے۔ کیونکہ اگلے سال نومبر میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ریٹائرڈ ہونے جا رہے ہیں۔ اور ان کی جگہ نئے آرمی چیف کو بھی جنرل فیض حمید سمیت تین اور جنرل میں سے کسی ایک کو آرمی چیف لگانا ہو گا۔

ذرائع کے مطابق مریم نواز سمیت نواز شریف صاحب کے معاملات اسٹیبلشمنٹ کے بڑے مضبوط دھڑے کے ساتھ طے پا چکے ہیں۔ اور ان کی ڈیل کے مطابق جنرل باجوہ کے رہنے سے کسی کو بھی کوئی پرابلم نہیں ہو گی۔ ڈیل کی نشانیوں کو ڈی کوڈ کرنا اتنا مشکل بھی نہیں ہے۔

چلیں چند باتیں ہم یاد کروا دیتے ہیں۔ پہلے تو نواز شریف صاحب اور مریم نواز صرف اور صرف جنرل باجوہ کو ہی ٹارگٹ کرتے تھے۔ ووٹ چوری کا الزام بھی انہی کے سر پر تھا۔ دونوں باپ، بیٹی مخاطب بھی انھیں سے ہوتے تھے۔ پھر ایسا کیا چمتکار ہو گیا کہ جنرل باجوہ کی جگہ نشانہ جنرل فیض حمید ہو گئے؟

ذرائع کے مطابق اگر باجوہ صاحب کو ایکسٹینشن نہیں ملتی ہے تو وہ اگلے سال نومبر میں ریٹائرڈ ہو جائیں گے۔ اور وزیراعظم عمران خان اگلے آرمی چیف کے لئے جنرل فیض حمید صاحب کو ہی منتخب کریں گے۔ اور مریم نواز کے اتنے سخت الزامات کے بعد جنرل فیض حمید کے دل و دماغ میں ان کے متعلق اچھی یادیں تو نہیں ہوں گی۔

اگلے آرمی چیف فیض حمید مطلب مریم نواز اور نواز شریف صاحب کے سیاست میں واپسی اور مریم نواز کی اسمبلی واپسی میں مزید دوریاں، ایسا ذرائع کہتے ہیں۔ آگے کی کچھ کہانی میرے لکھے بغیر ہی اپ بھی سمجھ جائیں، کہ کس کو کون اور کیوں سوٹ کرتا ہے۔

اب اس سارے پلان میں رکاوٹ ہے وزیراعظم عمران خان بلکہ یوں کہہ لیں یہ سب اس وقت ایک دوسرے کی راہ کے کانٹے ہیں۔ جس کو ہر کوئی جلد از جلد ہٹا دینا چاہتا ہے۔ لیکن یہ کانٹوں بھرے راستے اتنے بھی آسان نہیں ہیں۔ ان کانٹوں سے پاؤں ہی نہیں ہاتھوں سمیت آنکھوں کی پلکیں بھی زخمی کرنی پڑیں گیں۔

سب نے اپنے اپنے پلان تو بنا لئے ہیں۔ لیکن اپنے اپنے پلان کو منطقی انجام تک کیسے پہنچانا ہے یہ سمجھ نہیں آ رہی۔ راستے ڈھونڈیں جا رہے ہیں۔

وزیراعظم عمران کو کون کیسے اور کیوں ہٹاتا ہے یہ بات میرے لئے معنے نہیں رکھتی، میرے لئے یہ بات زیادہ معنے رکھتی ہے کہ نواز شریف اور ان کی بیٹی جس جمہوریت اور ووٹ کو عزت دلوانے کی بات کرتے ہیں۔ انھیں بھی آخر پھر اسی جنرل کا ہاتھ پکڑ کر ہی اپنی بیٹی کو اسمبلی تک پہنچانا پڑے گا؟

پاکستان میں اگلے آنے والے دن اور کچھ ماہ بہت اہم ہوں گے جہاں ہمیں بہت زیادہ تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی۔ اپوزیشن اسٹیبلشمنٹ کے ایک حصے کے ساتھ مل کر اپنی بساط بچھانے کی کوشش میں ہے۔

جب کہ دوسری طرف وزیراعظم عمران خان اپنی پسند کے لوگوں کو لا کر اپنی مرضی کی بساط بچھانا چاہتے ہیں۔ اگر عمران خان کی بساط الٹانے کی کوشش کی گئی تو کپتان سب کی بساط ضرور الٹا دے گا۔

سارے پاکستان کی اس وقت نظریں ایک ہی نوٹیفیکیشن پر لگی ہوئی ہیں۔ ہر صبح اٹھتے ہی سب ایک دوسرے کو پوچھتے ہیں نوٹیفکیشن آیا کیا؟

بابا جی کہتے ہیں اگر نوٹیفیکیشن نہ آیا، تو بھونچال آ جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments