بھینس کی ڈیوٹی وہی رہے گی


ایک بھینس کو جب کسی نے اطلاع دی کہ اسے چور کھول کر لے جا رہے ہیں تو اس نے درویشانہ انداز میں نشاندہی کی کہ نیا مالک بھی اس کے ساتھ وہی سلوک کرے گا جو پرانا کرتا ہے اس لیے اسے کوئی ٹینشن نہیں ہے۔

جب تک پاکستانی عوام کو حکومت میں اختیار نہیں ملتا تو بہتر ہے کہ وہ بھی بھینس جیسا درویشانہ طرز عمل اختیار کریں اور سیاسی بحرانوں پر جذباتی ہونے کی بجائے سکون سے پاپ کارن کا لفافہ ہاتھ میں پکڑیں اور دیکھیں کہ ان کا مالک اب کون بنتا ہے۔

گلہ مارشل لا سے نہیں ان سیاستدانوں سے ہے جو اس کا ساتھ دیتے ہیں۔ اور ان سیاستدانوں سے ہے جو بظاہر عوام کے ووٹوں سے حکومت بناتے ہیں لیکن عوام کی فلاح کو اپنی سیاست کا مقصد نہیں بناتے۔ ان کا مقصد صرف اپنا الو سیدھا کرنا ہوتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے وہ اپنے حامیوں کو بہترین الو بناتے ہیں۔

کیا وجہ ہے کہ کوئی پاکستانی وزیراعظم ملک کو فلاحی ریاست بنانے کی کوشش نہیں کرتا؟ کیوں ہمارے حکمران عوام کو جدید زمانے کی تعلیم دینے کی بجائے لازمی مضامین کا رٹو طوطا بنانے کے قائل ہیں؟ رٹو طوطے منطقی انداز اپنا برا بھلا سوچنے سے قاصر ہوتے ہیں اور جو مالک کہے وہی راگ الاپتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کووڈ کے دو برسوں میں اگر لازمی مضامین کا امتحان نہ لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے یہ سمجھا جائے کہ اختیاری مضامین ہی بہت کافی ہیں تو کووڈ سے ہٹ کر کیوں لازمی مضامین کا بوجھ طلبا پر لادا جاتا ہے؟ کیا ایسا محض رٹو نسل تیار کرنے کے لیے نہیں کیا جاتا؟

مسئلہ صرف یہ ہے کہ عوام اگر سوچنے سمجھنے لگے تو وہ حکمرانوں سے جواب بھی طلب کریں گے۔ وہ نمائشی نعروں کی بجائے عملی اقدامات پر مصر ہوں گے۔ پوچھیں گے کہ ہمارا ٹیکس کہاں گیا اور کس پر خرچ ہوا؟ کیا عوام پر خرچ ہوا یا پھر شاہ خرچی کی نذر ہوا؟ قانون بھی یوں چند گھنٹوں میں پاس نہیں ہوں گے۔ یہ بھِی پوچھیں گے کہ پولیس کی اتنی بڑی تعداد حکمرانوں کے تحفظ کے لیے لگا دی گئی ہے، ان کے تحفظ کو عوام کے تحفظ پر ترجیح کیوں دی گئی ہے؟ یعنی پروٹوکول کے لمبے قافلوں کا نکلنا مشکل کر دیں گے۔ ملکی سلامتی کی پالیسی پر بھی سوال اٹھا دیں گے اور کسی نے ایسا کرنے پر انہیں اٹھا لیا تو اسے بھی ناحق دق کریں گے۔ یعنی بالکل ہی غدار ہو جائیں گے۔

عوام کی حکومت میں شرکت کا پہلا مرحلہ بلدیاتی ادارے ہوتے ہیں۔ ان کی مدد سے وہ اپنے گلی محلے کے گٹر اور سڑک بنوا سکتے ہیں جو ان بلدیاتی نمائندوں کی عدم موجودگی میں ممبر قومی اسمبلی کا استحقاق بن جاتے ہیں۔ پولیس تنگ کرے تو اس کا علاج بھی وہ مقامی عدالتوں اور مقامی حکومت سے اپنا قانونی حق مانگ کر کرتے ہیں اور ایم این اے کی منت خوشامد کے محتاج نہیں رہتے۔ ملازمتیں بھی سیاسی کوٹے کی بجائے میرٹ پر ملتی ہیں۔ یعنی ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کی محتاجی سے آزاد ہو جاتے ہیں۔

اور ایسا ہوا تو پھر سیاست میں دولت مند کی بجائے عام آدمی کی شرکت بھی ممکن ہو سکے گی۔ ایک غریب یا مڈل کلاسیا بھی سیاسی پارٹی میں میرٹ کی بنیاد پر آگے بڑھتا ہوا لیڈر شپ تک پہنچ پائے گا۔ یعنی موروثی سیاست کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ واضح رہے کہ موروثی سیاست اگر دوسروں کا حق مار کر نہ کی جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں لیکن اگر موروثیت کی بنیاد پر سیاسی پارٹی کو خاندانی پارٹی بنا دیا جائے تو کچھ بری بات ہے۔ اور ایسا اسی وقت ہوتا ہے جب عوام منطقی انداز میں سوچنے سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں اور کارکردگی کی بجائے اندھی عقیدت کی بنیاد پر ووٹ ڈالتے ہیں۔

لیکن یہ سب اختیار عوام کو دے دیا تو پھر ہمارے حکمرانوں کو پاکستان میں اپنی ظاہری یا باطنی حکومت قائم کرنے کا فائدہ کیا ہو گا؟ حکومت کا مزا تو ہے ہی اس وقت جب بندہ بادشاہی کرے۔ یعنی حکمران کی اپنی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوں، خواہ اس مقصد کے حصول کی خاطر عوام کا سر کڑاہی میں ڈالنا پڑے۔

تو جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا، کوئی دستخط ہوں یا نہ ہوں، وزیراعظم یہی رہے یا کوئی نیا آئے، بھینس کی ڈیوٹی وہی رہے گی، اس لیے پریشان ہونے کی بجائے پاپ کارن کا لفافہ پکڑیں اور چلتی ہوئی فلم سے لطف اندوز ہوں۔ ہاں کبھی الیکشن آ گیا تو خانہ پری کے لیے کم تر برائی منتخب کرنے والے اصول کے تحت ووٹ ضرور ڈالیں اور فارغ وقت ہو تو آر ٹی ایس کے نہ بیٹھنے یا دھند نہ چھانے کی دعا مانگ لیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments