سو روپے کا پاکستان ٹیلی ویژن


ایک ادارہ، ایک طلسم ہوشربا، جس کی چمک دمک سے پورا ملک جگمگانا تھا، جس کی تکنیک و تخلیق سے ملک میں فن اور فنکاروں نے ایک دلکش تاریخ رقم کرنا تھی، جس نے ملک کے اندر اور باہر بصری فن پاروں کے رنگیلے سجیلے میلے سجانے تھے، جس میں دولت کی اتنی فراوانی ہونی تھی جو اپنے تمام اخراجات کے بعد بھی ملک میں فن و ابلاغ کی تدریس و تحقیق کے لئے طلبہ کو وظائف جاری کرنے تھے، جس نے ٹرینڈ بننا تھا، جس نے ٹرینڈ بنانا تھا، جو پی ٹی وی تھا۔ وہ شاید ریزہ ہو چکا۔

کہتے ہیں پاکستان کا ہر ادارہ زوال پذیر ہے۔ ہر جگہ یہی حال ہے تو پی ٹی وی اور ریڈیو الگ کیسے؟ چلو۔ مان لیا۔ اب سٹیل مل میں خام مال آئے گا سٹیل بنے گا سٹیل بکے گا مل چلے گی۔ پی آئی اے میں مسافر آئیں گے ٹکٹیں بکیں گی گاڑی چلے گی۔ پھر ضرورت سے زیادہ بھرتیاں اداروں پر بوجھ ہیں۔

پی ٹی وی کی پراڈکٹ کیا ہے؟ برقی لہروں پر متحرک تصویریں! جن کا وجود بس فضاؤں میں ہی ہے۔ اور کام یہ کہ ان تصویروں کو سلیقہ سے بنا کر سنوار کر سجا کر دنیا کی تفریح کے لئے پیش کرنا، اچھے سے مارکیٹ کرنا اور قومی اور بین الاقوامی سطح پر مستحکم آمدن کے ذرائع ڈھونڈنا۔ اتنا بہترین اساسی ڈھانچہ، اتنی تکنیکی سہولیات، اتنی افرادی قوت لیکن پھر بھی حالت یہ کہ بجلی بل میں لگا سو روپیہ نہ ملے تو شاید پی ٹی وی ڈوب جائے۔

کہتے ہیں پی ٹی وی کا بورڈ ہے، چیئرمین ہیں، ایم ڈی ہیں، مارکیٹنگ کے اعلی افسران ہیں۔ تخلیقی پروڈیوسر ہیں، عملہ ہے۔ یہ سب لوگ کہاں ہیں۔ کیا کرتے ہیں۔ آپ سب کارپوریٹ اور تخلیقی لوگوں کی جاب تو یہ کہ آپ پی ٹی وی کو دنیا میں حالات حاضرہ اور تفریحی پروگرامنگ کی بہترین مثال بنائیں گے۔ نہ صرف خود کفیل ہوں گے بلکہ کفالت کریں گے۔ مثال تو بنے۔ شرمندگی کی۔ مثال تو بنے۔ کاہلی اور نکمے پن کی۔ مثال بنے بھی تو بل میں سو روپے کی۔

آپ سب کو مبارک ہو جی! ٹک ٹاک کی ماہانہ آمدنی اور خرچہ ہمارے قومی نشریاتی ادارے سے زیادہ ہے۔

کہتے ہیں پی ٹی وی میں ادارے کی اپنی خود کی تخلیقی و معاشی ترقی بہتری کے لئے کام کرنے والوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ کونے لگتا ہے یا نکال دیا جاتا ہے۔ یار دوست عام فہم زبان میں اس کو ادارے کی اندرونی پست سیاست کا نام دیتے ہیں۔

یہ 2010 کی بات ہے۔ لاہور میں سردیاں آ چکی تھیں۔ میں ایک نجی نشریاتی ادارے میں کام کر رہا تھا جہاں اجرت کی عدم ادائیگی کا غالباً چوتھا مہینہ تھا اور آگے کی کچھ خبر نہ تھی۔ پنجاب یونیورسٹی سے تازہ تازہ ایم اے کر کے پاکستان ٹیلی ویژن میں پروڈیوسر کی آسامی کے لئے درخواست دے چکا تھا اور انٹرویو کے انتظار میں تھا۔ اس شام مجھے اور میری ٹیم کو شاہ نور سٹوڈیو میں کام کرتے ہوئے اٹھارہ گھنٹے ہو چکے تھے جب مجھے پی ٹی وی سے انٹرویو کی کال آئی۔ میں نے اگلے دن کی ریکارڈنگ رکھی اور پیک اپ کے بعد انٹرویو کے لئے پی ٹی وی لاہور پہنچ گیا۔ اس وقت کے ڈپٹی مینیجنگ ڈائریکٹر (ڈی ایم ڈی) جناب شاہد محمود ندیم صاحب نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا اور انٹرویو شروع ہو گیا۔

کیا سوال جواب ہوئے سب تو مجھے یاد نہیں لیکن جو یاد رہا وہ یہ کہ آپ پی ٹی وی کیوں آنا چاہتے ہیں۔ میرا جواب سادہ اور سیدھا تھا۔ میں نجی میڈیا میں کام کر رہا ہوں اور پی ٹی وی میرا روحانی سکول ہے۔ میرے نزدیک اس ادارے کے دو روپ ہیں۔ یہ ایک اکیڈمی ہے جس سے میرا رومانس جڑا ہے جہاں عالم لوہار، الن فقیر، پٹھانے خان، فریدہ خانم، عابدہ پروین، جالب، منیر نیازی، دلدار بھٹی، سرمد صہبائی، ٹینا ثانی، پروین شاکر جیسی شخصیات وابستہ ہیں اور دوسرا روپ ایک بہترین قومی برانڈ کاہے جو خالص کارپوریٹ کلچر پر مبنی ہے جہاں اپنی پراڈکٹ کو مارکیٹ کرنے اور آمدن کے ذرائع کو وسیع کرنے کے لئے انٹر ٹینمنٹ و حالات حاضرہ کے معیاری پروگراموں کی ضرورت ہے۔

یہاں کام کا موقع ملا تو پی ٹی وی کے اکیڈمی والے روپ سے عوامی میڈیا کے بارے میں مزید سمجھوں گا مزید سیکھوں گا اپنے رومانس والے دماغ کو تسکین پہنچاؤں گا جبکہ برانڈ والے روپ کے لئے وقت کی مناسبت، ضرورت کے مطابق بہترین تخلیقی پروگرام بنا کر ادارے کے ملکی و غیر ملکی ناظرین اور آمدنی بڑھانے میں اپنا کردار ادا کروں گا۔ ”ہوں“ شاہد صاحب بولے ”سنو اتنی اجرت ہو گی کیا اس پر کام کرنے کے لئے راضی ہو۔“ سر اگر مستقل ملے گی تو بالکل راضی ہوں۔ ”میں نے جواب دیا اور وہ مسکرا دیے۔

پتہ چلا کہ ان آسامیوں کے انٹرویوز کے بعد پی ٹی وی میں پہلے سے بھرتی پروڈیوسرز کی جانب سے شدید مزاحمت کی گئی۔ کیوں کی گئی وہ مزاحمت؟ اس کا مجھے کوئی اندازہ نہیں ہے۔ ان میں کئی اچھے دوست بھی تھے اور آج بھی اچھے دوست ہیں۔ تھوڑے دنوں بعد شاہد محمود ندیم صاحب کہیں اور بھیج دیے گئے یا خود چلے گئے انٹرویوز کی فائلیں ردی ہو گئیں اور نعیم ربانی صاحب کچھ مہینے مزید بغیر اجرت کے کام کرنے کے بعد بوریا بستر اٹھا کر زندگی از سر نو سے شروع کرنے ملک سے باہر آ گئے۔

ان سالوں میں پاکستانیوں نے کمال کر دیا۔ سادہ دیہاتی پکوان سے لے کر شہروں کے گیان تک یوٹیوبرز اور ٹک ٹاکرز نے عمدہ مواد تخلیق کیا، ناظرین کی توجہ حاصل کی، شہرت ملی، روزگار بنایا اپنا گھر چلایا۔ پاکستانی انفلواینسرز نیٹ فلکس اور ایمیزون پرائم تک جا پہنچے۔ نہ بورڈ نہ چیئرمین نہ پروڈیوسر نہ مہنگے کیمرے نہ گاڑیاں نہ عملہ بس ایک موبائل فون، ایک دھن، ایک جستجو۔

اب گھسے پٹے پروگرام، ٹاک شوز، رمضان نشریات، ، عید نشریات، 4ا اگست نشریات، خصوصی نشریات اور پی ٹی وی کی سالگرہ پر سٹیج شوز کو بہترین تخلیقی کارنامہ سمجھنا بھی ایک کمال ہی ہے جو پی ٹی وی باکمال کرتا ہے۔

ٹھیک ہی تو ہے۔ اب سو روپے میں اور کیا مل سکتا ہے بھائی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments