مکرمی! اس وقت پوری دنیا موذی وبا کورونا وائرس کے نشانے پر ہے۔ جس نے قیمتی زندگیوں کو چاٹ کر عالم انسانیت کو خوف و ہراس میں مبتلاء کر دیا ہے۔ جسے عالمی ادارہ صحت نے عالمی وبا کا نام دیا ہے۔ البتہ یہ پہلی عالمی وبا نہیں اس سے قبل طاعون، انفلوائنزا، ایڈز اور متعدد امراض نے انسانی و حیوانی حیات کو بری طرح متاثر کیا ہے اور کروڑوں قیمتی جانیں لقمہ اجل بن گئیں تھیں۔ طبی ماہرین، جدید ٹیکنالوجی اور دنیا کے سپر پاور ممالک بھی ایک خفیف جراثیم کے آگے بے بس ہیں۔

انسان ’انسان سے خائف ہے۔ مصافحے کے لیے ہاتھ کے بجائے بازو اور سینے کے بجائے نظریں ملائی جاتی ہیں۔ کیوں کہ اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے۔ جو ہسپتالوں اور قرنطینہ سنٹرز میں زیر علاج ہیں ان کے سروں پر موت کے بھیانک سائے منڈلا رہے ہیں۔ ایسا کیوں نہ ہو؟ کیونکہ انسان امن و آشتی کے دنوں میں اینٹی وائرس کے بجائے انسانیت کی تباہی کے مہلک ترین ہتھیار بنانے میں مصروف عمل رہتا ہے۔

اس وبا کے متعلق مختلف تبصرے، تجزیے، انکشافات، نظریات اور دیگر قیاس آرائیاں عروج پر ہیں۔ بعض لوگ اسے بائیولوجیکل ہتھیار کہتے ہیں، جو انسانی ہاتھوں نے لیبارٹریوں میں تیار کیے ہیں۔ جسے ترقی یافتہ ممالک کی معاشی زوال کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ تو بعض حضرات اسے گناہوں اور بداعمالیوں کا نتیجہ ثابت کرنے کے لیے زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں۔ بہرحال اس وبا کے پس منظر حقائق جو بھی ہوں ان پر تبصرے جھاڑنا محض وقت کا ضیاع ہو گا۔

اگر یہ حیاتیاتی جنگ ہے تو جن ممالک پر حیاتیاتی جنگ کا الزام لگایا جاتا ہے وہاں کے لوگ خود اس مرض سے دوچار کیوں ہیں؟ اور ان کے پاس اس کا توڑ کیوں موجود نہیں ہے؟ دوسرا یہ کہ اگر ہم یہ اپنی بداعمالیوں اور گناہان کبیرہ و صغیرہ کا خمیازہ بھگت رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے بھی تو اسی طرح کی وباوٴں کا سامنا کرتے رہے ہیں۔ خود ہمارے رسول ﷺ اور حضرت ابو عبیدہؓ جیسے صحابی بیماری کی حالت میں رحلت فرما گئے ہیں۔

یہ دنیا آزمائش کا گھر ہے۔ قوموں پر مصیبتیں آتی ہیں اور اپنا وقت گزار کر چلی جاتی ہیں۔ لہٰذا یہ وقت ایک دوسرے پر الزام تراشی کا نہیں بلکہ ایک قوم بن کر اس وبا کو شکست فاش دینے کا ہے۔ بیشک جینا مرنا اللہ ہی کی مرضی سے ممکن ہے ’مگر زندگی کی تحفظ انسان کی اولین فریضہ ہے۔ ویسے بھی 97 فیصد مریض اس سے صحت یاب ہوتے ہیں جبکہ سو سال سے زائد کئی معمر افراد نے کورونا کو شکست دے کر ثابت کر دیا ہے کہ یہ اس قدر مہلک نہیں جس قدر سمجھا جا رہا ہے۔

حکومت نے اس قدرتی آفت سے نبردآزما ہونے کے لیے کئی مثبت، گراں قدر اور قابل ستائش اقدامات کیے ہیں۔ پاک فوج، پولیس اور رضاکار بھی عوام کی خدمات پر مامور ہیں۔ ڈاکٹروں کی خدمات اپنی مثال آپ ہیں۔ آپ بس توبہ و استغفار کی ورد کیجیے، صدقہ و خیرات سے غریب، نادار اور مستحق افراد کی مدد کیجیے۔ غیر ضروری سرگرمیوں اور نقل و حمل سے اجتناب کیجیے۔ گھر میں رہنے کو ترجیح دیں اور سماجی فاصلے کا خصوصی خیال رکھیے۔ ماسک کا استعمال کریں۔ طبی عملے سے تعاون کریں۔ ویکسین ضرور لگوائیں۔ انشاء اللہ بہت جلد دنیا کی رونقیں بحال ہوں گی، زندگی کا پہیہ پھر سے رواں ہو گا اور ہم وطن عزیز کو ”کورونا فری پاکستان“ بنانے میں سرخ رو ہوں گے۔