ملتان کی بدلتی سیاسی صورت حال اور بڑے شاہ صاحب کی ذمہ داریاں


اپنے آپ سے انجان وقت کی رفتار سے بے خبر، بہا الدین زکریا ملتانی کی ملاحت بھری شخصیت، شاہ رکن الدین عالم کے پرتو میں رچا مٹھاس بھرا انسان دوستی کا معجزہ، مزارات کی برگد نما چھاؤں میں سانس لیتا شہر، جس نے شاہ شمس سبزواری کے مزار کی گپت خاموشی اور اسرار کو آنے باطن میں چھپا رکھا ہے، اپنی دھن میں مگن ملتان شہر کے چہرے پر تاریخ کے کتنے اتار چڑھاؤ رقم ہیں۔

جنہیں کوئی بھی صاحب اسرار پڑھ سکتا ہے۔ کوئی بھی عاشق ان کی گیرائی اور گہرائی سے اپنی زندگی کے سفر کو منفرد بنا سکتا ہے۔ قدیم شہنشاہوں کی خوبرو کنیزوں کے کسے کسائے، گلاب کی خوشبو سے بھرے جسم کے پیروں پر پڑتے ہوئے بوجھ اور گداز ٹانگوں کی تھرکتی تال پر چھنکتی پازیب کی جھنکار سے معمور قدیم دروازے آج بھی پھولوں کے ہاروں اور گجروں کی خوشبو سے شام کی دہلیز کو پاک دروازہ سے خونی برج تک معمور کیے ہوتے ہیں۔ تلوار بردار گھڑ سواروں کی دہشت سے بے نیاز، گزرے دنوں کے کتنے معرکوں کو اپنی مٹی میں دفن کیے دم دمہ اپنے وجود کی ہیبت ناکی سے اپنے مہمان کو اس تفاخر سے آگاہ کرتا ہے جو اس کے ساتھ گفتگو اور ملاقات سے پہلے اس کے لیے اکثر اجنبی اور دل کش ہوتا ہے۔

وقار اور خوب صورتی کے امتزاج سے بھرے آسمان سے گفتگو کرتے دربار کی سراسیمگی کو خود میں چھپائے، گرم موسم کی سہانی شام کی خوشبو سینے میں گرم رکھے فضاء میں ٹولی در ٹولی اڑتے کبوتروں کی ڈاریں، جن کے سامنے گندم کی چنگیر پھیلاتی نگاہیں اس مادی دور میں بھی نادیدہ امیدوں کے امکانات سے بھر جاتی ہیں۔ کتنے رانجھے ان چنگیروں میں پھیلی گندم کی برکت میں اپنی ہیر کا ساتھ تلاش کرتے ہیں اور کتنے نئے زمانے کے پڑھے لکھے ان گندم کے دانوں میں اپنے رزق کے نشانات کی خوش خبری کو ڈھونڈتے ہیں کہ ملتان کے محافظ یہ بزرگ خیر سے مکالمے کے سوا کوئی عمل نہیں جانتے۔

قدیمی رازوں نیازوں کے امین دروازوں کی حد پھلانگ کر منہ زوری سے پھیلتے شہر کی آخری حدوں سے باہر کھلے میدانوں کے اطراف میں پھیلے آم کے باغات، جن پر لدے بور کے موسم میں ان سے امڈتی زندگی کی مہک اپنے آس پاس کے سادہ مزاج لوگوں کو آج بھی پوری قوت سے اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ سانس روک حبس میں رس کی پھوار سے بھرتے فالسے اپنی کیاریوں میں محنت میں جتی سرائیکی میں کلام کرتی عورتوں کے سینے کے رازوں کو اپنی گنجلک بنیادوں اور جڑواں ٹہنوں میں چھپائے ہوئے ہیں کہ دانہ دانہ چنتی یہ ناریاں اپنی سرگوشی کے اسرار سے اس لہو رنگ پودے کی ٹہنی کو سبز رس سے بھر دیتی ہیں۔

محفوظ پان شاپ کینٹ کے سائے میں پچاس برس سے جوتیوں کی مرمت کرتا بابا خان گزرتے زمانے کے کتنے واقعات کی ریل اپنی آنکھوں کے رستے دل کے نہاں خانے میں چھپائے ہوئے ہے۔ گول باغ سے بیس قدم کے فاصلے پر ثانوی تعلیمی بورڈ کی قربت میں جوتیاں گانٹھتا چچا بشیر آخر کار غربت اور ضرورت سے جنگ لڑتے لڑتے ہار گیا ہے اور آج اس کی لکڑی کی صندوق کے گرد اداسی اور بربادی نوحہ کناں ہے۔ وہ صدا خاموشی اوڑھ چکی ہے جس نے نصف صدی لوگوں کے پیروں میں سجی جوتیاں پالش کیں اور موقع ملتے ہی رسول کے نواسوں کی نوحہ خوانی سے دل کے قرار کے ساتھ پیٹ کی آگ بجھانے کا انتظام بھی کیا۔

جنرل ہسپتال کی ہمسائیگی میں عمر خان کی عمر بھر کی کوششوں کا حاصل لانگے خان لائبریری کی نئی پرانی الماریوں میں باہمی سرگوشیوں میں مصروف موٹی، چوڑی، مجلد، غیر مجلد کتابوں سے شعور تلاشتے دو چار دیوانے آج بھی اس عمارت کی اداس کر دینے والی خاموشی کو آواز سے زندگی دیتے ہیں۔ چوک فوارہ کے گرد بڑے بڑے تاجروں کی دہشت سے تھوڑا بڑھ کر ہسپتال کی بغلی سڑک کے ساتھ حافظ کے سوہن حلوہ کی شیرینی سے شہر بھر میں پھیلتی مہکار، جہاں آج نرالا والے کا فالودہ شہر میں ایک نئی روایت کے قیام کی سعی میں مصروف ہے۔

سوہن حلوہ کی جستی پرات سے تعلق نبھاتے یہ حافظ کے وارث آج بھی اپنی لذیذ روایت کا جوہر لیے قدامت اور جدت کے امتزاج سے زندگی کرنے پر خوش ہیں۔ (گو ایک مفتی کی حسن پرستی نے ان میں سے بعض کو کچھ عرصہ سے کم گو بنا رکھا ہے ) محلہ مائی پٹھانی کی تنگ گلیوں میں چہکتے بچے اپنی آنکھوں کے خوابوں سے آج بھی راہ گیروں کے چہروں کو منور کرتے ہیں کہ راجہ رنجیت سنگھ کی وحشت انگیزی ان سے زندگی کرنے کا فن چھیننے سے قاصر رہی ہے۔

گھنٹہ گھر سے بوہڑ دروازہ کو بڑھتے النگ سے چند گز مشرق کی طرف اوپر چڑھتی تیزی سے مڑتی ترچھی گلی، جس کی منزل انو کا چھجا ہے۔ وہی انو کا چھجا جہاں تازہ لہو کی خوشبو کبھی باسی نہیں ہوتی۔ جس کے در و دیوار میں کتنے جسموں پر کن اسباب سے چھریاں چلیں اور یہ جسم جانور کے ہی تھے یا نہیں یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے کہ آج اکیسویں صدی کی تیسری دہائی کے دوسرے برس میں بھی یہ علاقہ لشکتے خنجر کی دھار، تیز چاقوؤں کی بے حسی، دو دھاری چھریوں کے وار سے اٹھتی درد بھری چیخوں اور ننگی بے لگام گالیاں بکتے نوجوانوں کی چیخ و پکار اور باہمی چپقلش سے ہر وقت بھرا رہتا ہے۔

مگر مجال ہے کہ چھجے میں سے کسی کو اس پر اعتراض ہو اور چھجے کے باہر سے کسی میں اس علاقے میں دخل دینے کی جرات ہو۔ ڈریم لینڈ سینما کے مرکزی دروازے کے سامنے، مسجد میں بچھائی جانے والی صفوں، پلاسٹک کے سامان فروش کی ہمہ وقت گاہکوں کے رش سے اٹی ایک بہت بڑی دکان کے بغل میں پرانے رسائل، کتابوں اخباروں کی سوندھی باس سے بھری، ایک چھوٹی سی وہ دکان جس کے کتاب پرست مالک نے زندگی کی پونجی گھنٹہ گھر کی ہمسائیگی میں کتاب سے محبت کے دست خط میں گزار دی ہے اور ایک بار بھی چھ ضرب چھ کی اس دکان کو چہار دروازی دکان میں بدلنے کی کوشش نہیں کی اور شاید زندگی بھر اپنا سفید واش اینڈ وئیر کا سوٹ بھی سینت سینت کر استعمال میں رکھا ہے۔

نہیں معلوم کتنے قصے اس شہر میں زندہ ہیں اور کتنے وقت کے تیز پہیے کی دھول بن چکے ہیں مگر آج اور کل کے کیلنڈر میں جیتا جاگتا یہ ملتان ہے وہی ملتان جس میں پرانے شجاع آباد روڈ پر واقع وائٹ پیلس میں ایک منہ زور آمر نے جمہوریت کے پاؤں پر چڑھے بوٹ کے تسمے باندھنے کی اداکاری کی ہے۔ یہ وہی ملتان ہے جسے قریشیوں اور گیلانیوں کا گھر کہا جاتا ہے کہ ایک طرف بابا بہا الدین زکریا ملتانی نے اپنے حلم اور انسان پرستی سے قریشی خاندان کے وقار میں اضافہ کیا ہوا ہے تو دوسری طرف موسیٰ پاک شہید کا مزار گیلانی خاندان کے عجز اور سیاسی رفعت کا علامتی نشان بنا ہوا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ملتان ملک کے سیاسی بہاؤ کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ شہر طے کرتا ہے کہ طاقت کا ہما کس سر پر سجے گا۔ یہ وہی ملتان ہے جس نے 1988 میں پیپلز پارٹی کے پیر ریاض حسین قریشی کو پاکستان پیپلز پارٹی کی محبت میں شہری حلقے سے فتح سے ہمکنار کیا اور پی پی کا ڈنکا ایسا بجایا کہ ملک صلاح الدین ڈوگر جیسے منجھے ہوئے سیاست دان نے بھی پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کو ترجیح دی اور عمر بھر اپنی اس نسبت سے وفاداری کی۔

یہ وہی ملتان ہے جس نے 97 کے الیکشن میں پہلی مرتبہ سید یوسف رضا گیلانی جیسے طلسماتی شخصیت کے سیاست دان کو بھی قومی اسمبلی تک نہ پہنچنے کا راستہ فراہم نہیں کیا۔ یہ وہی ملتان ہے جس نے 2018 کے جنرل الیکشن میں پوری حمایت کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف کے سر پر طاقت کا تاج سجایا۔ حتی کہ عمر بھر شاہ محمود قریشی سے مخدوم رشید کے حلقے میں شکست کھانے والے مخدوم جاوید ہاشمی بھی عمران خان کی اہانت اور بھروسے کی بدولت شہری حلقے سے سیاسی میدان میں فتح یاب ہوئے۔ یہ وہی ملتان ہے جس کے سفید محل میں نواب صادق حسین قریشی کی رازداری کے بھروسا پر سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ڈاکٹر عبد القدیر خان کو ایٹمی پروگرام کے باقاعدہ آغاز کا کام سونپا۔

مگر آج یہ ملتان آٹے، چینی کی قطار میں کھڑا شدید غصے اور جھلاہٹ میں مبتلا اپنے سیاسی نمائندگان کی طرف پریشانی اور امید کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ دیکھ رہا ہے۔ جب بہت سے تجزیہ کار یہ کہنے پر مصر ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف نے اپنے اس سیاسی میدان کو کھو دیا ہے اور آئندہ الیکشن میں یہ اکھاڑا کسی دوسری پارٹی کے لیے فتح کا نشان ثابت ہو گا تو عین اسی وقت اس شہر میں کچھ بڑے سیاسی فیصلے کیے گئے ہیں۔ اسی ملتان کے ان حالات میں آج پاکستان تحریک انصاف کے ایک بھلائے ہوئے شاندار سیاست دان میاں معین الدین ریاض قریشی کو پاکستان تحریک انصاف جنوبی پنجاب کا سیکرٹری جنرل بنایا جانے کا اعلان کیا گیا ہے بڑے بڑے تاجروں، صنعت کاروں، وڈیروں، پیروں کا گھر ملتان میں ایک خانوادہ سابق رکن قومی اسمبلی، سابق وفاقی وزیر، سابق ضلعی ناظم ملتان، ادب پرور، سیلف میڈ اور اصول پرست انسان پیر ریاض حسین قریشی کا ہے جس کی نسبت تو خاندان قریش سے ہے۔

مگر یہ حقیقت ہے کہ اس خاندان نے انسان دوستی اور ملتان پرستی کا کوئی موقع کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ ملک عزیز میں جاری گزشتہ عشرہ بھر کی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے نتیجے میں ملتان کے سیاسی منظرنامے پر کئی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ شاہ محمود قریشی اور یوسف رضا گیلانی کے ناموں سے پکارے جانے والے اس شہر میں کئی نئے لوگ سیاست کی شطرنج پر ابھرے اور دیکھتے دیکھتے چھا گئے۔ نئی بنتی بگڑتی تصویروں میں کئی نئے لوگ اپنی دولت سے بھرے بریف کیس سمیت سیاسی منظرنامے میں سامنے آئے۔

تو کئی پرانے سیاست دانوں کو نظر انداز بھی کیا گیا ان نظر انداز کیے جانے والے لوگوں میں سابق صوبائی وزیر پیر معین الدین ریاض قریشی سرفہرست ہیں۔ پیر معین الدین ریاض قریشی کی سیاسی زندگی کئی طرح کے اتفاقات سے بھری ہوئی ہے۔ جن میں سے بیش تر اتفاقات نے ان کی زندگی کو مشکلات سے دوچار کیا۔ اکیسویں صدی کے ابتدائی دنوں میں شہر کی اہم ترین یونین کونسل گلگشت سے سیاسی دریا میں اترنے والے قریشی خاندان کے اس چشم و چراغ نے دیکھتے ہی دیکھتے ہر خاص و عام کے دل میں اپنے لیے عزت اور محبت کا چراغ روشن کیا اور شہر بھر کے سیاسی کینوس پر اپنی منفرد پہچان بنائی اور جلد ہی صوبائی اسمبلی کی نمائندگی اور پھر صوبہ بھر کی وزارت کھیل جات تک رسائی حاصل کر لی۔

2008 ء کے جنرل الیکشن میں سائیکل کے انتخابی نشان پر میاں معین پورے پاکستان کے ان چند سیاسی امیدواروں میں سے تھے جن کے حاصل کردہ ووٹ ریاضی کے پانچ اعداد پر مشتمل تھے۔ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی لاکھ کوشش کے باوجود میاں صاحب نے اپنی پارٹی سے علاحدگی اختیار نہیں کی یہاں تک کہ پوری پارٹی ہی بکھر گئی اور ملتان کی حد تک اس کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ اس نئی صورت حال میں جناب شاہ محمود قریشی کی مشاورت سے انہوں نے مسلم لیگ نواز میں شمولیت اختیار کی کہ ان کی اپنی پارٹی قصۂ پارینہ بن چکی تھی۔

اور یہ سفر ان کے لیے مجبوری بن چکا تھا انجان لوگ میاں معین پر پارٹی چھوڑنے اور سیاسی مفاد پرستی کا الزام بھی لگاتے رہے مگر یہ سادہ لوح اس سچ سے ناواقف ہیں کہ میاں معین ان ملتانیوں میں سے نہیں جو کسی مفاد کے لیے پارٹی چھوڑتے ہیں یا بطور سیاست دان اپنی کمیشن وصولتے ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ملتان کی حد تک مسلم لیگ نواز مہاجروں کی جماعت بن چکی ہے۔ جس میں کسی ایسے شخص کی کوئی جگہ نہیں جو سرائیکی قومیت کے ساتھ نسبت رکھتا ہو اور شہر میں بستے سرائیکیوں کے حقوق کی آواز بلند کرے۔

آپ لمحہ بھر کو توقف کیجیے اور دیکھیے کہ ملتان کی اوسط طبقے کی ایک بڑی تعداد کی نمائندہ جماعت مسلم لیگ نواز کے شہری حلقوں کے امیدواروں کی نسبت کس طبقہ سے ہے۔ شیخ طاہر رشید، شیخ طارق رشید، حاجی احسان الدین قریشی سمیت کتنے نام ہیں جو گزشتہ چار دہائیوں سے ملتان شہر کی قسمت کے فیصلے کرتے چلے آ رہے ہیں جبکہ یہ سب اپنے ڈرائنگ رومز میں سرائیکی قوم کو گالی تک دینے سے باز نہیں آتے۔ تازہ مثال سابق گورنر پنجاب کی ہے کہ جن کے صوبائی اسمبلی کے امیدوار کی خود رکن قومی اسمبلی نے مخالفت کی۔

کیونکہ گورنر سرائیکی ہے اور یہ بات ان لوگوں کو منظور نہیں۔ مخدوم جاوید ہاشمی، سکندر حیات بوسن کو اس قبیل میں نہ لائیے گا کہ وہ دیہی علاقوں کے نمائندگان ہیں۔ جہاں کی سیاسی نفسیات بالکل مختلف ہے۔ دوسرا ملتان میں تقسیم کے بعد کی مہاجر آبادکاری اندرون شہر سے مخصوص ہے جبکہ شہر کے اطراف دیہی علاقے قدیمی زمین داروں کے پاس ہیں جہاں کی سیاسی سماجیات شہری سیاسی صورت حال سے قطعی مختلف ہے۔ مسلم لیگ نواز کی داخلی فضاء بالخصوص بڑے میاں صاحب تک رسائی کے محدود تر امکانات، ضمنی الیکشن میں حلقے کے نواز لیگ کے تمام سینئر ارکان کی میاں معین کی خفیہ مخالفت اور ان کے خلاف کھینچا تانی تاکہ وہ عثمان بھٹی جیسے کمزور امیدوار کے سامنے شکست سے دوچار ہوں اور ان خاندانی عزت اور وقار کو خاک میں ملایا جائے اور بڑے شاہ صاحب کے ساتھ بے پایاں محبت آخر کار میاں معین کی جانب سے مسلم لیگ نواز کو خیر آباد کہنے اور پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کا باعث بنی۔

جہاں گزشتہ پانچ برس سے وہ مسلسل نظر انداز کیے جا رہے تھے حالانکہ شہر کا ہر شخص جانتا ہے کہ میاں معین الدین ریاض قریشی ایک ایمان دار اور شریف النفس سیاست دان ہے جس نے تھانے کچہری کی سیاست کرنے، مخالفوں کے خلاف پرچے کٹوانے، شہر کے غنڈوں کو اپنے ڈیرے پر پناہ دینے اور ایسی دیگر روایتی حرکتیں کرنے کی بجائے لوگوں کے ساتھ ذاتی محبت کے رشتے پر اپنی سیاسی زندگی کو قائم کیا۔ ملتان کی شناخت سید یوسف رضا گیلانی کو اپنے ووٹر کو نوکری دینے کا سب سے بڑا نمائندہ مانا جاتا ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ میاں معین وہ دوسرا سیاست دان ہے جس نے اپنے سے جڑے ووٹروں کو بہت بڑی تعداد میں نوکریاں دلائیں۔

چار نمبر چونگی سے کھاد فیکٹری تک اور زکریا ٹاؤن سے صرافہ بازار تک کون سا محلہ ایسا ہے جس میں ایسا فرد موجود نہ ہو جسے میاں معین نے نجی کمپنی یا ضلعی سطح کے مختلف اداروں میں نوکری دلانے میں اہم کردار ادا نہ کیا ہو حال ہی میں میاں معین الدین ریاض قریشی کو پاکستان تحریک انصاف جنوبی پنجاب کا جنرل سیکرٹری بنایا گیا ہے گو یہ ایک نظر انداز کیے ہوئے بہترین سیاست دان کے شایان شان نہیں اور وہ بھی اس وقت کہ جب پارٹی داخلی انتشار کا شکار ہونے کے علاوہ تیزی کے ساتھ عام آدمی کے ساتھ اپنے بھروسے کی دیوار کو منہدم کرنے میں لگی ہوئی ہے۔

یہ وہ وقت ہے جب شاہ محمود قریشی، ملک عامر ڈوگر کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ شہر کے عوام کی ایک بڑی تعداد ان کی شخصیت کی وجہ سے پارٹی کے ساتھ کھڑی ہے۔ آج وقت ہے کہ شاہ محمود قریشی صاحب ملک عامر ڈوگر، میاں معین الدین ریاض قریشی سمیت نمائندہ سیاسی شخصیات کی سرکردگی میں ایسے اقدامات کریں جو شہر کی ترقی اور ان کے مکینوں کی خوشحالی کا سبب بن سکیں۔ شہر بھر کے خوفزدہ سیاسی بونوں کی منافقانہ حرکتوں کی وجہ سے اپنے مقام سے دور رہنے والے میاں معین کے پاس یہ زندگی کا ایک اور موقع ہے جب وہ ان بونوں اور اپنے درمیان فرق کی لکیر کو مزید واضح کر سکتے ہیں۔

اس حوالے سے تسلی بخش بات یہ ہے کہ کچھ تو اس نا انصافی کا ازالہ پارٹی کے موجودہ فیصلے سے ہوا، جو گزشتہ کئی برسوں سے میاں صاحب کے ساتھ روا رکھی جا رہی تھی۔ ملتان کی شہری سیاست میں میاں معین الدین ریاض قریشی اور ملک عدنان ڈوگر وہ دو اشخاص ہیں جو اپنی صلاحیت کے بل پر سیاسی منظرنامے میں الگ شناخت بنانے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں بس ضرورت ایک سنجیدہ پلیٹ فارم اور مخلص احباب کی ہے۔ جو ان کی سیاسی سوجھ بوجھ اور انتظامی صلاحیتوں سے شہر بھر کے فائدے کے اسباب پیدا کریں۔

ڈوگر برادران کے اتحاد اور اپنے حلقے کے عوام کے ساتھ انفرادی سطح کا رابطہ میاں معین کے کامیاب سیاسی مستقبل کی ضمانت ہو سکتا ہے۔ گو ملتان میں پاکستان تحریک انصاف کی باگ ڈور بڑے شاہ صاحب شاہ محمود قریشی سنبھالتے ہیں مگر یہ سچ ہے کہ قومی سطح پر ان کی مصروفیت اور کام کے بوجھ کے سبب سے ان کے لیے مشکل ہے کہ وہ اتنے بڑے شہر کی سیاسی صورت حال کا پہلو بہ پہلو جائزہ لے سکیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے کار پردازگان کے لیے ضروری ہے کہ وہ مستقبل قریب میں شہر بھر میں مختلف سنجیدہ سروے، نچلی سطح پر لوگوں سے ملاقات اور ان کے مسائل سے آگاہی سمیت شہر کی سطح پر نئی حلقہ بندیوں کے مطابق سیاسی امیدواروں کی نئے سرے سے فہرست سازی کریں۔ اس سلسلے میں ملک عامر ڈوگر، میاں معین الدین ریاض قریشی اور ملک عدنان ڈوگر ایسے بہترین دماغ کسی پارٹی کے پاس موجود نہیں جن کی صلاحیتوں سے مستفید ہو کر پاکستان تحریک انصاف ملتان میں تیزی سے اپنے کمزور پڑتے ووٹ بینک کو بہتر بنا سکتی ہے۔

میاں معین الدین ریاض قریشی کے لیے یہ واقعہ خوشی کا باعث ہے اور اس منصوبہ بندی کا بھی کہ وہ اب نئی توانائی کے ساتھ میدان میں آئیں اور اپنے مخالفین کا سامنا کرنے کے علاوہ حلقے کے لوگوں کی خدمت کی روایت کو مزید آگے بڑھائیں۔ میں اپنے اس کالم کے توسط سے میاں صاحب کو ڈھیروں مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ ان کے شاندار مستقبل کے لیے دعا گو ہوں اور ان سے ملتمس ہوں کہ وہ گول باغ گل گشت کالونی میں ایک لائبریری اور مصنفین کی قیام گاہ کے انقلابی قدم سے ملک بھر کی مصنف کی برادری کی طرف سے اپنے لیے بے شمار محبت سمیٹیں کہ وہ ادب پرور والد پیر ریاض حسین قریشی کے فرزند ہیں۔

جن کی لائبریری معاصر رسائل اور نمائندہ ادبی کتابوں پر مشتمل تھی اور جن کی والدہ نے عمر بھر ملتان کی بچیوں کی تعلیم و تربیت میں صرف کر دی۔ اس کے علاوہ میری درخواست ہے کہ وہ گلگشت سے متصل گھڈہ گجر میں ایک نکاسئی آب کے منصوبے اور پرائمری سکول کے قیام سے غربت کی دلدل میں دھنسے اور ستائے ہوئے لوگوں کے بچوں کو بنیادی تعلیم کے حصول کی راہ فراہم کر کے ان کمزور دلوں میں خوشی کی قندیل روشن کریں۔

میاں صاحب اس شہر کے اکثر لوگ نہ ضمیر فروش ہیں اور نہ ہی مفاد پرست۔ ان کے دل آپ کی طرح حسد سے پاک ہیں اور نیت خرابی سے کوسوں دور ہے۔ یہ ملتان کے وہی لوگ ہیں جنہوں نے ہر قوم، نسل، مسلک کے لوگوں کو اپنی بستی میں پناہ دی۔ بھلے ایک وقت پر اس کے مارے ڈنک کی زہر سے خود اپنی مشکلات میں اضافہ کیا مگر یہ لوگ اپنے اندر موجود صوفیاء کی تربیت کے جوہر کی حفاظت کرتے ہیں۔ یہ دھوکا نہیں دیتے اور نہ ہی دھوکا دینے والے کی بے تکی حمایت کرتے ہیں۔ مجھے مکمل یقین ہے کہ گل گشت کی پھولوں بھری کیاریوں سے ڈیرہ اڈہ کے چاروں طرف دوڑتی زندگی کو آپ کا سیاسی اتحاد ترقی اور انسان دوستی کی نئی قدروں سے آشنا کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments