قوم کا محسن، قوم کا ہیرو۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان


گزر تو خیر گئی ہے تیری حیات قدیرؔ
ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے

پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے والے، پوری دنیا میں پاکستان کی پہچان، ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے ہی ملک میں 17 سالہ نظربندی کے دوران 10 اکتوبر 2021 ء کو اسلام آباد میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون

ڈاکٹر عبدالقدیر خان یوں تو ایک سائنسدان تھے، مگر ان کی وجہ شہرت پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے کے لیے اپنی آسائش سے بھرپور ہالینڈ میں زندگی کو چھوڑ کر پاکستان آنے اور پاکستان کو ایٹمی ممالک کی صف میں شامل کرنا تھی۔

امریکی دباؤ میں سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے ان پر الزامات، پھر سرکاری ٹیلیویژن پر اعتراف جرم کروانا یہ بھی تاریخ کا سیاہ باب تصور کیا جائے گا۔ جس پر انہوں نے کئی دفعہ اظہار بھی کیا اور پاکستانی عوام اور ماہرین جانتے ہیں یہ کہ وہ فیصلہ سخت دباؤ کے تحت تھا۔

سوال صرف یہ نہیں کہ ان پر دباؤ ڈال کر الزام کا اعتراف کروایا گیا، سوال یہ بھی ہے کہ جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کرنے کا اٹل فیصلہ کیا تو انہیں ہٹا کر کسی اور کو چاغی دھماکوں کے انتظام کا سربراہ کیوں بنایا گیا۔ اصل کہانی شروع ہی 28 فروری 1998 ء سے ہوتی ہے۔ جب ایک ایسے شخص کو جس نے سب کچھ چھوڑ کر وطن عزیز کے لیے کچھ کرنے کا سوچا، اور اس کو عملی جامہ بھی پہنا دیا، پھر اسے تعصب کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔

مطمئن ہوں کہ مجھے یاد رکھے گی دنیا
جب بھی اس شہر کی تاریخ وفا لکھے گی

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام دراصل جوہری پروگرام کے ساتھ کچھ اس طرح منسلک ہو چکا تھا کہ پاکستان کے جوہری پروگرام کا نام آتے ہی ایک نام ذہن میں آتا تھا اور وہ صرف ڈاکٹر عبدالقدیر خان تھا۔ اسی لیے جب انھیں دشمن ملک کے دھماکوں کے جواب میں جوہری تجربات کی تیاریوں کی ذمہ داری اپنے حریف ادارے کو سونپنے کی خبر ملی ہوگی تو ڈاکٹر عبد القدیر خان نے مقتدر حلقوں کے بے حس رویے کو ضرور محسوس کیا ہو گا۔

ملک کی سلامتی کے نظام میں خدمات انجام دینے والے غالباً وہ واحد سویلین تھے جن کی قومی میڈیا میں ایک متحرک اور موثر لابی تھی۔ کئی صحافی ان کے جاں نثار حامیوں میں شامل تھے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان میڈیا کے سامنے بڑی مہارت سے اپنی بات کہنے کا ہنر جانتے تھے۔ ان کے مزاح کا بے ساختہ انداز بے ذوق صحافیوں کو بھی ان کا مداح اور گرویدہ بنا دیتا تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ یہ صحافی اور میڈیا مالکان ان کی حمایت میں نہ صرف لابی کی بلکہ معذرت خواہی بھی کرتے تھے۔

جب مشرف حکومت نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر غیرقانونی جوہری سرگرمیوں کا الزام لگایا۔ تو قدیر خان کے حامیوں اور ساتھیوں کے علاوہ آرمی افسران کی بڑی تعداد، سیاسی کارکنان، دانشور اور صحافیوں کا بھی لامتناہی قافلہ ان کے لیے کلمہ خیر کہنے والوں پر مشتمل تھا۔ یہ لوگ خاموشی سے ان کی حمایت میں الفاظ کے پھول بکھیرتے جاتے اور جب بھی جوہری ہتھیاروں کی بات یا بحث چھڑتی تو وہ ان کی پر زور وکالت کرتے۔

مشرف حکومت کو ایران، شمالی کوریا اور لیبیا کو جوہری صلاحیت کی منتقلی میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کی خبریں شائع کرانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کے باوجود جوہری ٹیکنالوجی کی منتقلی کے الزام میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو 31 جنوری 2004 ء کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ چار فروری 2004 ء کو سرکاری چینل پر انہوں نے ایک بیان پڑھا جس میں انہوں نے ان کارروائیوں کی تمام ذمہ داری قبول کر لی تھی۔ جبکہ فوج اور حکومت کو بری الزمہ قرار دے دیا تھا۔ اس بارے میں انہوں نے جس پر انہوں نے 2008 ء میں ایک انٹرویو میں خود کہا تھا کہ:

”الزام ایک آدمی پر ڈال دیں تو ملک بچ جاتا ہے۔ بات ملک پر سے ہٹ جاتی ہے۔“

یہ وہ دعویٰ تھا جو بہت سارے جوہری ماہرین تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے۔ اگلے دن صدر پرویز مشرف نے انھیں معافی دے دی، لیکن 2009 ء تک انھیں ان کے گھر میں نظربند رکھا گیا۔ پھر اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے بعد نظربندی تو ختم کردی گئی مگر ان کی نقل و حرکت کی سخت پہرہ داری کی جاتی رہی۔ انہیں کسی تقریب میں شرکت کرنے یا کسی رشتے دار کو ان سے ملنے کے لیے سکیورٹی کلیئرنس لینے کی ضرورت ہوتی تھی۔

بہت سارے پاکستانیوں کے لیے ڈاکٹر عبدالقدیر خان قومی عزت اور وقار کی علامت تھے۔ انھیں ہیرو تصور کیا جاتا تھا جنھوں نے انڈیا کے مقابلے میں پاکستان کی قومی سلامتی کو مضبوط اور ناقابل تسخیر بنایا تھا۔ پاکستان میں اگر جوہری پروگرام کے ساتھ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام جڑا ہوا ہے تو مغربی ممالک میں ان کا نام ”جوہری پھیلاؤ“ سے منسلک ہے۔ مغربی ماہرین کے الفاظ میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنی زندگی کا سفر جوہری پھیلاؤ کرنے والے کے طور پر شروع کیا اور ان کی پیشہ ورانہ زندگی کا اختتام بھی ان کی مبینہ جوہری پھیلاؤ کی سرگرمیوں پر ہی ہوا۔

مغربی ناقدین ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اس لئے اچھا نہیں سمجھتا کہ ان کی نظر میں ڈاکٹر صاحب نے دنیا کو اسلامی بم سے متعارف کروایا تھا۔ جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تو دنیا کے اخبارات نے اس کو ”اسلامی بم“ کے نام سے شہ سرخیوں کی زینت بنایا۔ اور یہی بات مغرب کو ایک آنکھ نہ بھاتی ہے۔

اگست 2009 ء میں ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بتایا تھا کہ میں نے ستمبر 1974 ء میں بھٹو کو خط لکھا کہ میرے پاس مطلوبہ مہارت ہے۔ بھٹو کا جواب بہت حوصلہ افزا تھا، دو ہفتوں بعد انھوں نے مجھے جوابی خط لکھا جس میں مجھے پاکستان واپس آنے کے لیے کہا۔ ان کے مطابق دسمبر 1974 ء میں پاکستان واپسی پر میں بھٹو سے ملا۔ میں نے ٹیکنالوجی کے بارے میں منیر احمد خان اور ان کی ٹیم کو تفصیلات سے آگاہ کیا اور ہالینڈ واپسی سے قبل ان سے انفراسٹرکچر کی تیاری کے لیے کہا۔

دسمبر 1974 ء میں ذوالفقار علی بھٹو ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ملے اور ان کی حوصلہ افزائی کی کہ جوہری بم کے حصول کے لیے وہ پاکستان کی جس حد تک مدد کر سکتے ہیں کریں۔ اگلے سال ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے سینٹری فیوجز کی ”ڈرائنگز“ (نقشے یا خاکے ) حاصل کیے اور بنیادی طور پر مغربی سپلائرز کی فہرست تیار کی جو اس کام کے لیے پرزہ جات فراہم کر سکتے تھے۔ 15 دسمبر 1975 ء کو ڈاکٹر خان نیدرلینڈز (ہالینڈ) سے پاکستان کے لیے روانہ ہوئے۔ ان کے ہمراہ ان کی اہلیہ اور دو صاحبزادیاں بھی تھیں۔

ابتدا میں ڈاکٹر خان نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (پی اے ای سی) کے ساتھ کام کیا لیکن ادارے کے سربراہ منیر احمد خان سے ان کے اختلافات ہو گئے۔ 1976 ء کے وسط میں ذوالفقار علی بھٹو کی ہدایت پر ڈاکٹر خان نے ”انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹری“ (ای آر ایل) قائم کی تاکہ یورینیم افزودگی کی صلاحیت کو پروان چڑھایا جائے۔ مئی 1981 ء میں اس لیبارٹری کا نام ”خان ریسرچ لیبارٹری“ یا ”کے آر ایل“ رکھ دیا گیا، جس کا مرکز کہوٹہ میں تھا۔

مئی 1998 ء کے جوہری دھماکے کرنے کے حق کو حاصل کرنے کے لیے ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اسلام آباد کی بیوروکریسی کے پورے نظام کے اندر جنگ لڑی۔ ان کے مدمقابل پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا ادارہ تھا۔

2000 ء میں ”پاکستان ڈیفنس جرنل“ (پاکستان کا دفاعی مجلہ) میں شائع ہونے والی ان کی بیوروکریسی کے خلاف جنگ کی تفصیلات کے مطابق ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے مئی 1998 ء کے دوسرے ہفتے میں کابینہ کی دفاعی کمیٹی کے سامنے اپنا کیس پیش کیا۔

رپورٹ کے مطابق انھوں نے زور دیا کہ ”کے آر ایل پوری طرح سے تیار ہے اور اگر ’ڈی سی سی (کابینہ کی دفاعی کمیٹی) حکم دے تو دس دن کے اندر جوہری دھماکے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور یہ کہ کے آر ایل ہی تھا جس نے پہلی بار یورینیم افزودہ کی، اسے دھات میں بدلا، نیم دائروں میں دھات کو مشین میں ڈھالا اور اپنی قسم کے جوہری بم کی شکل دی اور پھر اپنے طور پر اس کے“ کولڈٹیسٹ ” (کمپیوٹر پر جوہری دھماکوں کو جانچنے کا طریقہ) کیے ۔ یہ سب کامیابیاں“ پی اے ای سی ”کی کسی مدد کے بغیر حاصل ہوئی تھیں۔

انھوں نے بتایا کہ جوہری شعبے میں کے آر ایل مکمل طور پر خودمختار تھا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اس حد تک کہا کہ چونکہ پاکستان کے لیے جوہری شعبے میں پہلی رسائی کے آر ایل کی وجہ سے ہوئی تھی لہٰذا پاکستان کے پہلے جوہری دھماکوں کو انجام دینے کا اعزاز بھی اسے ہی ملنا چاہیے اور اگر ایسا نہ ہوا تو یہ ادارہ مایوسی اور بددلی محسوس کرے گا۔ ”

پاکستانی معاشرے میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو بے مثل جوہری سائنسدان تصور کیا جاتا ہے۔ اس معاملے میں کسی کو ان کے ہم پلہ نہیں سمجھا جاتا، کسی اور کا ان سے کوئی موازنہ نہیں ہوسکا، وہ پاکستان کی سلامتی کی علامت اور جوہری بم کے خالق و بانی سمجھے جاتے تھے اور رہیں گے۔ بعد ازاں جب امن کے حامی کارکن ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا تعارف سائنسدان کے بجائے دھاتوں کے ماہر کے طور پر کرانے لگے تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے حامیوں نے پاکستانی بم کے لیے افزودہ مواد کی تیاری میں ان کے کردار کو اجاگر کرنا شروع کر دیا۔

انتہائی زیادہ اور اعلیٰ معیار کی افزودہ یورینیم کی تیاری ان مشینوں کی مدد سے خان ریسرچ لیبارٹری میں کی گئی جو ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے جرمنی سے لائی جانے والی ٹیکنالوجی اور تکنیکی معلومات کی مدد سے تیار کی تھیں۔ یہ جزو پاکستانی اور مغربی بیانیے میں یکساں ہے کہ (پاکستانی بیانیے کے مطابق) یہ ٹیکنالوجی اور تکنیکی معلومات ”امپورٹڈ“ ہیں یا (مغربی بیانیے کے مطابق) مغربی جوہری لیبارٹریوں سے چوری کردہ ہیں۔

”پاکستان کے جوہری ہتھیار“ کے عنوان سے یکم اگست 2016 ء کو ”امریکی کانگریس ریسرچ سروس“ کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق ”پاکستان کے سابق جوہری سائنسدان ڈاکٹر اے کیو خان اس کے حصول کا ذریعہ بنے اور نتیجتاً یورینیم افزودگی سے متعلق ڈیزائن اور مواد کی لیبیا، شمالی کوریا اور ایران کو فراہمی کے لیے اسی طرح کا نیٹ ورک استعمال کیا۔“

پاکستانی بیانیے کی کہانی میں یہ بات پاکستانی جوہری دھماکوں کے وقت سے شامل ہونا شروع ہوئی کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کبھی بھی جوہری بم کے ڈیزائن سے منسلک نہیں رہے بلکہ ان کی کاوشیں انتہائی اعلیٰ معیار کی افزودہ یورینیم کے مواد کی تیاری تک محدود تھیں۔

یہ ہی وہ وقت تھا جب ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے یہ دعویٰ کرنا شروع کیا کہ جوہری دھماکوں کے ڈیزائن کے کولڈ ٹیسٹ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے ان کی نگرانی میں 1980 ء کے وسط میں کیے تھے۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ نے بھی اس بیانیے کو اسی طرح کی کہانیوں کے طور پر پیش کیا۔

پاکستان ڈیفنس جرنل کی 2000 ء میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق ”پی اے ای سی اور کے آر ایل نے یکساں طور پر ہدف کو طے کیا، تاہم پی اے ای سی کو دو اضافی امتیاز حاصل تھے جو کے آر ایل کو نہیں تھے۔ اول، یہ پی اے ای سی ہی تھا جس نے چاغی میں پاکستان کے جوہری دھماکوں کے مقام کو تیار کیا تھا۔“

”دوم: پی اے ای سی کو کے آر ایل کے مقابلے میں کولڈ ٹیسٹ کرنے کا زیادہ تجربہ تھا۔“

یہ پاکستانی معاشرے میں جوہری بیانیے پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی اجارہ داری کے اختتام کا آغاز تھا۔ یہ اجارہ داری پہلے ہی امن کے حامی کارکنوں کی طرف سے حملے کی زد میں تھی۔ لیکن اب ریاستی مشینری کے اندر سے آوازیں اس بیانیے پر ڈاکٹر عبد القدیر خان کے مکمل کنٹرول پر سوالات اٹھا رہی تھیں۔

مغربی طاقتوں کو پاکستان کا ایٹمی صلاحیت کا حامل ہوجانا کسی طور پر بھی قبول نہیں تھا۔ اسی لئے پاکستان کے بم کو اسلامی بم کے طور پر سمجھا گیا۔ اس پوری صورتحال میں کسی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، یا اس پر عرصہ حیات تنگ کیا گیا وہ صرف ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی شخصیت تھی۔ پہلے تو ایٹمی دھماکوں کو التوا کا شکار کیا گیا۔ لیکن جب 1998 ء میں بھارت کی جانب سے دوبارہ ایٹمی دھماکوں کے تجربے کیے گئے تو شدید دباؤ میں آ کر اس وقت کی حکومت کی حامی بھری اور اس طرح کہ مغربی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے اس ایٹمی بم کے خالق کو ہی دودھ میں مکھی کی طرح نکال دیا گیا۔

پاکستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ پاکستان کے ایٹمی صلاحیت کا حامل ہونے میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کیا کردار تھا۔ لیکن حکمرانوں کی کوتاہ اندیشی کے باعث گوہر نایاب کو خداداد صلاحیتوں سے محروم کر دیا گیا۔ اگر ڈاکٹر خان کو قربانی کا بکرا نہ بنایا جاتا تو آج پاکستان کا نقشہ کچھ اور ہی ہوتا۔

ایک انٹرویو میں سہیل وڑائچ نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے پوچھا کہ آپ کو کسی بات کا پچھتاوا ہے تو انہوں نے جو جواب دیا اسے سن کر ہر محب وطن پاکستانی نظریں شرم سے جھک گئی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ:

مجھے اس قوم کی خدمت کرنے کا پچھتاوا ہے۔ میں ہالینڈ میں پر آسائش زندگی گزار رہا تھا۔ اچھی نوکری تھی۔ بیوی بچیاں سیٹل تھیں۔ مگر بھارت نے جب ایٹمی دھماکے کر دیے تو مجھ سے برداشت نہیں ہوا اور سب کچھ چھوڑ کر پاکستان کے لیے یہاں آ گیا۔ مگر اتنی قربانیوں کا نتیجہ یہ ملا ہے۔ ”

جاوید چوہدری کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے اس بات کا بھی شکوہ کیا کہ: شاید مجھے اس لئے قبول نہیں کیا گیا کیونکہ میں اس مٹی کا بیٹا نہیں ہوں۔ مہاجر ہوں۔ ”

آج جب وہ پاکستانی عوام اور حکمرانوں کی بے وفائی کو اپنے دامن میں سمیٹ کر رخصت ہو گئے ہیں تو انہیں سرکاری اعزاز کے ساتھ دفنایا بھی گیا، ان کی نماز جنازہ میں لاکھوں لوگوں نے شرکت بھی کی۔ ہر آنکھ اشکبار بھی تھی۔ مگر کیا فائدہ جب زندہ تھے تو ان کی قدر نہیں کی گئی اور جب مر گئے تو، بقول شاعر:

عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments