پیٹرول سے چلنے والی گاڑیوں کے عہد کا خاتمہ


برطانیہ کی سب سے معروف اور مہنگی و پر تعیش گاڑیاں بنانے والے ادارے ”رولز رائس“ نے جس کی زیادہ تر گاڑیاں بارہ سلنڈروں والے ”کھاجا سائیں“ قسم کے انجنوں پر مشتمل ہوتی ہیں، نے مورخہ انتیس ستمبر کے دن اعلان کیا ہے کہ وہ اس دہائی کے اختتام تک معدنی ایندھن سے چلنے والی گاڑیاں بنانا بند کر دیں گے۔ اس کے بعد وہ صرف بیٹریوں سے چلنے والی گاڑیاں تیار اور فروخت کریں گے۔ اسی کے ساتھ ادارے نے اپنی پہلی بیٹری سے چلنے والی رولز رائس گاڑی کا بھی اعلان کر دیا ہے جس کا نام ”دی سپیکٹر“ ہو گا اور یہ تقریباً دو سالوں کے اندر فروخت کے لیے پیش کر دی جائے گی۔

اگر یہ اعلان کچھ عرصہ قبل کیا جاتا تو یہ لوگوں کے لیے بڑی چونکا دینے والی بات ہوتی کہ رولز رائس جیسا ادارہ جس کی پہچان ہی ایک طاقتور پٹرول انجن رکھنے والی گاڑی بنانے والے ادارے کی ہے، وہ اس کی بجائے کسی دوسری چیز سے چلنے والی گاڑی بنانے کا سوچ بھی سکتا ہے۔ لیکن سنہ دو ہزار سترہ ہی سے رولز رائس روایتی انجن کے ساتھ بیک وقت بیٹری سے چلنے والی مخلوط گاڑیاں بنا رہی ہے۔

ایک ہی قسم کی بجلی اور روایتی انجن سے چلنے والی گاڑیاں بنانے کی حکمت عملی رولز رائس کا مالک ادارہ ”بی ایم ڈبلیو“ بھی اپنا چکا ہے۔ بی ایم ڈبلیو کا کہنا ہے کہ وہ بیک وقت مکمل برقی، مخلوط اور روایتی انجن سے چلنے والی گاڑیاں تیار کر کے بازار میں ہر قسم کی گاڑیوں کی طلب بڑھنے کے عمل سے خود کو ہم آہنگ کرنا چاہتے ہیں۔

بہت ساری وجوہات کی بناء پر برقی رو سے چلنے والی گاڑیاں تیار کرنا رولز رائس کے لیے گھاٹے کا سودا نہیں۔ روایتی طور پر رولز رائس کی گاڑیوں میں بارہ سلنڈروں والے انجن نصب ہوتے ہیں جن کے استعمال کی وجۂ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ یہ گاڑی کو کافی طاقت بھی فراہم کرتا ہے اور بہت روانی سے چلتے ہوئے کم شور اور تھرتھراہٹ پیدا کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہر لمحے تین سلنڈروں میں ایندھن جلنے کا دھماکہ ہوتا رہتا ہے جس سے یہ ایک دوسرے سلنڈر سے پیدا ہونے والے شور اور تھرتھراہٹ کو بہت کم کر دیتے ہیں۔ رولز رائس اپنی گاڑیوں میں پیچیدہ ٹرانسمیشن کے ایک نظام کے ذریعے گاڑی کے چلنے کی رفتار کو متوازن اور سبک رفتار بناتا ہے۔

لیکن خاموش، سبک رفتار، اور طاقتور یہ تمام وہ خوبیاں ہیں جو بیڑی سے چلنے والی کسی بھی گاڑی میں موجود ہوتی ہیں۔ بیڑی سے چلنے والی گاڑیوں کی صرف ایک خامی جس کا بہت ذکر کیا جاتا ہے یعنی بڑی اور بھاری بھرکم بیٹریوں کا استعمال، وہ رولز رائس کی گاڑیوں کے لیے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ کیونکہ رولز رائس کی گاڑیاں روایتی طور پر بھاری بھرکم اور بڑی ہوتی ہیں۔ حتٰی کہ رولز رائس کی سب سے ہلکی گاڑی ”دی گھوسٹ“ یا بھوت بھی عام دیگر گاڑیوں کے مقابلے بڑی اور بھاری سمجھی جاتی ہے۔

رولز رائس نے ایک دہائی پہلے ”فینٹم“ کے نام سے ایک مکمل برقی گاڑی تیار کی تھی لیکن اس میں گاہکوں نے زیادہ دلچسپی نہ لی۔ جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ یہ کار ایک دفعہ پوری بجلی بھر جانے پر صرف ایک سو پچیس میل کی مسافت تک ہی چل پاتی تھی جو کہ آج کی برقی گاڑیوں کے مقابلے میں کوئی بہت کم مسافت نہیں ہے لیکن اس وقت بہت کم عوامی جگہوں پر برقی کاروں میں بجلی بھرنے کی سہولت دستیاب ہوتی تھی جس کی وجہ سے امیر اور مغرور گاہکوں نے زیادہ دلچسپی نہ لی۔

رولز رائس کے ارباب اختیار ماضی میں کئی دفعہ کہہ چکے ہیں کہ ان کے امیر گاہک تھوڑے فاصلے کی منزل کے لیے گاڑیوں میں بار بار بجلی بھرنے کے لیے جگہ اور سہولت کی تلاش میں خوار ہونے کے جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتے۔ آج بعض برقی گاڑیاں اس سے تقریباً دوگنی مسافت طے کر سکتی ہیں اور ان گاڑیوں میں دوبارہ بجلی بھرنے کے لیے ایک دہائی پہلے کے مقابلے میں زیادہ جگہوں پر مراکز بھی کھل چکے ہیں۔

دیگر کار ساز اداروں کے مقابلے میں ”بی ایم ڈبلیو“ نے یہ نہیں بتایا ہے کہ کب وہ صرف برقی گاڑیاں بنانا شروع کریں گے۔ ”بینٹلے“ جو کبھی رولز رائس کی ملکیت میں ہوتا تھا اور سنہ 1998 ء سے ”ووکس ویگن گروپ“ کے پاس ہے، اعلان کرچکا ہے کہ وہ بھی اس دہائی کے اختتام تک صرف مکمل برقی گاڑیاں بنانی شروع کر دیں گے۔

”سپیکٹر“ کی عام سڑکوں پر ابتدائی آزمائش اور جانچ پڑتال جلد شروع کر دی جائے گی۔ ابتدائی تصاویر اور دیگر دستیاب معلومات سے پتا چلتا ہے کہ یہ کار رولز رائس کی ایک اور کار ”ریتھ“ کی طرح دو نشستوں والی ہوگی جس کو کچھ ہی عرصہ پہلے ختم کر دیا گیا ہے۔ البتہ رولز رائس کے ترجمان گیری سپہان کا سی این ای بزنس کے پوچھنے پر کہنا ہے کہ سپیکٹر نئے سرے سے بنائی گئی کار ہے جسے ریتھ یا کسی اور کار کی جگہ لینے کے لیے نہیں بنایا گیا ہے۔ البتہ سپیکٹر کے کچھ حصے نئی رولز رائس کاروں، ”سپورٹیئر گھوسٹ“ اور ”کولینن ایس یو وی“ سے ملتے جلتے ہوں گے۔

ان کاروں کے نام اگر آپ کو عجیب و غریب محسوس ہو رہے ہوں تو بتاتے چلیں کہ رولز رائس کی یہ پرانی روایت رہی ہے کہ وہ اپنی کاروں کو روحانی دنیا کے مظاہر مثلاً گھوسٹ، فینٹم، اور ریتھ جیسے نام دیتے آئے ہیں۔ لیکن اس روایت پر سو فیصد عمل نہیں کیا جاتا۔ مثلاً دی کو لینن ”ایک ہیرے کے نام پر رکھا گیا ہے۔

رولز رائس نے فی الحال یہ بھی نہیں بتایا کہ سپیکٹر ایک دفعہ بجلی بھرنے پر کتنا فاصلہ طے کر سکے گی یا کتنی رفتار سے کر سکے گی۔ یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ اس کی قیمت کیا ہو گی لیکن عام طور رولز رائس کی کاریں بڑی مہنگی ہوتی ہیں۔ مثلاً بھوت ”کی قیمت تین لاکھ امریکی ڈالر یا تقریباً پانچ کروڑ پاکستانی روپے ہوتی ہے۔

یہ قیمت پڑھ کر آپ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ اتنا مہنگا بھوت! بھئی اس سے اچھے تو اپنے مقامی بھوت ہوتے ہیں جو بغیر کسی خرچے کے ہی آدمی کی جان سے چمٹ جاتے ہیں۔

ویسے یہ خبر سن کر ہمیں کچھ ویسا ہی احساس ہوا کہ جب ایپل نے سی ڈی کو فوقیت دیتے ہوئے اپنے آئی میک سے فلاپی ڈیسک ڈرائیو کو دیس نکالا دیا اور کچھ ہی عرصے بعد اب فلاپی عجائب گھر میں رکھی جانے والی چیز بن گئی ہے۔ یا سنہ دو ہزار کی دہائی میں زیادہ تر جاپانی اداروں نے کیسٹ اور ٹیپ ریکارڈر بنانا تقریباً ختم کر دیے اور بازار میں زیادہ تر چین کے بنے ہوئے غیر معیاری ٹیپ ریکارڈر اور کیسٹ ملنے لگے۔ پھر اگلی دہائی کے آغاز پر وہ بھی بننا بند ہو گئے۔

اسی طرح دیکھتے ہی دیکھتے آڈیو، ویڈیو، سافٹ وئیر سی ڈی اور ڈی وی ڈیز کا رواج آیا بھی اور ختم بھی ہو گیا۔ لگتا تو یوں ہے ہم میں سے جو خوش نصیب کرونا سے بچ گئے، وہ اپنی زندگی میں ہی پٹرول اور ڈیزل انجن کو عجائب گھروں کی زینت بنتا دیکھ لیں گے اور اپنے پچوں کو بتایا کریں گے کہ ہمارے زمانے میں پٹرول انجن ہر طرف، ہر جگہ استعمال ہوتا نظر آتا تھا۔

ماخذ: سی این این کاروبار (بزنس)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments