خواتین کی برابر آمدن: دنیا بھر میں بیویاں اپنے شوہروں سے کم کماتی ہیں، نئی تحقیق


خواتین کی آمدن
کیا آپ اپنے شوہر جتنا کماتی ہیں؟ شوہروں اور بیویوں کی آمدن سے متعلق ایک نئی عالمی تحقیق کے مطابق جب یہ سوال بیویوں سے پوچھا گیا تو ان میں سے بیشتر کا جواب ’نہ‘ میں تھا۔

اس تحقیق کے لیے 45 ممالک اور گذشتہ چار دہایوں یعنی سنہ 1973 سے سنہ 2016 کے دوران جمع کیے گئے ڈیٹا میں پہلی مرتبہ صنفی بنیادوں پر آمدن کے غیرمتوازی ہونے پر بات کی گئی ہے۔

بنگلور میں انڈین انسٹیٹیوٹ آف مینیجمنٹ کے سینٹر فار پبلک پالیسی کی پروفیسر ہیما سوامی ناتھن اور پروفیسر دیپک ملگھن نے 18 سے 65 سال کی عمر کے جوڑوں پر مشتمل 28 لاکھ سے زائد گھرانوں کا ڈیٹا اس تحقیق کے لیے استعمال کیا۔ یہ ڈیٹا کو ایک غیر سرکاری تنظیم لگزمبرگ انکم سٹڈی (ایل آئی ایس) نے اکٹھا کیا ہے۔

پروفیسر سوامی ناتھن کا کہنا ہے کہ ’روایتی غربت کے اندازوں کو جانچنے کے لیے گھرانے کو ایک اکائی کے طور پر لیا جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ‘عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ایک گھرانے میں کمانے والے افراد کی آمدن کو ایک ساتھ یکجا کیا جاتا ہے اور پھر تقسیم کیا جاتا ہے۔ مگر اکثر گھرانہ ہی عدم مساوات کا سب سے بڑا گڑھ ہوتا ہے اور ہم اسی کے بارے میں جاننا اور بتانا چاہتے تھے۔‘

یہ بات سب کے علم میں ہے کہ انڈیا میں مزدوروں کی تنخواہوں میں صنفی عدم مساوات پائی جاتی ہیں کیونکہ انڈیا میں خواتین مزدور کم تعداد میں ہیں اور جو ہیں انھیں مردوں کے برابر تنخواہ نہیں دی جاتی۔

پروفیسر سوامی ناتھن اور ملگھن اس تحقیق کے ذریعے عالمی صورتحال کا اندازہ لگانا چاہتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’مثال کے طور پر نورڈک خطے کے ممالک جن میں ڈنمارک، فن لینڈ، آئس لینڈ، ناروے اور سویڈن شامل ہیں اور جنھیں دنیا میں صنفی برابری کی ایک امید کی کرن کے طور پر دیکھا جاتا ہے وہاں خواتین اور مردوں کی تنخواہوں کی صورتحال کیا ہے، کیا گھروں میں کام اور دولت کی تقسیم یکساں ہے؟

محققین نے دنیا کے ممالک کی گھریلو کاموں اور دولت کی تقسیم اور مجموعی طور پر خواتین اور مردوں میں عدم مساوات کی بنیاد پر درجہ بندی کی ہے۔ ان کی تحقیق کے نتائج کے مطابق صنفی عدم مساوات تمام ممالک اور غریب و امیر گھرانوں میں موجود ہے۔

خواتین کی آمدن

پروفیسر ملگھن کا کہنا ہے کہ ’اس تحقیق کے تازہ ترین ڈیٹا کے مطابق دنیا کے کسی بھی ملک اور معاشرے میں جہاں دونوں میاں بیوی نوکری کرتے ہیں وہاں ایسا نہیں ہے کہ کسی گھرانے میں بیوی، شوہر سے زیادہ کماتی ہو۔ حتی کے نورڈک ممالک میں بھی نہیں، جہاں صنفی برابری سب سے زیادہ ہے۔ ہماری تحقیق کے مطابق خواتین کو ہر جگہ 50 فیصد کم حصہ ملتا ہے'

خواتین کے کم کمانے کی چند وجوہات عالمی سطح پر ایک ہی ہیں، کیونکہ مردوں کو ثقافتی طور پر روٹی کما کر لانے والا سمجھا جاتا ہے، جبکہ خواتین کو گھر سنبھالنے والی سمجھا جاتا ہے۔ بہت سی خواتین بچے کی پیدائش کے بعد نوکری سے وقفہ لے لیتی ہیں یا نوکری چھوڑ دیتی ہیں۔ صنفی تنخواہ کا فرق اور غیر مساوی تنخواہ (ایک ہی کام کے لیے مردوں کے مقابلے میں خواتین کو کم معاوضہ) دنیا کے بہت سے حصوں میں ایک حقیقت ہے۔

اور بنا تنخواہ کے گھر کا کام کاج اور دیکھ بھال آج بھی عورتوں ہی کی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے۔

مزدوروں کی عالمی تنظیم کی سنہ 2018 کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں خواتین بلا معاوضہ دیکھ بھال کے کل گھنٹوں کا 76.2 فیصد انجام دیتی ہیں جو مردوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہیں۔ ایشیا اور بحرالکاہل کے خطے میں یہ تعداد بڑھ کر 80 فیصد ہو جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

خواتین کے گھریلو کام پر وہ معاوضہ جو ’مرنے کے بعد‘ ملتا ہے

خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ شکر گزار کیوں ہوتی ہیں؟

خواتین کو مساوی حقوق دینے والے صرف چھ ممالک

BBCShe#: امیر عورتوں کی بات ہوتی ہے، دیہی کی نہیں!

اس رپورٹ میں کہا گیا کہ بلا معاوضے کے گھر کی دیکھ بھال ان کے لیبر فورس میں کام کرنے اور ترقی کرنے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ ایک خاتون کی کم آمدنی کے اثرات معیشت سے بڑھ کر ہوتے ہیں کیونکہ یہ گھروں میں ان کو صنفی اعتبار سے اثر انداز کرتا ہے اور انھیں ایک کمتر مقام کر لا کھڑا کر دیتا ہے۔

پروفیسر سوامی ناتھن کہتی ہیں کہ ‘ایک بیوی کی گھر کو بنانے سنوارنے کی کوشش اور محنت کسی کو نظر نہیں آتی جبکہ نقد رقم سب کو دکھائی دیتی ہے۔ لہذا اگر کوئی بیوی رقم کما کر لا رہی ہے اور گھر کے خرچے میں اپنا حصہ ڈال رہی ہے تو اسے گھرانے میں ایک خاص مقام دیا جاتا ہے۔ یہ اسے گھریلو معاملات میں عمل دخل اور فیصلہ سازی کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔’

‘اگر اس کی تنخواہ یا آمدن بڑھتی ہیں تو وہ اس گھرانے میں مزید مستحکم اور مضبوط مقام حاصل کر لیتی ہیں اور بعض اوقات اچھی آمدن اسے کسی برے رشتے سے نکل کر اپنی زندگی جینے میں مدد بھی دیتی ہے۔’

Cooking

پروفیسر ملگھن کا کہنا ہے کہ آمدن میں یہ تضاد طویل مدتی معاشی تحفظ کو بھی متاثر کرتا ہے ، کیونکہ خواتین کے پاس بچت اور دولت جمع کرنے اور بڑھاپے میں کم آمدنی تک رسائی ہوتی ہے کیونکہ پنشن پالیسیاں کمائی سے منسلک ہوتی ہیں۔

تاہم اس رپورٹ میں ایک اچھی خبر بھی ہے کہ سنہ 1973 سے لے کر 2016 تک صنفی اعتبار سے آمدن کے اس فرق میں 20 فیصد کمی آئی ہے۔

پروفیسر سوامی ناتھن کہتی ہیں کہ ‘دنیا کے بیشتر حصوں میں معاشی ترقی ہوئی ہے اور لیبر فورس میں خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں خواتین دوست پالیسیوں نے اس خلا کو کم کرنے میں مدد کی ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں ایک جیسے کام کے لیے ایک جیسا معاوضہ دینے کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ یہ سب اقدامات اس فرق کو کم کرنے کا باعث بنے ہیں۔’

ان کا کہنا ہے کہ صنف کی بنیاد پر آمدن میں عدم مساوات میں کمی آنے کے باوجود موجودہ صورتحال میں یہ فرق اب بھی کافی ہے اور اس میں مزید کم ہونا چاہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’حکومتیں اپنی باتوں پر عمل نہیں کر رہی اور کمپنیاں زیادہ خواتین کو ملازمتیں فراہم نہیں کر رہی اور انھیں بلا معاوضہ گھروں کے کام کاج اور دیکھ بھال کرنے پر مجبور رکھا جا رہا ہے۔‘

لہذا ہمیں سوال کرنا ہو گا کہ کیا خواتین کے کاموں کو سراہا اور مانا جا رہا ہے؟ کیا ان کے پاس خاندان، دوست اور بچوں کے حوالے سے پالیسیاں ہیں؟ اور ہمیں ایسے مردوں کی بھی ضرورت ہے جن کی اچھی پرورش ہوئی ہو اور وہ گھر کے کاموں میں خواتین کا ہاتھ بٹائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments