طالب علم کی اقسام



تھیٹا

تھیٹا اپنے نوٹس کسی کو نہیں دیتا لیکن ہم نے بھی ایسا جواز بنایا کہ اس کو کاپی دینی پڑی۔ کاپی کھولی تو کیا دیکھتے ہیں کہ اس نے استاد محترم کے سارے What؟ کیا؟ بھی لکھ رکھے ہیں۔ ہمارے استاد محترم کا تکیہ کلام تھا کہ وہ ہر فقرے کے شروع میں یا آخر میں انگریزی لفظwhat کا استعمال کرتے تھے۔ اس لیکچر میں استاد محترم نے what کی تین سنچریاں کی تھی اور تھیٹے نے ان کو اپنی کاپی پر محفوظ کر لیا تھا۔

تھیٹے کمرہ امتحان میں نقل مارنا اور کسی کی نقل کرنا کفر سمجھتے ہیں۔ ان کا ایمان ہوتا ہے ہر طالب علم کو اپنے نمبر خود لینے چاہیں۔ تھیٹا ہر لڑکی کو اپنی بہن سمجھتا ہے اور نظریں نیچی رکھتا ہے۔ اکثر تھیٹے اپنی شادی والے دن اپنی دلہن کی تعریف اس طرح کرتے ہیں۔

”بہن آج تو بہت خوبصورت لگ رہی ہو“ ۔

وقت کی اہمیت صرف تھیٹا ہی جانتا ہے کیونکہ وہ سوتے ہوئے بھی اپنے ذہن میں ریاضی کے فارمولے یاد کرتا رہتا ہے۔ وہ اپنی درسی کتاب کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا ہے اور وقت حاجت بھی کتاب بیت الخلا میں لے جاتا ہے تاکہ وقت کا ضیاع نہ ہو۔ اپنی کتاب اپنے سرہانے کے قریب رکھتا ہے اگر رات کو نیند کھل جائے تو کتاب کھول کر ایک دو صفحات کو رٹ لیتا ہے۔ تھیٹا ہمیشہ اول آتا ہے لیکن دیکھنے میں آیا ہے اپنی علمی زندگی میں پریشان رہتا ہے۔

شرارتی کاکا۔

کچھ طالب علم مرد حضرات توجہ کے طالب ہوتے ہیں ایسا لگتا ہے ان کو زندگی میں کبھی کسی نے لفٹ نہیں کرائی اور ان کے والدین کو بھی وہ پرائے کی اولاد لگتے ہیں۔ یہ طالب علم کمرہ جماعت میں صرف شرارتیں کرتے رہتے ہیں تاکہ ساری جماعت ان کی طرف متوجہ رہے۔ توجہ حاصل کرنے کے لیے وہ کئی حربے استعمال کرتے ہیں مثلاً مختلف جانوروں کی آواز نکالنا بلی کی آواز ان کی پسندیدہ آواز ہوتی ہے۔ اس لیے آپ کو کمرہ جماعت میں میاؤں، میاؤں کی آواز اکثر سنائی دیتی ہے۔

ان کا دوسرا حربہ بے وقت سوال پوچھنا ہوتا ہے استاد محترم گندم کے بارے میں اپنا ارشادات دے رہے ہوتے ہیں تو ان کا سوال ہمیشہ چنے کے متعلق ہوتا ہے۔ جس سے جماعت کا وقت اچھا گزرتا ہے۔ ان اکا تیسرا حربہ قہقہے لگانا ہے۔ یک دم کمرہ جماعت ان کے قہقہوں سے گونج اٹھتا ہے۔ مصنوعی قہقہے ان کی شان ہوتے ہیں۔ آپس میں باتیں کرنا، ان کا اگلا حربہ ہے اکثر شرارتی کاکے ٹولی بنا کر رہتے ہیں۔ اور اکٹھے پائے جاتے ہیں اور دوران جماعت، آپس میں اہم ترین گفتگو کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

بی بی ڈول:۔

شرارتی کاکے کی بہن بی بی ڈول کہلاتی ہے۔ ان کا بھی مسئلہ توجہ کا حصول ہوتا ہے۔ فیشن زدہ یہ لڑکیاں میک اپ کی دکان سجائے کمرہ جماعت میں براجمان ہوتی ہیں۔ ان کا پسندیدہ مشغلہ کیٹ واک کرنا ہوتا ہے۔ بی بی ڈول کے ارد گرد اکثر کافی بھائی جمع رہتے ہیں جو ان کے کزن کہلاتے ہیں۔ بی بی ڈول کا مقصد اپنے حسن کے جادو سے تمام جماعت کو خیرہ کرنا ہے۔ پڑھائی سے ان کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے بلکہ کتابوں کو بوجھ سمجھتی ہیں۔ اس لیے کتابیں اپنے آپ سے دور رکھتی ہیں بلکہ کوسوں دور رکھتی ہیں۔

قصیدہ گو۔

ہر جماعت میں آپ کو چند طالب علم قصیدہ گو بھی مل جاتے ہیں۔ ان کو دیکھ کر مرزا غالب کے وہ قصیدے یاد آ جاتے ہیں جو انہوں نے ملکہ برطانیہ کی شان میں لکھے تھے۔ انسان کی بے بسی اور کام چوری کس کس کام پر انسان کو مجبور کر دیتی ہے۔ یہ طالب علم بھی استاد محترم کی شان میں قصیدہ گوئی کرتے ہیں لالچ یہ ہوتی ہے کہ اچھے نمبروں سے پاس ہو جائیں اور محنت بھی نہ کرنی پڑے۔ یہ بھنورے استاد کے گرد شمع کی طرح منڈلاتے رہتے ہیں۔ ان کی پاس تعریف کرنے کے وہ، وہ اسلوب ہوتے ہیں کہ مرزا غالب اگر زندہ ہوتے تو ان کو سن کر عش عش کر اٹھتے۔ استاد کی شان کو آسمان تک لے جانے کا فن اگر کوئی جانتا ہے تو وہ یہی ہیں۔

خالہ اماں :

کچھ طالبات آپ کو اپنی خالہ یا اماں سے مشابہ نظر آئیں گی۔ ان کو دیکھ کر لگتا ہے ابھی آپ کو نصیحت کرنے لگے گئیں۔ شرم و حیا کی پیکر، دین پر سختی سے کار بند یہ طالبات نمبر بھی صرف خدا سے مانگتی ہیں۔ دوران جماعت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لبوں سے ورد جاری ہے۔ ان کے کپڑے بھی پھیکے رنگوں کے ہوتے ہیں تاکہ ان کی بزرگی کی شان قائم رہے۔ لڑکے اکثر خالہ اماں جیسی لڑکیوں سے دور بھاگتے ہیں اور ان کی عزت اپنی سگی بہنوں سے بھی زیادہ کرتے ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا یونیورسٹی کا دور بغیر کسی افیئر کے گزر جائے تو خالہ، اماں والا حلیہ اپنا لیں تو کافی سکون سے جوانی کٹ جائے گی اور آپ بچپن سے سیدھے بڑھاپے میں آ گریں گے۔

نوٹ یہ اقسام جام صاحب کے فضول ذہن کی اختراع ہیں ان پر یقین کرنا گمراہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments