نیوٹن اور آئن سٹائن کے 24 گھنٹے!


کلاس میں پروفیسر صاحب کی آواز، ہر روز کی طرح آج بھی گونج رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ بلیک بورڈ پر ہندسے لکھے اور مٹائے جا رہے تھے۔ طالب علم پوری دلچسپی سے گنجلک فارمولوں سے حل کیے جانے والے معموں کے پیچ و خم میں کھوئے ہوئے تھے۔ انہماک کسے کہتے ہیں وہ یونیورسٹی بھر میں اس کلاس کا خاصہ بن چکا تھا کہ پڑھانے والا، اپنے اس فریضے کو آج تک ملازمت ماننے کا روادار نہ تھا۔ پھر طالب علم بھی، غیر محسوس طریقے سے، اسی کے راستے پر چل پڑے۔ اگر استاد کے اختیار میں ہوتا تو شاید وہ ان کلاسوں کو، کلاس کے مقررہ اوقات کی مروجہ قید سے کب کا آزاد کر چکا ہوتا۔ جب استاد کے لئے تدریس سانس لینے جیسا عمل بن چکا ہو، تو بھلا کون اس کے بغیر، کتنا وقت گزار سکتا ہے۔

اچانک کلاس میں نائب قاصد نے تیزی سے داخل ہو کر استاد سے سرگوشی کی۔ نائب قاصد کے چہرے پر غیر معمولی پریشانی نمایاں تھی تاہم، استاد کا چہرہ معمول کے ٹھہراؤ کو برقرار رکھے ہوا تھا۔ بات اہل خانہ اور بچوں کے حوالے سے تھی۔ استاد نے کلاس کے دروازے پر ایک سرسری نگاہ ڈال کر، دوبارہ اپنے لیکچر کا آغاز کیا۔ ایسے جیسے اس موڑ پر لیکچر درمیان میں چھوڑنا، طالب علموں کے لئے نقصان کا باعث نہ ہو۔

کلاس ختم ہونے میں پندرہ بیس منٹ اور لگے اور جب پروفیسر صاحب، نائب قاصد کے پیغام کے جواب میں، باہر رکھی کرسیوں کی طرف، اپنے جانتے، بہت تیزی سے گئے تو وہاں ان سے ملنے کے لئے اب کوئی موجود نہیں تھا۔

اس موقع پر پروفیسر صاحب سے کون (اور کیوں ) ملنے آیا تھا، اس کا تذکرہ ابھی باقی ہے، پہلے پروفیسر صاحب کو ایک اور ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔

اس وقت رات کا تقریباً آخری پہر ہے اور اب صبح ہونے میں بہت زیادہ انتظار باقی نہیں۔ یہی کوئی رات کا تین ساڑھے تین بجا ہے اور پروفیسر صاحب کافی بلندی پر واقع اس عمارت میں نہایت گہرائی کے ساتھ، کسی سائنسی الجھن کی گتھی سلجھانے میں کھوئے ہوئے ہیں۔ یہ ہرگز کوئی انوکھی یا کوئی انہونی بات نہیں جو وہ اتنی رات گئے، دفتر لگائے بیٹھے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ تنہائی اور خاموشی، یکسوئی میں حد درجہ اضافہ کر دیتی ہے اس لئے پیچیدہ امور کو جانچنے اور سمجھنے کے لئے، یہ اوقات صحیح معاون ہوسکتے ہیں اور ہوتے ہیں۔

یہ خلائی سائنس کا شعبہ ہے اور پروفیسر صاحب کی اس سے وابستگی اور لگاؤ کا اندازہ محض اس جملے سے لگایا جا سکتا ہے جو وہ اپنے اہل خانہ کو اس کی طرف روانہ ہوتے ہوئے اکثر کہا کرتے، کہ میرا انتظار نہ کیا جائے، میں تب آؤں گا، جب کام ختم ہو گا۔ سو اس کے بعد ان کی تلاش بے معنی تھی، مگر وہ جو اپنے کام میں کم اور دوسرے کے کام میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں، انھیں تو ایسے موقعوں کی ہی تلاش رہتی ہے۔ سینیئرز کو اکسایا تو جا سکتا ہے کہ آخر معلوم تو کیا جائے کہ وہاں ہوتا کیا ہے۔

بالا آخر، تعلیمی سربراہ میں یہ تجسس بیدار ہو ہی گیا اور ایک دن، رات ڈھلے، یا یوں کہیں کہ صبح سویرے وہ وہاں آ پہنچے مگر انھیں اکسانے والوں پر سوائے غصے کے، کچھ ہاتھ نہ آیا۔ وہ تو خود اب کام سے جنون کے گواہ اور شیدائی بن چکے تھے۔ پروفیسر صاحب نیند کو پس پشت ڈال کر، معمول کے مطابق، کسی اور علمی اور سائنسی نکات کے تعاقب میں غوطہ زن تھے۔

پروفیسر صاحب نے بن بتائے ( اور غیر متوقع ) آنے پر، افسر اعلی سے گلہ کچھ اور انداز سے کیا اور نہایت ادب اور احترام سے، اسے، اس طور، پروٹوکول کی خلاف ورزی قرار دیا کہ تعلیمی سربراہ تشریف لائے اور میزبان اتنا تہی دست ہو کہ چائے تک پیش نہ کر سکے۔

اتنے صاحب ذوق اور علم دوست پروفیسر کا گھر کیسے اس کے مزاج سے مختلف ہو سکتا ہے۔ اسٹڈی روم میں تین نامور علمی شخصیات کے بہت بڑے پورٹریٹ آویزاں رہے۔ جن پر ان کے اپنے قلم سے نہایت خوش خط تحریر میں ان کے مختصر حالات زندگی درج تھے۔ ان میں آئن سٹائن بھی شامل تھے جن کے شخصیت پر پروفیسر صاحب نے ڈاکٹریٹ کیا تھا۔

کسی نے ایک دن پروفیسر صاحب سے پوچھا کہ میں سائنس کا طالب علم نہیں ہوں، مجھے آپ کیسے قائل کریں گے کہ آئن سٹائن بہت بڑا آدمی تھا۔ پروفیسر صاحب کا جواب، بیک وقت، اختصار اور جامعیت کا عجب نمونہ تھا۔ انھوں نے کہا ”آئن سٹائن نے جو خواب دیکھا تھا، ڈاکٹر عبد السلام نے اسے پورا کرنے کی کوشش کی اور وہ اس کوشش میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوئے اور اس کوشش پر انھیں نوبل پرائز دیا گیا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس شخص کا خواب کتنا عظیم ہو گا کہ جس کی تکمیل نہ ہونے پر بھی نوبل پرائز کا حق بنتا ہو۔

سائنس کے میدان میں، پروفیسر صاحب کا بنیادی تعلق ریاضی سے بھی رہا۔ اسے وہ اپنی خوش قسمتی گردانتے ہیں کہ قدرت نے ان کے لیے زمانہ بدل دیا۔ یہ اشارہ وہ کمپیوٹر کی ایجاد، اس کے استعمال اور اس کے پھیلاؤ کی طرف کرتے ہیں جو درحقیقت ہندسوں کا ہی کھیل ہے اور اب علم و دانش کا سارا دار و مدار، اسی کی دسترس میں ہے۔

ان کے لئے ریٹائر منٹ بھی سرکاری اور غیر سرکاری ریکارڈ میں درج محض ایک لفظ ہے جس کا فکر و عمل سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ کراچی یونیورسٹی سے کب ریٹائر ہوئے، شاید انھیں یاد بھی نہ ہو کیوں کہ ان کی مصروفیت کا محض ماحول بدلا اور وہ اتنی ہی لگن، توانائی اور جز بے کے ساتھ نئے طالب علموں کے مقابل تھے۔ تدریس کے اس عظیم فریضے کے لئے انھیں علم کے متلاشی درکار رہے، خواہ عمارت کوئی سی ہو اور اس عمارت پر کوئی بھی نام نقش ہو۔ ایسا اس لئے بھی ہوا کہ بدلے ہوئے زمانے میں، ان کا علمی رجحان، سائنسی میلان، اور تدریسی پیمان، عصر حاضر کے تقاضوں سے بھی ہم آہنگ رہا۔

شاید یہی وجہ ہے کہ، آج بھی وہ اپنے طالب علموں کے سارے جوابات اپنی شاندار روایت کے مطابق نہایت دلچسپی مہارت اور پوری توجہ سے دیتے ہیں مگر اب وہ ہر طالب علم سے ایک سوال کا جواب خود بھی ڈھونڈ رہے ہیں اور وہ سوال یہ ہے کہ نیوٹن اور آئن سٹائن کے پاس بھی چوبیس گھنٹے تھے اور ہمارے پاس بھی چوبیس گھنٹے ہیں مگر یہ چوبیس گھنٹے، ان جیسے، چوبیس گھنٹے کیوں نہیں!

اب اگر ہم دوبارہ اس کلاس روم میں جائیں جہاں نائب قاصد نے پریشانی کے عالم میں پروفیسر صاحب کو آ کر کوئی پیغام دیا تھا تو شاید وہاں بھی، وہ وقت کی اسی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے، لیکچر پہلے ختم کرنے پر خود کو آمادہ نہ کر پائے۔ اور جب وہ کلاس کے بعد اس جگہ پہنچے تو ان کے اہل خانہ وہاں سے جا چکے تھے کیوں کہ بچی کے سر سے بہتے خون کے ساتھ زیادہ دیر انتظار کرنا ممکن نہ تھا۔

اپنے پیشے، فرض اور کام سے لگاؤ کی یہ ترغیب آمیز روداد کراچی یونیورسٹی ( اور بعد ازاں مختلف تعلیمی اداروں سے وابستہ ) پروفیسر ڈاکٹر جاوید قمر کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments