کیا بساط پلٹنے اور نظام لپٹنے کو ہے


کہتے ہیں کبھی کبھی نگاہیں کہیں ہوتی ہیں تو نشانہ کہیں اور، ایسا ہی کچھ رحمت للعالمین کانفرنس میں ملک کے فرشتہ صفت، درویش صفت، کم گو، شرمیلے، سرٹیفائیڈ صادق و امین وزیراعظم نے کیا۔ موقع تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت طیبہ پہ کانفرنس کا، تقریر کرنی تھی سرور کونین کی حیات رحمت پہ ان کی سیرت پاک پہ مگر پہلے لتاڑا اپوزیشن کو وہی پرانا راگ الاپا چور ہیں، ڈاکو ہیں روپیہ لوٹ کر باہر لے گئے ہیں مدینہ کی ریاست کیسے ترقی کرے گی، پھر روحانیت سے اپنی فیض یابیوں اور رغبت کا لیکچر دیا پھر، فرمایا کہ پاکستان میں لیڈرشپ کا فقدان ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم بڑے لیڈر ( کوئی شک و شبہ نہیں) تھے انہوں نے حضرت بلال کو غلام ہونے کے باوجود دو جنگوں کی عسکری کمان سونپی، پھر اچانک فرمایا کہ حضرت خالد بن ولید سے بڑا جرنیل روئے زمین پہ کوئی پیدا نہیں ہوا مگر مدینہ کی ریاست کے امیر نے انہیں معزول کر کے کمان کسی اور کو سونپ دی، اور خالد بن ولید نے بغیر چوں چرا کیے کمان دوسرے جرنیل کو سونپ بھی دی۔ یہاں اس نکتے پہ اس ذومعنی مثال پہ خان صاحب کی نگاہیں کہیں اور تھیں اور نشانہ کہیں اور، مگر اس بار بھی اسلامی تاریخ کا حوالہ دیتے وقت خان صاحب اس حوالے کے سیاق و سباق سے میں نہیں گئے۔

پہلے تو رحمت للعالمین کانفرنس میں ایسی مثالوں کی کوئی وجہ کوئی منطق سمجھ سے بالاتر ہے، دوسرے اس مثال کو دینے سے پہلے اس تاریخی واقعے کی اہمیت اور نوعیت کو مدنظر رکھ لیا ہوتا تو آج ان کے اس جملے کے بعد جو قیاس آرائیوں، افواہوں اور بدگمانیوں کی داستانیں زباں زد عام ہو گئی ہیں وہ نہ ہوئی ہوتیں۔

خان صاحب کی پوری تقریر کے دوران ان کے سامنے بیٹھے ان کے معتقدین خاص جنہیں اکثر خان صاحب زندہ لاشیں اور غلاموں سے تشبیہ دیا کرتے تھے بالکل اسی طرح تالیاں پیٹ پیٹ کر خان صاحب کی لیاقت ان کی قابلیت اور ان کے اسلامی تاریخ پہ عبور پر ان کو داد و دہش دے رہے تھے جیسے الطاف حسین کے سامنے بیٹھے ان کے غلام، زندہ لاشیں ان کی مسخرانہ حرکتوں پہ واہ واہ بھائی، واہ واہ بھائی کیا کرتے تھے۔

خان صاحب کو شاید کسی نے بتایا ہو گا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ نے عین جنگ کے دوران حضرت خالد بن ولید سے سپاہ اسلام کی کمان واپس لے کر حضرت ابو عبیدہ بن جراح کو سونپی تھی مگر اس واقعے کی وجہ نہیں بتائی ہوگی کہ حضرت عمر رضی نے ایسا کیوں کیا تھا۔

خالد بن ولید رضی کو سیف اللہ کا لقب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے عطا کیا تھا اس لیے ان کا کسی بھی معرکے میں ناکام ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا، مسلمان حضرت خالد کی فتوحات کی وجہ سے یہ سمجھنے لگے تھے کہ یہ سب خالد رضی کی وجہ سے ہے اس طرح ان کا اللہ تعالیٰ پر سے توکل اٹھتا جا رہا تھا اور مسلمانوں کو یہ یقین دلانا ضروری تھا کہ فتح صرف اللہ واحدہ لاشریک کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے اسی لیے حضرت عمر رضی نے جرنیل کو تبدیل کیا، باقی خالد بن ولید کی قدر و منزلت اور عزت ان کے دل میں بالکل اسی طرح سے تھی جس طرح آپ ﷺ کے دل میں تھی۔ اب خان صاحب نے ایک ایسے موقع پہ جب اس مثال کا حوالہ دینے کی کوئی وجہ ہی نہیں بنتی تھی کیوں دی؟ شاید وہ کسی کو یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ ریاست پاکستان کا چیف ایگزیکٹو میں ہوں اور چیف ایگزیکٹو جب چاہے جسے چاہے تبدیل بھی کر سکتا ہے اور اس فیصلے پہ عملدرآمد بھی کرا سکتا ہے۔

یہ سارے معاملات اس توہم پرستانہ سوچ کا مظہر ہیں جس کے تحت یہ حکومت پہلے دن سے اپنا کار سرکار چلا رہی ہے، یہ اختیار کی جنگ کا معاملہ ہے جو ڈی جی آئی ایس آئی کی مقرری اور ان کے نوٹیفکیشن پہ شروع ہوئی۔ سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو کورکمانڈر پشاور بنا کر لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کو ڈی جی آئی ایس آئی مقرر کرنے کا نوٹیفکیشن آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ہوا لیکن وزیراعظم آفس سے ان کی تعیناتی کو نوٹیفائی نہیں کی گیا۔

باخبر یاروں کا کہنا ہے کہ ایک پیج پہ کھڑے دو لوگوں کے بیچ ملاقات میں ایک بااثر نے دوسرے پہ واضح کر دیا ہے کہ ایک ہی پیج پہ کھڑے ادارے کی طرف سے جو نوٹیفکیشن جاری کیا جا چکا اس میں اب زیر زبر کے فرق کی بھی گنجائش نہیں ہے، اگر بااختیار اس کے علاوہ اپنے حیثیت کے زعم میں کوئی تبدیلی چاہتا ہے تو انہیں کوئی اعتراض تو نہیں مگر ادارے کی طرف سے جنرل ندیم انجم کی نامزدگی ہی حتمی ہو گی۔

اس بڑی ملاقات کی تصدیق سرکاری نقارچی بھی کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنی اہمیت اور اختیارات کی حدود بھی بتا رہے ہیں اور یہ بھی کہ تین سے پانچ نام وزیراعظم کو بھیجے جائیں گے اور پھر کسی ایک کا فیصلہ اپنے اختیارات کے تحت وہ ہی کریں گے۔ اب دیکھنا ہے کہ اس اختیار کے استعمال میں کتنی دیر لگتی ہے، کیونکہ کورکمانڈر پشاور اپنے عہدے کا چارج اپنی مقررہ مدت میں سنبھلنے کے لیے تیار ہیں تو دوسری جانب ڈی جی آئی ایس آئی بھی اپنا ’اختیار‘ سنبھالنے کے لیے تیاریاں مکمل کر چکے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان جو اس زعم میں مبتلا ہیں کہ وہ منتخب وزیراعظم ہیں اور ان کے علاوہ کوئی چوائس نہیں ہے، حالانکہ یہی زعم ان سے پہلے والوں کو بھی تھا مگر اس نئی واحد چوائس کے زعم میں تعویز گنڈے کا بھی تڑکا لگا ہوا جس کی وجہ سے یہ زعم اب تکبر و رعونت میں بدل چکا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ جب معاملات تکبر کی نہج پہ پہنچ جائیں تو پھر کوئی تعویز گنڈا کام نہیں آتا۔

یہاں ریاست مدینہ کے حوالے دینے والا حضرت عمر فاروق اور خالد بن ولید کی مثال دیتے یہ بھول گیا کہ حضرت عمر نے حضرت خالد بن ولید کو عین معرکۂ دمشق کے موقع پہ ہی کیوں اسلامی سپاہ کی کمان سے ہٹا کر ایک ابو عبیدہ بن جراح کو کمان سونپی، صرف اور صرف لوگوں کے ایمان کو اللہ کی ذات اور توکل پہ پختہ رکھنے اور اسی معبود برحق کے مختار قل پہ ایمان رکھنے اور اس یقین کو قائم رکھنے کے لیے کہ فتح و شکست، عزت و ذلت، زندگی و موت، اقتدار و بے دخلی کا اختیار صرف اور صرف اللہ رب العالمین کی ذات متکبر کی مرہون منت ہے۔ ایک پیج پہ کھڑے دو طاقتوروں کے بیچ اختیار کی یہ کھینچا تانی کیا بساط الٹنے کا سبب بنتی ہے یا پھر سارے نظام کو ہی تلپٹ کر دینے کا سبب بنتی ہے یہ آنے والے بالکل تھوڑے ہے عرصے میں واضح ہونا ہے۔ مگر یہ تو طے ہے کہ اب جادو ٹونے اور تعویذ گنڈے کے ذریعے مزید حکومت چلانا ممکن نہیں رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments