ڈاکٹر خالد سہیل کی کتاب :دانائی کا سفر


کتاب :دانائی کا سفر
مصنفین: ڈاکٹر خالد سہیل
ڈاکٹر بلند اقبال
ترتیب و تدوین :عبدالستار
تبصرہ:دعا عظیمی
ویبینار میں پڑھا جانے والا ایک مضمون

دانائی کا سفر پڑھنے کے بعد مجھے پہلا خیال یہ آیا کہ میں نے اپنی نوجوانی میں تذکرے تو بہت سے پڑھے، جیسے کہ تزکرہ الانبیاہ، تزکرہ الاولیاء لیکن اردو زبان میں تذکرہ علماء و دانا پہلی بار پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ دانائی کے اس سفر میں، انسانی شعور اور آگہی کے کئی مقامات آئے۔ ان مقامات پر قاری چونکتا بھی ہے ٹھٹھکتا بھی ہے۔ جاگتا بھی ہے اور دوسروں کو جگانے کی خواہش بھی کرنے لگتا ہے۔

اس کتاب میں ادب روحانیت، کیمیا و طبیعات، مابعد طبیعات معاشیات فلسفے اور نفسیات کے اماموں کا تذکرہ اپنی تمام تر جزئیات و تفصیلات کے ساتھ دلچسپ مکالمے کی شکل میں موجود ہے۔ اس میں ہندوستانی داناؤں کا بھی اسی محبت سے ذکر ہے جس طرح اسلامی صوفیوں اور سائنسدانوں کا۔ یونانی چینی ایرانی تمام ایشیائی اور یورپی مفکرین و محققین سے ملاقاتیں ہیں۔ ایک ٹائم مشین ہے جو ماضی سے حال کی اور حال سے مستقبل کی طرف رواں ہے۔ اختتام پر سفر کا یہ حاصل ہے کہ یہ ایک عام روایتی ذہن کو منطقی طرز فکر سے روشناس کراتی ہے۔

در اصل یہ انسانی شعور کے ارتقاء کی کہانی ہے۔ اس کی ایک الگ سے خوبی ہے کہ اس میں نہ صرف ان کے علمی کارناموں پر روشنی ڈالی گئی ہے بلکہ ان کی مکمل سوانح عمر یاں درج کی گئی ہیں بلکہ ان کی ذاتی زندگیوں کی معلومات بھی ہیں۔

بشری کمزوریوں، بیماریوں، ان کی زندگی میں آنے والے المیوں اور ہر دور میں اس وقت کے سماج کا ان کے ساتھ کیا رویہ رہا تمام عنوانات پر مکالمے ہیں۔ جس نے بیان کو پرلطف بنایا اور حقیقی رنگوں سے اس طرح بھر دیا کہ قاری کا ذہن تروتازہ رہے۔

اس جہان میں ہو گزرے تمام زمانوں کے داناؤں کی دانائی کو چار روایات میں تقسیم کر کے بات کو آگے بڑھایا گیا ہے۔ اپنے اپنے شعبے کے عظیم ناموں ان کے کاموں سے تعارف ہوا۔ پتہ چلا کہ اس وقت کے سماج تہذیب و ثقافت میں ان کا کیا حصہ ہے۔

ڈاکٹر خالد سہیل کو پڑھتے ہوئے مجھے بار ہا احساس ہوا کہ ڈاکٹر خالد سہیل کو دانائی سے ایک خاص نسبت ہے۔ ؟

ان کی نگارشات میں لفظ دانائی کو الگ سے مقام حاصل کبھی کسی جملے میں کبھی کسی مضمون کے عنوان میں تو کبھی پوری کتاب کے نام اور متن میں اس کی تکرار ہے۔ ایسے معلوم ہوتا ہے دانائی کا وصف ان کے لیے بے حد اہمیت رکھتا ہے۔ یہ ڈاکٹر صاحب کی پسندیدہ ترین اصطلاحات میں سے ایک ہے۔ اور اس کتاب میں اسے وسیع تر معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔

مجھے محسوس ہوا کہ ڈاکٹر خالد سہیل ایسے دانا ہیں جو دوست بھی سوچ سمجھ کے دانائی کے ساتھ دانا ہی چنتے ہیں اور پھر یہ مل کر ایسے کے ٹو، ایسے ماؤنٹ ایورسٹ فتح کرنے نکل کھڑے ہوتے ہیں جو ایک عام انسان کے بس کا کام نہیں یہ لوگ مشکل سے مشکل موضوعات پہ ایسے ہنس کھیل کے بات کرتے ہیں جیسے صحن میں بیٹھے دو یار حقے کے کش لگاتے اور گاؤں کے حالات حاضرہ پہ بات کرتے ہوں۔ خشک پیچیدہ اور دقیق موضوعات ان کے سامنے بچوں کا جھنجھنا بن جاتے ہیں۔ ان ہی کے ایک مضمون کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے لفظ دانائی کا وہ اصل تصور پتہ چلا جو ان کے دماغ میں ہے۔ اپنے مضمون میں ایک جگہ لکھتے ہیں

”میں کبھی کبھار سوچتا ہوں دانائی کیا ہے اور کیسے آتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ذہانت تو پیدائشی ہوتی ہے علم سکول کالج یونیورسٹی سے سیکھا جاتا ہے لیکن دانائی ڈگریوں سے حاصل نہیں ہوتی۔ بے حد سادگی سے بتاتے ہیں کہ دانا لوگ زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں۔ اگلا جملہ ہے وہ صاحب الرائے ہوتے ہیں۔ وہ زندگی کے راز جانتے ہیں۔ وہ زندگی کے بارے میں نایاب بصیرتیں رکھتے ہیں۔ ان کے تجربات اور مشاہدات ان کے راہنما ہوتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ دانائی کا تنہائی سے اپنے ساتھ وقت گزارنے سے، زندگی کے بارے میں غور و فکر کرنے سے اور دولت اور شہرت سے بے نیاز ہونے سے گہرا تعلق ہے۔ دانا لوگ اندر سے درویش ہوتے ہیں۔“

اسی آرٹیکل، کے اختتام میں اس راز کو کھولتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ

”دانائی ایک فن ہے جو کتابوں میں نہیں ملتا یہ فن اساتذہ کی خدمت ’بزرگوں کی قربت اور دانا لوگوں کی صحبت سے ملتا ہے۔” دانا لوگوں کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں

”ان کی شخصیت میں ٹھہراؤ ہوتا ہے۔ تحمل ہوتا ہے۔ برد باری ہوتی ہے، دھیرج ہوتی ہے وہ جانتے ہیں کہ انہیں زندگی میں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا اسی لیے وہ زندگی میں دانائی کے فیصلے کرتے ہیں۔“

سو ڈاکٹر خالد سہیل نے اپنے دوست ڈاکٹر بلند اقبال کی مدد سے یہ فیصلہ کیا کہ کینیڈا ٹی وی ون پر علمی پروگرامز کی سیریز کے ذریعے اپنے ناظرین اور قارئین کو تاریخ کے بہت سے دانا مردوں اور عورتوں سے ملوایا جائے۔ جو اس کرہ ارض پر آئے اور جنہوں نے فکرو دانش کے چراغ جلائے۔

اس کتاب میں ادب، روحانیت، نفسیات، سماجیات، ارتقاء، فزکس، میٹا فزکس کیمسٹری معلومات عامہ اور تاریخ سے دلچسپی رکھنے اور سوچنے سمجھنے والے قارئین کے لیے مکمل ضیافت کا اہتمام ہے۔ تین سو ستائیس صفحات کی اس کتاب کو ادوار کے حساب سے تین حصوں میں تقسیم کر کے پڑھنے والوں کے لیے آسانی پیدا کر دی گئی ہے۔

دور قدیم کا پہلا باب ہرمن ہیسے کے ناول سدھارتھا کے متعلق ہے۔ جو بدھا کی دانائی کی روشنی میں چلتا پھرتا ہے۔ ناول کا موضوع بھی دانائی ہے۔

کتاب آغاز سے ہی کچھ سوالات کے گرد گھومتی ہے۔
سچ کیا ہے؟
دانائی کسے کہتے ہیں؟
دنیا کے انسان پریشان کیوں ہیں؟
انسان اپنے دکھوں کو سکھوں میں کیسے بدل سکتے ہیں
اور آخری سوال انسان اس کرہ ارض کو ایک پرامن مقام میں کیسے بدل سکتا ہے۔ ؟

یہ مختلف دانشوروں ادیبوں مفکرین، فلسفیوں اور سائنسدانوں کی زندگیوں سے جڑی انسانی شعور کے ارتقاء کی کہانی ہے۔ جن کا تعلق مختلف مکتبہ فکر، مختلف جغرافیائی خطوں مختلف ادوار سے سے ہے۔ یہ عالی دماغوں کے تحقیقی کام کا خلاصہ اور نچوڑ ہے جو کسی بھی طالبعلم کی بصیرت اور طرز فکر کے معیار کو بلند کر سکتا ہے۔ یہ واقعات کو فلسفیانہ نظر سے دیکھنے کی صلاحیت پیدا کرنے والی کتاب ہے، یعنی دانائی کو بڑھانے والی کتاب۔

اسے پڑھ کے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح عہد قدیم کی دانائی روحانیت اور اخلاقیات سے جڑی ہے۔ اس بصیرت افروز نسخے میں، ایرانی چینی، ہندوستانی روایت کے حوالے سے گفتگو درج ہے۔ روح کیا ہے، روح اور جسم کا کیا تعلق ہے، انسانی دکھوں کی وجہ کیا ہے اس جیسے اہم اور پیچیدہ موضوعات کو چھیڑا ہے۔ مصنفین نے کنفیوشس لاوزی بدھا مہاویرا سقراط ارسطو افلاطون زرتشت کے نظریات سے متعارف کرایا اور کڑی سے کڑی ملائی تاکہ پڑھنے والے عام و خاص شعوری ارتقاء کے اس عمل کو سمجھ سکیں۔

ڈاکٹر بلند اقبال اور ڈاکٹر خالد سہیل نے قرون وسطی کے سیاسی اور سماجی پس منظر کا بھی جائزہ لیا ہے۔ عام قارئین کو ان فلسفیوں کے ناموں اور سوانح حیات سے متعارف کرایا ہے جن کے متعلق میرے جیسے بہت کم معلومات رکھتے ہیں۔ ال کندی، الفارابی، الرازی، جلال الدین رومی اور اقبال، ابن رشد اور ابن تیمیہ اور دیگر فلسفیوں کے فلسفوں پر تفصیلاً روشنی ڈالی ہے۔ پڑھنے والا ٹائم مشین کی مدد سے ان تمام زمانوں کی سیر کرتا ہے جو گزر چکے ہیں۔ یہ انقلابات زمانہ کے نشیب و فراز کی داستان ہے۔ جن کے کاندھوں پر یونانی اسلامی اور یورپی فلسفے آپس میں گھلے ملے۔ ایک دوسرے سے متاثر ہوئے۔

زمینی اور آسمانی نکتہ نظر کس طرح کام کرتا رہا۔ مجھے لگا میں نے ایک فلم دیکھی جس کا موضوع دلیل اور وحی ہے۔ کس طرح فکری رویوں نے جنم لیا۔ ان کی پرورش کا ماحول کیا رہا۔ کس طرح کشمکش چلتی رہی۔ انسانی ترقی کی ہیروئن نے آج تک کا سنگھار کیسے کیا۔ قدیم دور طفولیت کا دور لگا قرون وسطی کا دور لڑکپن پر محیط رہا جب کہ تیسرا دور بلوغت یعنی میچور ٹی کا ہے۔ رینے ڈیکارٹ جیسے فادر آف ماڈرن فلاسفی سے ملوایا۔ ڈیوڈ ہیوم کی بات کی۔ اور سب سے آخر میں سٹیفن ہاکنگ ان کے نظریات اور وقت کے متعلق تصورات پر تفصیل سے بات کی۔

دونوں ڈاکٹرز نے دلچسپ انداز میں ان شخصیات کے تصورات اور نظریات کے ساتھ ساتھ ان فلسفیوں اور دانشوروں کی زندگیوں کے ان گوشوں کو بھی بے نقاب کیا جو شخصیات کی زندگیوں کے کمزور پہلو ہیں جن پہ عام طور پر بات نہیں ہوتی۔

اسی وجہ سے گفتگو دلچسپ اور۔ حقیقی ہوتی چلی جاتی ہے اور پڑھنے والا محو ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایشیا اور یورپ بلکہ پوری دنیا کے مکمل سیاسی سماجی اور معاشی ڈھانچے کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ میری نظر میں یہ کتاب اردو ادب کے دامن میں علمی کوہ نور ہے۔ جس سے آگہی منعکس ہوتی رہے گی۔ اس میں نظمیں بھی ہیں اقوال بھی، کلمات بھی ہیں کلیات بھی اجمال بھی ہیں جزئیات بھی، مفہوم بھی ہیں اور اصطلاحات بھی، گو یہ عام انسانوں کے لیے اپنی قومی زبان میں ایک خاص کتاب ہے۔

ٹیگور کی نظم کے ترجمے کے ساتھ اختتام کروں گی جو کتاب میں شامل ہے
”جب تو مجھے گانے کا حکم دیتا ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میرا قلب سرور سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا
میں تیری صورت دیکھتا ہوں تو میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں اور میں مسرت سے پھول جاتا ہوں
اور تجھے اپنا دوست سمجھنے لگتا ہوں حالانکہ تو میرا مالک اور آقا ہے
اے میرے آقا مجھے نہیں معلوم کہ تو کس طرح گاتا ہے میں ہمیشہ ایک خاموش تحیر سے سنتا رہتا ہوں

‎تیری موسیقی کی روشنی عالم کو منور کر رہی ہے تیری موسیقی کا نفس حیات ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک دوڑتا پھرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments