غامدی صاحب سے معذرت کے ساتھ (مکمل کالم)


ایک سوال کافی عرصے سے دماغ میں کلبلا رہا تھا، بالآخر اُس کا غیر تسلی بخش جواب مل گیا۔ سوال یہ تھا کہ کیا اسلام میں متغلب کی حکومت کے خلاف مزاحمت کرنا جائز ہے ؟ متغلب کی حکومت سے مراد ایسی حکومت ہے جو اپنی طاقت کے بل بوتے پر غلبہ حاصل کرلے، اسے عوام کی تائید حاصل نہ ہو اور وہ کسی جمہوری طریقہ کار سے وجودمیں نہ آئی ہو۔ اس سوال کا بالواسطہ جواب میرے پسندیدہ عالم دین جاوید احمد غامدی نے اپنے حالیہ خطبات میں دیا ہے جو انہوں نے یو ٹیوب پر نشر کیے ہیں۔ اِن خطبات میں غامدی صاحب نے ہمیں سمجھایا ہے کہ قران میں مسلمانوں کے لیے ’’ وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ ‘‘کا حکم ہے جو اسلام میں حکومت سازی کے لیےایک زریں اصول ہے، اسی اصول کے تحت خلفائے راشدین کا انتخاب عمل میں لایا گیا، تاہم بعد جب میں اسلامی سلطنت وسیع ہوئی تو اِس اصول پر عمل کرنا ممکن نہ رہا اور یوں ملوکیت نے جنم لیا جو اُس وقت کے لحاظ سے بالکل درست طریقہ کار تھا۔ غامدی صاحب نے اپنے خطبے میں دو ٹوک انداز میں کہا کہ اُس دور میں ملوکیت کے اصول کو اپنانے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں تھا اور یہ بہترین فیصلہ تھا جو اُس وقت کیا گیا تاکہ مسلمانوں کو خانہ جنگی اور خوں ریزی سے بچایا جا سکے، اس فیصلے کے نتیجے میں ہی مسلمانوں کی وہ عظیم سلطنت برقرار رہی جس پر آج ہم فخر کرتے ہیں۔

غامدی صاحب نے اِس موضوع پر بہت طویل گفتگو کی ہے جو نو قسطوں میں یو ٹیوب پر موجود ہے، میں یہاں اُس گفتگو کا خلاصہ بھی پیش نہیں کر سکتا۔ مختصراً غامدی صاحب کا استدلال یہ تھا کہ جب ایک حکومت قائم ہو جاتی ہے، چاہے وہ ملوکیت ہو یا مارشل لا، اسے تسلیم کر لیا جاتا ہے، وہ de factoحکومت ہوتی ہے، ایسی حکومت کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اپنا نظم قائم کرے تاکہ کاروبار مملکت چلایا جا سکے اور لوگوں کے معمولات زندگی میں ہیجان برپا نہ ہو اور معاشرے میں انارکی نہ پھیلے، ایسی حکومت کے لیے نا گزیر ہو جاتا ہے کہ وہ ہر قیمت پر اپنی ’رِٹ ‘ قائم کرے اور اِس مقصد کے لیے اسے بعض اوقات سخت اقدامات بھی کرنے پڑتے ہیں۔

غامدی صاحب جیسے پائے کے عالم دین کے بارے میں بات کرتے ہوئے مجھے احتیاط کرنی چاہیے، میرا اُن سے بے حد احترام کا رشتہ ہے اور میں یہ بات اچھی طرح جانتا ہوں کہ غامدی صاحب سر تا پا ’ڈیمو کریٹ ‘ ہیں اور آج تاریخ کی درست سمت میں کھڑے ہیں۔ وہ جمہوریت کے حامی ہیں اور اختلاف رائے، رواداری، مساوات اور انسانیت کے احترام جیسے جمہوری اصولوں کے داعی ہیں۔ لیکن اپنے اِن خطبات میں انہوں نے جس طرح ملوکیت کی حمایت کی ہےاسے دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ اگر ملوکیت کے نتیجے میں کوئی شخص اقتدار پر قبضہ کر لے اور وہ کسی عالم دین کو اپنا مقدمہ لڑنے کے لیے کہے تو وہ مقدمہ بالکل ویسا ہی ہوگا جیسا غامدی صاحب نے اِن خطبات میں پیش کیا ہے۔

اپنے موقف کی حمایت میں دلیل دیتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ ووٹ اور بیعت میں فرق ہوتا ہے، جب حکومت قائم ہو جاتی ہے تو پھر اُس حکومت کے لیے بیعت کی شکل میں لوگوں سے اطاعت لینا ضرور ی ہوجاتا ہے۔ یہ خلط مبحث ہے۔ اسلامی حکومت تو قائم ہی اُس صورت میں ہوتی ہے جب لوگوں کی اکثریت نامزد خلیفہ کی بیعت کر لے، محض نامزدگی سے تو حکومت قائم ہی نہیں ہوتی۔ اُس دور میں نامزد خلیفہ کے لیے بیعت لینا ایسے ہی تھا جیسے آج کے دور میں نامزد وزیر اعظم کے لیے ایوان نمائندگان سے اعتماد کا ووٹ لینا ضروری ہے، اس کے بعدہی حکمران حلف اٹھاتا ہے، منبر پر چڑھ کر اپنی ذمہ داریوں کا اعلان کرتا ہے اور پھر انتظامی احکامات جاری کرتا ہے، جیسا کہ ہر خلیفہ نے کیا، بیعت سے پہلے تو حکومت کا وجود ہی نہیں ہوتا۔ یہاں ایک بات غامدی صاحب نے یہ بھی فرمائی کی اُس وقت عوام کا اجتماعی شعور اس سطح پر نہیں پہنچا تھا کہ وہ جمہوری انداز میں حکمران کا انتخاب کر سکیں، اس شعور تک پہنچنے کے لیے انسان کو کئی صدیاں لگیں۔ بے حد معذرت کے ساتھ، یہ وہی دلیل ہے جو آج آمریت کے حمایتی جمہوریت کے خلاف دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہاں کے جاہل عوام تو بریانی کی پلیٹ کے پیچھے اپنا ووٹ بیچ دیتے ہیں، یہ جمہوریت کے قابل ہی نہیں۔ پھر غامدی صاحب نے فرمایا کہ چاہے حکومت غیر آئینی ہی کیوں نہ ہو، متغلب کی ہی کیوں نہ ہو یا ملوکیت کے نتیجے میں ہی کیوں نہ قائم ہوئی ہو، ایسی حکومت کو تسلیم کرنا اِس لیے بھی ضروری ہوتا ہے تاکہ امن و امان قائم رکھا جا سکے، خانہ جنگی اور خوں ریزی نہ ہو۔ یہ دلیل تو چودہ سو سال سے روزانہ اپنی موت آپ مر رہی ہے، مسلمانوں کو جس انتثار سے بچانے کی خاطر اِس دلیل کا سہارا لیا گیا اُس انتشار سے آج تک نجات حاصل نہ ہو سکی، غامدی صاحب سے بہتر یہ بات کوئی نہیں جانتا۔

انہوں نے واضح انداز میں تو نہیں کہا کہ متغلب کی حکومت کو جائز مان لینا چاہیے مگر ایسا کوئی طریقہ بھی نہیں بتایا کہ غاصب کے خلاف جدو جہد کب اور کیسے کی جاوے؟ یعنی اگر متغلب کی حکومت کا بیعت لینا بھی منطقی تھا، اس کا رِٹ قائم کرنا بھی ضروری تھا، حکومت کا نظم و نسق چلانے کے لیے مسلمانوں کے سر کاٹنا بھی مجبوری تھی تو پھر ایسا کون سا موقع آنا تھا جب متغلب نے تلوار نیام میں ڈال کر کہنا تھا کہ جناب والا اب آپ کو اجازت ہے میرے خلاف مزاحمت کر سکتے ہیں کیونکہ آج میں اچھے موڈ میں ہوں ! ایسی حکومت تو قریش کی مکہ میں بھی قائم تھی، اسی ظلم کے خلاف تو اسلام آیا تھا۔ اگر غامدی صاحب والا بیانیہ مان لیا جائے تو پھر متغلب کی حکومت تو بلا روک ٹوک تا قیامت چلتی رہنی چاہیے اور ظلم کے خلاف مزاحمت کے اصول کو بھلا کر فقط استعاروں میں آزاد نظمیں لکھنی چاہیئں جس کو ظالم اور مظلوم دونوں اپنے حق میں سمجھیں۔ ایک اور دلیل انہوں نے یہ بھی دی کہ اُس وقت اسلامی مملکت اتنی وسیع ہو چکی تھی کہ اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ کے اصول پر عمل کرنا ممکن ہی نہیں رہا تھا۔ یہ بات بھی درست نہیں۔ حضرت عمر اور حضرت عثمان کے دور میں بھی اسلامی سلطنت بہت وسیع تھی، صرف مدینہ تک محدود نہیں تھی، مگر انہوں نے اِس اصول پر عمل کیا۔ حضرت علی سے وقتِ شہادت جب لوگوں نے پوچھا کہ کیا ہم امام حسن کی بیعت لے لیں تو آپ نے جواب دیا نہ میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں اور نہ اس کا حکم دیتا ہوں۔

اس پورے مقدمے میں اگر غامدی صاحب کا استدلال درست مان لیا جائے تو پھراسلام میں ظالم کے خلاف مزاحمت کی کوئی گنجایش نہیں بچتی، قانون اور اخلاقیات جیسے آدرش بھی اِس میں جگہ نہیں پاتے، اگر کچھ بچتا ہے تو محض طاقتور کی اطاعت کا طریقہ بچتا ہے۔ یہ مذہب کی بالکل ایک میکانکی تعبیر ہے جس میں حالات، واقعات اور تاریخ کو صرف فاسق اور جابر کے نقطہ نظر سے دیکھا جاتا ہے، اِس میکانکی تعبیر میں اخلاقی اور قانونی جوا ز تلاش کرنے کی کھکھیڑ میں نہیں پڑا جاتا۔ صاف ظاہر ہے کہ اسلام کی یہ تعبیر درست نہیں۔ غامدی صاحب ایک بلند پایہ سکالر ہیں اور ہمیشہ دلیل سے بات کرتے ہیں، اُمید ہے کہ وہ اپنے اِس مقدمے کی بھی اسی طرح منطقی پڑتال کریں گے جیسے وہ دیگر دینی موضوعات کی کرتے ہیں، اُن کی اسی خصوصیت کی وجہ ہی سےہم اُن کے گرویدہ ہیں۔

اِس قسم کے معاملات ایک اعتراض اکثر کیا جاتا ہے کہ آپ عالم دین نہیں لہذا دینی معاملات پر آپ کی رائے کو صائب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایسے لوگوں کی تسلی کے لیےمیں دو جید علمائے کرام کی گفتگو پیش کر رہا ہوں، ملاحظہ فرمائیں: ’’ملّا نے سب سے پہلے، ہمارے فقہا نے متغلب کی حکومت کو جائز قرار دیا یعنی اگر کوئی شخص اپنی قوت کے بل پر آ کر حکومت پر قبضہ کر لے تو جائز ہے۔ اور حکمران کے خلاف کوئی بغاوت نہیں کر سکتے جب تک کہ وہ تمہیں کفر کا حکم نہ دے۔ کفر کا کاہے کو حکم دے گا وہ ؟ وہ اپنے عیش منائے گا، اپنے محل بنائے گا، اپنی رنگ رلیاں کرے گا، (اسے ) آپ کو کفر کا حکم دینے کی ضرورت کیا ہے؟ یہ تصور ہے جو اسلام کے اندر، اُس کی رگوں میں بھرا گیا اور اُس نے سُن کر دیا اسلام کو۔ ۔ ۔ !‘‘ یہ ڈاکٹر اسرار احمد کے ایک خطبے کا اقتباس ہے، میں نے اسے بوجوہ کانٹ چھانٹ کر پیش کیا ہے ورنہ انہوں نے اپنے اِس خطبے میں خاصی سخت باتیں کی تھیں جو میں یہاں نہیں لکھ سکتا۔ اسی طرح کی گفتگو مولانا اسحاق مدنی نے بھی ایک موقع پر کی تھی، ذرا اس کی جھلک دیکھیں :’’مسلمان طاغوتوں کے سامنے سر جھکانے کے لیے پیدا نہیں ہوا کہ ظالم تختوں پر بیٹھ جائیں (اور) ہم صرف سر جھکاتے رہیں اور اس پر بھی میں پڑھوں گا کہ جب سے یہ نظریہ ایجاد کیا ہے کہ متغلب جب تخت پر بیٹھ جائے بس نظریہ ضرورت کے تحت اس کو تسلیم کرو، میں اللہ کو حاضر ناظر کرکے کہتا ہوں کہ سارے دین کی بربادی اس لیے ہوئی کہ جس چیز سے یہ ڈرے ہوئے تھے نا کہ اگر مقابلے میں اٹھے تو خوں ریزی ہوگی (بعد میں ) اس سے زیادہ برائیاں (ہوئیں )۔ ۔ ۔ !‘‘ میں نے یہ بیان بھی سنسر کرکے پیش کیا ہے کہ مولانا کے الفاظ من و عن نقل کرنے کی مجھ میں سکت نہیں۔ قارئین یا غامدی صاحب کے پیروکاروں میں سے اگر کسی کو میری کوئی بات بری لگی ہو تو پیشگی معذرت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
9 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments