فیس بک، انسٹاگرام اور وٹس ایپ جیسی سروسز میں خرابیاں، انسانی غلطی یا ٹیکنالوجی کے مسائل؟


مارک زکربرگ
مجھے اس بارے میں شک ہے کہ مارک زکربرگ وہ تبصرے پڑھتے ہوں گے جو لوگ ان کی پوسٹس پر کرتے ہیں تاہم اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو ان کو گذشتہ ہفتے فیس بک اور دیگر سروسز میں تعطل کے بعد اپنے معذرتی پیغام کے نیچے آئے تبصروں کو پڑھنے کے لیے بغیر سوئے تقریباً 145 دن درکار ہوں گے۔

فیس بک کے بانی اور چیف ایگزیکٹو نے فیس بک، واٹس ایپ، انسٹا گرام کی چھ گھنٹے تک کی بندش کے بعد لکھا: ’آج کے خلل کے لیے معذرت۔۔۔‘

فیس بک نے معمول کے دیکھ بھال کے کام کو اس خلل کا ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ فیس بک کے انجینئیرز نے ایک کمانڈ جاری کی جس کی وجہ غیر ارادی طور پر فیس بک ڈیٹا سینٹرز کا انٹرنیٹ سے رابطہ منقطع ہوگیا۔

زکربرگ کی اس معافی پر تقریباً 82 لاکھ 27 ہزار افراد نے انھیں جواب دیا۔

ان پیغامات میں کچھ ایسے کمینٹس تھے: ’یہ بہت برا تھا، مجھے اپنے گھر والوں سے بات کرنا تھی، میں سمجھا کہ میرا فون خراب ہو گیا ہے اور میں اسے مرمت کے لیے لے گیا۔‘

کچھ لوگوں نے غصے اور ناراضگی کا اظہار بھی کیا: ’آپ ہر چیز کو ایک ہی وقت میں بند نہیں کر سکتے‘۔

جبکہ کچھ صارفین نے اس بندش کی وجہ سے اپنے کاروبار کو پہنچنے والے نقصان پر زکربرگ سے معاوضے کا مطالبہ بھی کیا۔

اس سے ایک بات جو واضح ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ اربوں لوگ ان سروسز پر کتنا انحصار کرتے ہیں اور ایسا صرف تفریح ​​کے لیے نہیں بلکہ ضروری مواصلات اور تجارت کے لیے بھی ہے۔

ایپس

ایک اور بات جو واضح ہوئی، وہ یہ کہ یہ کوئی ایک بار ہونے والا واقعہ نہیں کیونکہ ماہرین کا خیال ہے کہ وسیع پیمانے پر ایسی بندشیں اب زیادہ کثرت سے ہونے لگی ہیں۔

ویب سائٹ ’ڈاؤن ڈیٹیکٹر‘ کے چیف ٹیکنیکل آفیسر لیوک ڈیریکس کہتے ہیں کہ ’گذشتہ کئی برسوں میں جو چیز ہم نے دیکھی ہے وہ یہ کہ انٹرنیٹ مواد کے بڑے حصے کی فراہمی کے لیے تھوڑی تعداد میں نیٹ ورکس اور کمپنیوں پر بہت زیادہ انحصار کیا جا رہا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’جب ان میں سے ایک یا ایک سے زیادہ سروسز کو کوئی مسئلہ درپیش آتا ہے تو یہ نہ صرف ان کو متاثر کرتا ہے بلکہ سینکڑوں دیگر سروسز کو بھی متاثر کرتا ہے۔‘

مثال کے طور پر فیس بک اب کئی مختلف سروسز اور ڈیوائسز جیسے سمارٹ ٹی وی میں سائن ان کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔

لیوک ڈیریکس کہتے ہیں کہ ’اور اسی طرح آپ جانتے ہیں کہ ایسے دن ہوتے ہیں کہ ایک چیز بند ہوتی ہے تو ہم سب ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں کہ ’تو اچھا اب ہم کیا کریں گے۔‘

لیوک ڈیریکس اور ’ڈاؤن ڈیٹیکٹر‘ میں ان کی ٹیم ویب سروسز اور ویب سائٹس پر مختلف مسائل کی نگرانی کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اہم سروسز میں بڑے پیمانے پر خلل آنا اب زیادہ متواتر اور سنگین ہوتا جا رہا ہے۔

’جب فیس بک کو کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو اس کا اثر نہ صرف انٹرنیٹ پر بلکہ معیشت بھی متاثر ہوتی ہے اور جیسے کے آپ جانتے ہیں۔۔۔ معاشرہ بھی۔ لاکھوں لوگ کیلیفورنیا میں ایک چھوٹی سی ٹیم کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں کہ وہ کچھ ٹھیک کر دے۔ یہ ایک دلچسپ پہلو ہے جو گذشتہ دو برسوں میں بڑھا ہے۔‘


انٹرنیٹ پر بڑی سروسز کب کب بند ہوئیں

  • اکتوبر 2021: فیس بک، انسٹاگرام اور واٹس ایپ سروسز چھ گھنٹے کے لیے تعطل کا شکار رہیں۔ نئے صارفین کی آمد اور رش کی وجہ سے دوسری ایپس جیسے ٹوئٹر کو بھی خلل کا سامنا کرنا پڑا۔
  • جولائی 2021: ائیر بی این بی، ایکسپیڈیا، ہوم ڈپو سمیت 48 سے زائد سروسز تقریباً ایک گھنٹے تک تعطل کا شکار رہیں، جس کی وجہ ڈی این ایس کے ساتھ مسئلہ بتایا گیا۔
  • جون 2021: ایمازون، ریڈ اٹ، ٹوئچ، سپاٹیفائی کی ویب سائٹس تقریباً ایک گھنٹے کے لیے بند رہیں۔
  • دسمبر 2020: جی میل، یوٹیوب، گوگل ڈرائیو اور دیگر گوگل سروسز تقریباً 90 منٹ کے لیے بیک وقت تعطل کا شکار ہوئیں۔ کمپنی کے مطابق یہ خلل ’اندرونی سٹوریج کوٹہ کے مسئلے‘ کی وجہ سے ہوا۔‘
  • نومبر 2020: امریکہ کی ریاست ورجینیا میں ایمیازون ویب سروس کی سہولت میں تکنیکی دشواری کی وجہ سے ہزاروں تھرڈ پارٹی آن لائن سروسز کئی گھنٹوں تک خلل کا شکار رہیں۔
  • مارچ 2019: فیس بک، انسٹاگرام اور واٹس ایپ سب تقریباً 14 گھنٹے کے لیے تعطل کا شکار ہوئیں۔ کچھ دوسری ایپس جیسے ٹنڈر اور سپاٹیفائی، جن میں فیس بک کے ذریعے لاگ ان کیا جاتا ہے، وہ بھی متاثر ہوئیں۔

کسی بھی مرحلے پر ان سروسز کی بڑی بندش کے دوران لوگ لازمی طور پر پریشان ہوتے ہیں کہ یہ خلل کسی سائبر حملے کا نتیجہ ہے۔

لیکن ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ یہ اکثر انسانی غلطی کا معاملہ ہوتا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کو پرانے اور پیچیدہ نظام پر چلایا جا رہا ہے۔

فیس بک کی بندش کے دوران ٹوئٹر پر کئی ماہرین یہ مذاق کرتے نظر آئے کہ اس طرح کی خرابی کی وجوہات ہمیشہ ایک جیسی اور وہ نظام ہے جو کہ بہت پرانا ہے اور ’ٹشو پیپر پر ڈیزاین کیا گیا تھا۔‘

انٹرنیٹ سائنسدان پروفیسر بل بوکینن اس سے اتفاق کرتے ہیں ’انٹرنیٹ بڑے پیمانے پر تقسیم شدہ نیٹ ورک نہیں ہے جسے DARPA (ڈیفنس ایڈوانسڈ ریسرچ پروجیکٹ ایجنسی) انٹرنیٹ کے اصل معماروں نے بنانے کی کوشش کی تھی اور جو ایٹمی حملے کو بھی برداشت کر سکتا ہے۔‘

’یہ جو پروٹوکول استعمال کرتا ہے وہ بنیادی طور پر صرف وہی ہے جو عام ٹرمینلز کا مین فریم کمپیوٹرز سے رابطہ قائم کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس کے بنیادی انفراسٹرکچر میں ایک خرابی پورے نظام کو روک سکتی ہے۔‘

پروفیسر بوکینن کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کو مزید لچکدار بنانے کے لیے بہتری لائی جا سکتی ہے، لیکن نیٹ کے بہت سے بنیادی اصول یہاں بہتر یا بدتر ہی رہیں گے۔

’عمومی طور پر، سسٹم کام کرتے ہیں اور آپ انٹرنیٹ کے کچھ پروٹوکولز کو دوبارہ بنانے کی کوشش میں ایک دن کے لیے ‘آف’ نہیں کر سکتے۔‘

انٹرنیٹ

انٹرنیٹ کے نظاموں اور ڈھانچے کو دوبارہ تعمیر کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے، پروفیسر بوکانن کا خیال ہے کہ ہمیں ڈیٹا کو ذخیرہ کرنے اور اسے شیئر کرنے کے طریقے کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، بصورت دیگر مستقبل میں بڑے پیمانے پر بندش کے خطرے کے لیے تیار رہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ انٹرنیٹ ایک مرکز بن گیا ہے جہاں ایک ہی ذریعے سے بہت زیادہ ڈیٹا آتا ہے۔ انھوں نے وضاحت کی کہ اس رجحان کو ایسے نظاموں کے ساتھ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جس میں متعدد ایسے پوئنٹ ہوں تاکہ کوئی بھی ناکامی اس سروس کو چلنے سے روک نہ سکے۔

یہاں ایک امید بھی ہے۔ اگرچہ انٹرنیٹ کی بڑی بندش صارفین کی زندگیوں اور کاروباری اداروں کو متاثر کرتی ہے لیکن اس سے بالآخر انٹرنیٹ کی ابھرنے کی قوت اور ویب سروسرز کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔

مثال کے طور پر، فوربز کا اندازہ ہے کہ چھ گھنٹے کی بندش کے دوران فیس بک کو سائٹ پر اشتہاروں کی معطلی کے باعث چھ کروڑ 60 لاکھ ڈالر کا نقصان ہوا۔ اس قسم کے نقصان کے بعد ممکن ہے کہ اب سینئر ایگزیکٹوز ایسا دوبارہ ہونے سے روکنے پر توجہ دیں۔

ڈیریکس کے مطابق ’انھوں نے اس دن بہت زیادہ رقم گنواں دی، نہ صرف ان کے سٹاک کی قیمت میں بلکہ ان کی آپریشنل آمدنی کی مد میں بھی۔ اور اگر آپ فاسٹلی اور کلاؤڈ فلیئر جیسے مواد کی ترسیل کے نیٹ ورکس کو دیکھیں تو انھوں نے بہت بڑی تعداد میں گاہکوں کو بھی کھو دیا۔ لہذا، مجھے لگتا ہے کہ یہ آپریٹرز چیزوں کو آن لائن رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32290 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments