دن بدلتے نہیں حالات سدھرتے نہیں


عصر حاضر میں ہر انسان تبدیلی کا نعرہ بلند کر رہا ہے۔ شاید تبدیلی کا یہ نعرہ دوسروں کے لئے مخیر ہوتا ہے اور اپنی ذات کے لیے کنجوسی کا نوالہ۔ بلاشبہ یہ فکری سوچ کا اعلی نمونہ ہے اور ہیئت و حرکت میں بے مثال بھی۔

اس امر کے باوجود بھی ہمارے تمام تر وسائل اور کوششیں رائیگاں کیوں چلی جاتی ہیں؟ آخر ایسے وہ کون سے محرکات ہیں جن کے باعث تبدیلی کا عمل رک جاتا ہے؟

اگر اس بات کو فطری خوردبین سے دیکھا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ہر انسان دوسروں کے عیب دیکھنے کا عادی ہوتا ہے اور اپنی ذات سے بے نیاز۔ دراصل یہ ہماری فطرت کی بگاڑ کی ٹیڑی سوچ کی عکاسی ہے، جسے ہم دوسروں کے لئے استعمال کرتے ہیں جب کہ اپنی ذات کے لئے رشوت کا دستر خوان بچھا لیتے ہیں۔

اگر آپ مثبت سوچ کے متمنی ہیں اور آپ کسی چیز کے بارے میں کھوج لگانے کے عادی ہیں تو کچھ حقائق پر تبادلہ خیال اس نیت اور اصرار کے ساتھ کریں تاکہ ہمارے ہاتھ کچھ آ جائے، اور ہم ایسے سفر پر گامزن ہو جائیں یہاں تعمیر و ترقی اور خوشحالی کا دروازہ کھلتا ہو۔ یہ سچی و کھری بات ہے کہ ہر چیز کا نقطہ آغاز اور نقطہ اختتام ہوتا ہے جو کسی چیز کی کامیابی اور ناکامی کے بارے میں وقت سے پہلے آگاہ کر دیتا ہے۔ لیکن اس بحث میں الجھنے سے پہلے اپنی ذات سے کچھ سوالات کر لیں اگر آپ کو ان سوالات کے آسانی سے جواب مل جاتے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ سوچ بچار شروع کر دیں۔ ہو سکتا ہے کچھ عرصے بعد آپ کو اپنی الجھن کا جواب مل جائے اور آپ اس قابل ہو سکیں اور جان سکیں کہ حقائق انسان کی کیسے ترجمانی کرتے ہیں؟ انسان کے اندر وہ کیسے تبدیلی لاتے اور اسے کسی چیز کے حصول کے لیے کیسے اکساتے ہیں؟

اگرچہ یہ ایک فطری جذبہ اور روایت ہے جس کا تعلق انسان کی فطرت کے ساتھ نتھی ہوا ہے۔ وہ کسی چیز کی تہ تک پہنچنے کے لئے اس کی پرتوں کو بار بار کھرچتا ہے تاکہ جان سکے کہ اس چیز کی جڑ زیر زمین کتنی پیوست ہے، اور آپ کی سوچ کتنی گہرائی تک سفر کر کے حقائق کو جان سکتی ہے۔

ایک پر نمکین تمہید کے بعد اپنی تسلی اور کھوج کے لئے ایک سوال ضروری ہے کہ ہم کسی کام کی شروعات کیسے کرتے ہیں؟ اس میں مقصدیت اور حقانیت کس زاویے پر آ کر ملتی ہیں۔ اگر ہمیں پرکار گھمانی آتی ہے مثلث اور زاویہ بناتے کوئی زیادہ وقت نہیں لگتا۔ البتہ اگر ہم غفلت کی نیند سوئے ہوئے ہیں اور ہماری سوچ لنگڑی اور مفلوج ہے تو پھر نہ ہم چل سکتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔

بے شک نشوونما کے درجے ایک فطری عمل طے کر کے وجود میں آتے ہیں تاکہ ہم بھی فطری اصولوں کی فرمانبرداری سیکھ کر آگے بڑھ سکیں۔ ہمارا کوئی بھی کام اس وقت تک پایا تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا جب تک ہم اس میں خدا کی رضا شامل نہ کریں۔ یہ ایک فطری حسن ہے کہ ہر مقصد کی الگ چاشنی، سادگی، کارکردگی اور نتائج ہوتے ہیں جو کسی چیز کی ٹھوس بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ اس ضمن میں فطری صلاحیتیں اور موضوعات ممتاز درجے پر فائز ہو جاتے ہیں جو اپنے اندر تبدیلی کی اجزائے ترکیبی اور مرکبات بنانے کی استعداد رکھتے ہیں۔

جبکہ غیر فطری رویے ناکامی کی دلدل میں پھنس جاتے ہیں اور انسان مجبوراً اپنے گرد و نواح کے حالات و واقعات سے اس قدر بدظن ہو جا تا ہے، اسے صرف ناکامی اور مایوسی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ کبھی اس کی امید کی شاخیں ٹوٹ جاتی ہیں، کبھی اس کے خیالات کا تنا کٹ جاتا ہے، کبھی اس کی شہ رگ یعنی زندگی کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ بعض اوقات ہمیں ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے ہماری ساری محنت رائیگاں چلی گئی اور ہم خالی ہاتھ ملتے رہ گئے۔ نہ ہم نے کسی چیز کو پکڑا اور نہ کوئی چیز ہمارے ہاتھ آئی۔ بس اگر کوئی چیز ہاتھ آئی بھی ہے تو وہ پچھتاوا ہے۔ میں اپنے اس گھٹیا رویے سے تنگ آ کر ایک ویران جنگل میں چلا جاتا ہوں جہاں

میں اپنے خیالات کو بار بار سمندر کی تہ میں اتارتا ہوں تاکہ انہیں پانی ہوا اور ضروری نمکیات مل جائیں۔ میں بار بار دریا میں اترتا اور باہر آ جاتا ہوں۔ میرے پاس کوشش کی ایک سیڑھی بھی ہے جو مجھے سمندر کی گہرائی میں اتار بھی دیتی ہے اور باہر بھی لے آتی ہے۔ میں اسے کیا کہوں۔

بے شک زندگی مسلسل تگ و دو کا نام ہے اور جب تک ہماری سانسیں وجود تن ہیں میں کوشش کی سیڑھی استعمال کرتا رہوں گا۔ یہ مجھے اترنے چڑھنے کی سہولت مہیا کرتی ہے۔ میرے ہاتھ میں سہولت کا بہترین ساز و سامان موجود ہے۔ جو میری رہنمائی کر کے مجھے اس قابل بناتا ہے۔

اگرچہ قانون قدرت اٹل ہوتے ہیں ان میں صداقت، یکسانیت، اپنائیت اور قدرومنزلت کی عمدہ ترکیب اور آگے بڑھنے کے مواقع شامل ہوتے ہیں۔ البتہ خوشنما اور خوشبودار وہی چیزیں ہوتی ہیں جن میں فطری تجسس اور نئی کونپلیں پھوٹنے کا رجحان پایا جائے۔ اگرچہ تجربات اور مشاہدات آنے والی نسلوں کے لئے ایک تحفہ کی مانند ہوتے ہیں جو محبت اور ریاضت کے عمل کو فروغ دیتے ہیں۔

لہذا ہر انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے آبا و اجداد کے تجربات اور مشاہدات سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے دن بدلنے اور حالات کو سدھارنے کے لیے محنت شاقہ سے گریز نہ کرے۔ بے شک محنت ایسی چابی ہے جو کامیابی کا دروازہ کھول دیتی ہے جس سے ہر انسان کے اندر جذبات و احساسات کی نئی کونپلیں دوبارہ سے پھوٹنے لگتی ہیں۔ البتہ وقت کے اتار چڑھاؤ نے ہماری فطرت میں یہ بات شامل کر دی ہے کہ ہم ہر وقت اپنی ناکامیوں پر نوحہ کناں ہوتے ہیں جب کہ ہم اپنی خامیوں کا جائزہ نہیں لیتے اور نہ اپنی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اگر ہماری سرشت میں یہ عمل فروغ پا جائے تو کامیابی کا تناسب کئی گناہ بڑھ سکتا ہے۔ اگر ہم مثبت پیش رفعت کے لئے اپنی آنکھوں میں خواب سجائیں اور اپنے ارادوں کو محنت شاقہ میں شامل کریں تو دن بدل سکتے ہیں اور ہمارے حالات بھی سدھر سکتے ہیں۔

آج کے انسان کو اپنے معاشرے میں رہتے ہوئے اردگرد کے ماحول اور طرز زندگی کا بخوبی علم ہونا چاہیے تاکہ ہم کسی سمت اپنا سفر کرنے کے قابل ہو سکیں ورنہ پھر گپ اندھیرے کی ٹھوکریں۔

آج کل ہماری اکثریت اس بات کی قائل ہو چکی ہے بلکہ وہ اس بات پر نوحہ کناں ہوتے ہیں ”دن بدلتے نہیں حالات سدھرتے نہیں“ جب خیالات کی فطوری رگیں ابھر کر باہر آ جائیں تو وہ چیخ چیخ کا اپنی حالت زار کے بارے میں آگاہ کرتی ہیں۔ اصل میں وہ ہماری توجہ اس جانب مبذول کرواتی ہیں ہمارا علاج کرو۔ لیکن ہم شاید عدم توجہ کا شکار ہوتے ہیں، ہمارے قدم رک جاتے ہیں اور ہمارے ہاتھ مفلوج ہو جاتے ہیں یعنی وہ اپنی قدرتی طاقت سے محروم ہو جاتے ہیں، شاید ہمارے ہاتھ خون سے رنگے ہوتے ہیں، ہمارے دلوں پر گندگی کے ڈھیر جمع ہوتے ہیں، ہم باہر سے سونا جلدی دکھائی دیتے ہیں جب کہ ہمارے اندر ناراست خیالات کی آمیزش ہوتی ہے، ہم اپنے اعمال کے لحاظ سے پست قد ہوتے ہیں، ہماری قوت حیات صلب ہو جاتی ہے، ہمارے شعور کی حسی قوتیں ختم ہو جاتی ہیں، گویا ہم نے اپنے آپ کو منفی رجحانات کے اندر لپیٹ لیا ہوتا ہے، ہم اپنا فطری تشخص کھو بیٹھتے ہیں، اپنے آپ کو غیر معمولی انسان سمجھنے لگ جاتے ہیں، اور نتیجتاً ہمارے اوپر یہ کیفیت طاری ہو جاتی ہے کہ دن بدلتے نہیں حالات سدھرتے نہیں۔

بے شک حالات پر قابو پانے اور مسائل پر غالب آنے کے لیے ایک طویل ریاضیاتی محنت کی ضرورت ہے۔ اور جب تک ضرورت کو ایجاد کی ماں سمجھ کر دریافت نہ کیا جائے اس وقت تک ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ اگر ہم حقیقی خوشی عظمت کا لباس پہننا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی سوچ کو ایسے زاویے پر مرکوز کرنا ہو گا تاکہ ہم کامیابی کے راستے پر گامزن ہو سکیں۔ اگر ہم اپنے اردگرد مسائل کا جائزہ لیں تو ہمیں مسائل کی چٹانیں نظر آتی ہیں جنہیں ریزہ ریزہ کرنے کے لیے شاید ہمارے پاس وہاں ہتھوڑا نہیں ہے جو ہمارا راستہ ہموار کر دے۔

ہمیں اس بات کو زندگی کے نصب العین میں شامل کرلینا چاہیے کہ مشکلات کے پہاڑ سرکانے کے لئے قوت ارادی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر اس میں مصمم ارادہ شامل ہو جائے اور ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی ٹھان لی جائے، شور اور ہنگامے میں اپنے ضمیر کی آواز سن سکیں، جوش و جذبہ کا مظاہرہ کرسکیں، انقلاب کا سورج دیکھنے کے لئے آنکھوں میں روشنی ہو، شخصیت کے قد سے واقفیت ہو، حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی ہمت رکھتے ہوں، غلامی کی زنجیریں توڑنے کی سکت رکھتے ہوں، تلاش کے بہتے دریا میں موتیوں کو ڈھونڈنے کی عادت ہو، زندگی تضاد و تعارض کی فضا سے پاک ہو، فاصلے مٹانے کے لیے سفری جستجو ہو، آئینے میں اپنے داغ دھبے دیکھنے کی ہمت ہو، تو ہمیں اپنے مقاصد میں کامیابی اور ثمرات اسی صورت مل سکتے ہیں جب ہمارے اندر ارادوں کا نیا چراغ جلتا ہے تو اس سے ہمیں رہنمائی بھی ملتی ہے اور کامیابی کی ضمانت بھی۔ اگر ہم اپنی فطرت میں تجسس، معیار، کوالٹی، برداشت، محبت اور محنت کا رنگ نمایاں کر لیں تو پھر ہم یہ نغمہ گنگنا سکتے ہیں کہ دن بدلتے ہیں حالات سدھرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments