خواجہ سراؤں کے ساتھ ہمارے معاشرے کا رویہ


جیسے کہا جاتا ہے وجود زن سے ہے کائنات میں رنگ، ویسے کرہ ارض کی رونق انسانوں سے ہے۔ ابد سے لے کر ازل تک تمام انسان اس سیارے کی سب سے ممتاز مخلوق رہی ہے۔ خالق کائنات نے تمام مخلوقات میں سے انسان کو اعلی و عرفہ بنایا اسی لئے اسے اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے۔ عام طور پر انسانی جنس کی تقسیم دو طرح سے کی جاتی ہے مرد اور عورت۔ لیکن یہاں ایک جنس ایسی بھی ہے جو کہ مرد اور عورت سے مشابہ ہے تیسری جنس یعنی خواجہ سراء۔ خواجہ سراء مکمل طور پہ نہ تو مرد ہوتے ہیں اور نہ ہی عورت۔ یہ خالق کائنات رب ذوالجلال کی شاہکار تخلیق ہیں، سائنسی لحاظ سے دیکھا جائے تو جب کسی انسان کے ہارمونز اس کی جسمانی ساخت سے مختلف ہوتے ہیں تو ٹرانس جینڈرز بنتے ہیں۔

کچھ لوگ پیدائشی نارمل مرد اور عورت ہوتے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ان کے ہارمونز جسمانی ساخت کے متضاد زیادہ ایکٹو ہو کے حاوی ہو جاتے ہیں، ویسے تو خواجہ سراء کی پیدائش کسی بھی عام گھرانے اور خاندان میں ہو سکتی ہے۔ ان کی پیدائش بھی باقی انسان یعنی لڑکا یا لڑکی کی طرح اک عام مرد اور عورت کے ملاپ سے ہوتی ہے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ وہی انسان جس کی ملاپ سے یہ خواجہ سراء پیدا ہوا ہے۔ اسے اپنی بدنامی، رسوائی اور حالات کی مجبوری کا نام دے کر بے گھر کر دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ ان کی جائز اولاد ہی ہوتی ہے۔

اب یہی خواجہ سراء بچے جب بڑے ہوتے ہیں تو معاشرہ انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ ظلم تو یہ ہے کہ سب سے پہلے ان کے والدین ہی ان کو اپنا نے سے انکار کر دیتے ہیں۔ اور باقی اولاد کی طرح قبول ہی نہیں کرتے۔ بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا مہذب کہلائے جانے والے طبقے نے بھی کبھی انہیں سہارا نہیں دیا۔ ان کو برابری کے حقوق نہیں دیے۔ آپ کو نظر نہیں آئے گا کہ کسی ڈسٹرکٹ بار کونسل میں خواجہ سراء کی نمائندگی ہو۔ کسی ٹریڈ یونین میں، سیاسی میدان میں یا کھیل وغیرہ، یہاں تک کہ مذہبی طبقے نے بھی اسے الگ تھلگ سمجھا۔ اسے کبھی اپنے برابر نہیں بٹھایا۔ بلکہ ہمارا تو اپنا یہ حال ہے، کہ پریس کلب میں بھی کسی خواجہ سراء کی نمائندگی موجود نہیں۔

جب کہ اسلام میں ان کے حقوق بیان کیے گئے ہیں،

کہ جن لوگوں میں عورتوں کی مماثلت ہو انھیں عورتوں والے حقوق دیے جائیں۔ اور جن لوگوں میں مردوں کی مماثلت زیادہ ہو انھیں مردوں والے حقوق دیے جائیں۔

جبکہ ہماری سوسائٹی ان احکامات سے نظریں چراتی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے، کہ خواجہ سراء اپنی پیٹ پوجا کیسے کریں؟

جب پورے معاشرے نے کہیں بھی جگہ نہیں دی، تو ظاہر ہے انھیں کچھ تو ایسا کرنا پڑا، جس سے ان کو دو وقت کی تین نوالے روکھی سوکھی روٹی مل جائے۔ لیکن جب خواجہ سراء نے خود ہاتھ پاؤں مارنے شروع کیے، تو یہاں بھی اعتراض، یہاں بھی طنزومزاح، یہاں بھی تذلیل و تحقیر کا سامنا کرنا پڑا۔ اب ایسے معاشرے میں خواجہ سراء جائے تو کہاں جائے، کرے تو کیا کرے؟

1973 کے آئین نے خواجہ سراؤں کو پاکستان کا شہری قرار دیا۔ اور ان میں مرد اور عورت کے جنس کا تعین بھی کیا۔ اسی طرح 2018 میں Protection Orderکے نام سے ان کے لئے مزید سہولیات کا اعلان بھی کیا۔ کہ خواجہ سراء کو وراثت، تعلیم، صحت اور نوکریاں کی سہولیات دی جائے گی۔ مزید یہ کہ قانونی طور پر برابری کے حقوق دیے جائیں گے، اور ہراسانی سے بچنے کے لئے بھی قرارداد پاس ہوئی۔

خواجہ سراء کے لئے تھانہ اور جیل میں علیحدہ لاک اپ ہو گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے، کہ کیا پاکستان میں خواجہ سراؤں کو یہ حقوق حاصل ہیں؟ اگر نہیں، تو ان کو کب، اور کیسے ملیں گے یہ حقوق! کون دلائے گا ان کو یہ حقوق؟

وہ والدین جنہوں نے بچپن میں گھر سے نکال دیا۔ یا وہ معاشرہ جو صرف حقارت کی نظر سے انہیں دیکھتا ہے۔ یا وہ عدلیہ اور پریس، جس کے اپنے یونین میں ان کی کوئی جگہ نہیں۔

میرے خیال سے ان سب حقوق کے حصول کے لئے سب سے پہلے ان کو خود میدان میں آنا ہو گا۔ خواجہ سراء خود دنیا کو بتائیں کہ وہ بھی انہی کی طرح انسان ہے۔ انہیں بھی تعلیم، صحت، انصاف، نوکری اور زندگی گزارنے کے باقی آسائشوں کی ضرورت ہے۔ اور یہ سب کچھ کرنے کے لئے کوئی تو ان خواجہ سراؤں مین بھی ہو گا، جو سب خواجہ سراؤں کو یہ اگاہی دے۔ ایک وقت ایسا آئے گا، جب دنیا ان کی دیکھا دیکھی ان کے ساتھ ان کے حقوق کے لئے میدان مین آئے گی۔

قارئین! خواجہ سراء بھی باقی انسانوں کی طرح انسان ہی ہے۔ ان کو بھی جینے کا پورا حق ہے۔ ہمیں خواجہ سراؤں کے حقوق کے لئے کام کرنا ہو گا۔ اور یہ ہمارے لیے بھی سود مند ثابت ہو گا۔ ( نہیں تو معاشرے کی تباہی سب کے لئے ذمہ دار ہوں گے )

میرے صحافتی زندگی کا پہلا کالم تھا ”اسلام اک مکمل ضابطہ حیات، مگر کیسے“ جی ہاں اسلام میں ہر دور، ہر مذہب، ہر نسل اور ہر قسم کے حالات کے لئے مناسب ترین ضابطہ موجود ہے۔ بے شک اسلام میں خواجہ سراؤں کے لئے ادب اور احترام کا درس ہے۔ اس کے لئے ہمارا مذہبی طبقہ اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

حکومت خواجہ سراؤں کے لئے اک جامع پالیسی بنائے۔ ان کو حکومتی اداروں میں نوکریاں دے۔ کیونکہ ناچ گانا ان کی کوئی مذہبی عبادت نہیں، اور نہ ہی کسی بڑے شوق سے کرتے ہیں۔ یہ تو حالات کے مارے مجبور ہیں۔

خواجہ سراؤں کو فنی تعلیم کے ذریعے معاشرے میں آگے لایا جاسکتا ہے۔ ان کو ٹیکنیکل ایجوکیشن، پینٹنگ، فیشن آرٹ، ڈیزائننگ، ماڈلنگ اور گلوکاری وغیرہ میں آگے لایا جاسکتا ہے۔

بلکہ 2018 کے Protection Orderکے تحت یہ اپنا کاروبار بھی کر سکتے ہیں، گاڑی چلا سکتے ہیں، اسی طرح باقی لین دین کر سکتے ہیں۔ بس کچھ اگاہی کی ضرورت ہے۔ اس پورے طبقے کو معاشرے میں اک اچھا مقام مل سکتا ہے۔

اور یہ سب کچھ کرنے کے بعد معاشرے میں بہت سی مثبت تبدیلی آ سکتی ہے۔ آخر میں اتنا ہی کہ خواجہ سراء خود بھی اپنے لیے آواز اٹھائیں، اتفاق رائے پیدا کرے، اپنی تنظیم بنائے اور سیاسی روابط قائم کریں۔ کیونکہ ان سب کے ذریعے ہی اداروں سے گفت و شنید ہو سکتی ہیں۔ بلکہ ان کے لئے تو اسمبلی میں مخصوص نشست ہونی چاہے، جس کے ذریعے یہ اپنی آواز حکام بالا تک پہنچا سکے جس کے ذریعے یہ اپنی آواز حکام بالا تک پہنچا سکے۔ جس طرح خواتین اور اقلیت کے لئے ہوتی ہے۔

اور دوسرا یہ کہ ہمیں بھی ان کا خیال اور احساس کرنا چاہے۔ تا کہ اک خوشحال معاشرے کی تکمیل ممکن ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments