خاموش


آج کسی کی لکھی ہوئی خوبصورت بات پڑھی ”جب تمھارا بات کرنے کو دل نہ چاہے تم مجھے فون کرلینا ہم دونوں خاموش رہیں گے“

خاموش رہنا عبادت بھی ہے اور ظلم بھی۔ اگر آپ کسی کی دل آزاری کرنے کی بجائے خاموش رہیں تو یہ عبادت بن جاتی ہے اور اگر ظلم دیکھ کر خاموش رہیں تو یہ ظلم بن جاتی ہے۔ ساری زندگی بولتے گزارا دی۔ کئی لوگوں کی دل آزاری کی اور اس کو شغل سمجھتا رہا۔ ان سب سے دلی طور پر معذرت خواہ ہوں درخواست ہے معاف کر دیا جائے۔ دوسری طرف ہر ظلم کے خلاف آواز بلند کی اس کی بہت سی سزائیں بھی بھگتیں اور دشمنیاں بھی پالیں۔ زندگی گزرتی رہی اور میں جو دل و دماغ میں درست دکھائی دیا کرتا رہا اور شاید کرتا رہوں گا۔

مجھے چپ کرانے کے لئے کئی فارمولے آزمائے گئے اور آزمائے جا رہے ہیں۔ ماسوائے خاموشی سے مسکرانے کے میرا کوئی اور تاثر نہیں ہوتا، میں ہر وقت حالت دعا میں رہتا ہوں اور بددعا شاید مجھے دینی ہی نہیں آتی۔ پہلے تعلق جلدی قائم کر لیتا تھا، اب خاموش رہتا ہوں۔ نوکری شاید مجھے کرنی نہیں آتی کیونکہ اب نوکری جھوٹ اور خوشامد کا نام ہے۔ اور ایسے لوگ صاحب اقتدار آ گئے ہیں جن کے اردگرد خوشامدی ٹولے پائے جاتے ہیں اور وہ ان کے بغیر چل بھی نہیں سکتے۔ نیشنل کالج آف آرٹس لاہور میں مجھے پروفیسر محمد آصف مرحوم نے کہا تھا زندگی گزارنے کے دو طریقے ہیں۔ یا تو اپنے حصے کا ایک دس لوگوں پر مشتمل گروہ بنا لو ان کو لیڈ کرو۔ اگر استطاعت نہیں ہے تو کسی کے گروپ میں شامل ہو جاؤ۔

ھم نے زندگی گزار دی اپنا گروپ بنانے میں۔ پر کسی گروپ میں شامل نہیں ہوئے۔ ہماری ایک اور استاد کہتیں تھیں کہ ڈسکس ہونا ہی کامیابی ہے یہ چھوڑ دیں وہ منفی پہلو میں ہو یا مثبت پہلو میں۔ کچھ احباب کی میں نیگیٹو لسٹ میں ہوں۔ پر ہر میٹنگ میں یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ میری نیگیٹو لسٹ میں ہے۔ مجھے اچھا لگتا ہے کہ میں لوگوں کو پسند تو شاید نہیں ہوں پر یاد ہر لمحہ رہتا ہوں۔ ساری زندگی اپنے ساتھ کام کرنے والی ٹیم کو اولاد کی طرح سمجھا ان کے ہر دکھ، درد، خوشی میں شریک ہوا پر اللہ نے ہمیں ہمیشہ ایسا افسر دیا جس نے ہماری کبھی خبر ہی نہ لی۔

پتہ نہیں یہ کون سی مینجمنٹ کی ٹریننگ ہے۔ جو انسان کو انسان نہیں سمجھتی۔ الحمدللہ چند دوست اور عزیز ایسے ہیں جو ہر وقت میرے لئے دعاگو ہیں اور رابطے میں ہیں ان کو دیکھ کر ہی اپنی قسمت پر نازاں ہوں۔ جب قرآن کھولتا ہوں تو لکھا دیکھتا ہوں کہہ دو بے شک میرے لئے اللہ ہی کافی ہے۔ یہ ہی میرا یقین کامل ہے کیونکہ قرآن کی ہر بات سچی ہے۔

جتنا میں نے بولنا تھا شاید بول چکا ہوں اب خاموش ہو گیا ہوں۔ کوئی پوچھے بھی کہ طبعیت کیسی ہے خاموشی سے دیکھتا رہتا ہوں۔ محفلوں میں جانے کو دل نہیں کرتا۔ سفر سے اجتناب کرتا ہوں۔ شاید میرے حصے میں ہنسنے کا کوٹہ جو آیا تھا ختم ہو گیا ہے۔ تقریباً دو سال ہونے کو آئے ہیں طبعیت ٹھیک نہیں رہتی۔ پر رب کا شکر گزار ہوں جب سے پتہ چلا ہے کہ بیمار کی دعا قبول ہوتی ہے۔ ہر وقت دعا کرتا رہتا ہوں سب کے بھلے کی بس خاموشی سے۔

کیونکہ میرا رب تو خاموشیوں کو بھی سنتا ہے۔ یقیناً میرا رب ہی میری خاموشیوں کو جانتا ہے جو کبھی نہیں پوچھتا خاموش کیوں ہو۔ باقی زمانے کے پاس اس کے علاوہ سوال کوئی نہیں ہے۔ فجر کی اذان ہو گئی ہے میرا رب بلا رہا ہے آؤ خاموشی سے اس کی عبادت کریں اور سجدے بھی۔ یقیناً پھر آپ کو کسی اور کے آگے جھکنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی۔ انشاءاللہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments