کابل سے اپنے خاندان کو نکلنے کے لیے ’میں نے طالبان سے جھوٹ بولا‘


طالبان
طالبان جنگجوؤں نے اس سال اگست میں کابل پر قبضہ کر لیا تھا
ایک برطانوی شہری نے بتایا ہے کہ اپنے خاندان کو بچانے کے لیے وہ کس طرح طالبان جنگجوؤں سے جھوٹ بول کر افغانستان میں داخل ہوئے۔

منصور نامی برطانوی شہری نے اس موقع پر دیکھا کہ کابل ایئرپورٹ پر برطانوی پاسپورٹوں کو پھاڑ کر پھینکا جا رہا تھا۔

منصور 10 برس قبل برطانیہ منتقل ہو گئے تھے اور ان کے پاس برطانوی پاسپورٹ ہے۔ لیکن ان کی اہلیہ اور دو سال کی بیٹی کابل میں رہ رہے تھے۔ اگست میں یہ تینوں افراد افغانستان سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے اور اب برطانیہ میں رہ رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

صدر بائیڈن کو ریسکیو کرنے والا افغان مترجم افغانستان سے نکلنے میں کامیاب

جب احتجاج کرنے والی افغان خواتین کا طالبان کی بدری فورس نے راستہ روکا

افغان خواتین والی بال کھلاڑی: ’جان کو خطرہ ہے، ایک قتل بھی ہو چکی ہیں‘

کابل سے دلی جانے والی پرواز کے ساتھ افغانستان میں کیا ہوا؟

منصور ہوائی جہاز کے ذریعے پہلے ازبکستان کے شہر تاشقند پہنچے اور اس کے بعد وہاں سے 750 میل کا زمینی سفر طے کر کے کابل پہنچے۔ اس دوران افغانستان پر طالبان کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہو رہی تھی۔

منصور خان نے بتایا کہ جب وہ افغانستان کی سرحد پر پہنچے تو وہاں موجود طالبان جنگجوؤں نے ان سے سخت پوچھ گچھ کی کہ وہ افغاسنتان واپس کیوں آ رہے ہیں۔

‘میں نے ان سے کہا کہ میں اس لیے واپس آیا ہوں کیونکہ طالبان واپس آ گئے ہیں۔ میں نے ان سے جھوٹ بولا۔’

منصور خان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنے خاندان کے پاس واپس جا کر انھیں وہاں سے نکالنے کا فیصلہ اس لیے کیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ طالبان کے اقتدار میں ان کی بیٹی کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔

‘میں اپنی بیٹی کو وہاں مصیبت میں نہیں دیکھ سکتا تھا۔ وہاں انسانی حقوق نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔’

کابل ایئرپورٹ پر برطانیہ جانے والی فلائٹ میں بیٹھنے سے پہلے اس خاندان کے پاس اپنا ضروری سامان سمیٹنے کے لیے چند منٹ ہی تھے۔

انھوں نے اپنے خاندان کے ساتھ افغانستان سے نکلنے کی کوشش کے دوران ایئرپورٹ کے کئی چکر لگائے۔ ‘وہاں پر طالبان لوگوں کو پیٹ رہے تھے اور ہوائی فائرنگ کر رہے تھے۔’

منصور خان نے بتایا کہ کچھ لوگوں نے جب اپنے برطانوی پاسپورٹ دکھائے تو طالبان نے وہ پاسپورٹ ان سے لے کر پھاڑ دیے۔ ‘اس وجہ سے میں ڈر گیا اور وہاں سے گھر چلا گیا۔’

منصور خان نے بتایا کہ برطانوی اہلکاروں نے انھیں ایئرپورٹ پہچنے کے لیے ایک گھنٹے کی مہلت دی۔ انھوں نے بتایا کہ جب وہ لوگ ایئرپورٹ پہنچے تو وہاں ہر طرف دھواں اور آنسو گیس تھی۔

‘لیکن جب انھوں نے میرا پاسپورٹ اور میری اہلیہ اور بچی کو دیکھا تو مجھ سے کہا کہ چار گھنٹے کے بعد ایک فلائٹ ہے۔ جیسے ہی میں نے برطانوی فورسز کو دیکھا تو میں خوش ہو گیا۔’

منصور خان کی برطانیہ کے مختلف شہروں میں مٹھائی کی دکانیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments