’شادی ضرور کریں لیکن کسی کے باپ سے نہیں‘: اداکارہ فرح سعدیہ کی ٹویٹ پر سوشل میڈیا پر دوسری شادی پر گرما گرم بحث


فائل فوٹو
’میں سمجھتا تھا کہ بہت سارا پیسہ دے دو تو مسائل حل ہو جاتے ہیں لیکن ایسا نہیں تھا۔ مجھے افسوس ہے کہ میں دونوں بیویوں کو مساوی وقت نہیں دے پاتا۔‘

یہ کہنا تھا دو شادیاں کرنے والے احمد علی (فرضی نام) کا۔ احمد کی پہلی شادی والدین نے اپنی پسند سے کروائی تھی۔ جبکہ دس برس بعد دوسری شادی انھوں نے اپنی مرضی سے محبت ہو جانے کے بعد کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’دوسری شادی جائز ہوتے ہوئے بھی ہمارے معاشرے میں ٹیبو کی حیثیت رکھتی ہے اور دو بیویوں والے افراد کو لوگ عجیب نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔‘

مرد کی دوسری شادی پر پاکستان کی ایک معروف اداکارہ اور اینکر فرح سعدیہ کی ایک ٹویٹ سوشل میڈیا پر بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔

فرح سعدیہ نے کہا کہ ’شادی ضرور کریں لیکن کسی کے باپ سے نہیں، آپ کو شوہر اور مل جائے گا، بچوں کو باپ نہیں ملے گا۔ اُس عورت پر ظلم نہ کریں جس نے اپنی جوانی اُس شخص کے بچے پیدا کرنے اور پالنے میں گزاری جب وہ کچھ نہیں تھا، گھر برباد مت کریں اگر آپ یہ ظلم کرتی ہیں تو اپنے لیے خیر کی اُمید نہ رکھیں۔‘

اداکارہ کی اس ٹویٹ کو جہاں کئی خواتین پسند کرتی دکھائی دیں تو کئی مرد حضرات انھیں کہتے نظر آئے کہ شادی ان کا ’شرعی حق‘ ہے۔ اور یہ کہ ’اگر مرد توازن پیدا کر سکتا ہے تو دوسری شادی کیوں نہ کریں۔‘

اداکارہ کی یہ ٹویٹ کئی ایسی خواتین کو ناگوار گزری ہے جو دوسری بیویاں ہیں کیونکہ ان کے بقول اس ٹویٹ میں انھیں ’ولن بنا کر پیش کیا گیا اور ان کی شادی جیسے جائز فعل کو ظلم قرار دیا گیا ہے۔‘

ہم نے ایسی ہی ایک ’دوسری بیوی‘ اور ان کے شوہر سے بات کی اور جاننا چاہا کہ کیا دوسری شادی ان کے لیے بھی اتنا ہی ناپسندیدہ عمل رہا۔

شادی

شراکت داری کر رہی ہوں تو کوئی محبت میں بھی شریک ہو گا

احمد کی پہلی شادی کو 19 اور دوسری شادی کو نو برس ہو چکے ہیں۔ وہ اپنی دونوں بیویوں کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتے ہیں۔

احمد کی دوسری بیوی ثمینہ (فرضی نام) ان سے عمر میں چھوٹی ہیں۔ دونوں نے پسند کی شادی ہے۔ ثمینہ کا کہنا تھا کہ اگرچہ انھیں لگتا تھا کہ تعلیم یافتہ اور ملازمت پیشہ ہونے کی وجہ سے وہ ہر طرح کی صورتحال کو سنبھال لیں گی تاہم احمد سے شادی کے لیے سب پہلے مخالفت تو ان کے اپنے گھر والوں اور رشتہ داروں کی جانب سے کی گئی۔

’مجھے کہا گیا کہ تم اس شخص کے بچوں اور پہلی بیوی کا حق مارو گی۔ تم ان کے باپ کو شیئر کر رہی ہو۔ مستقبل میں کیسے مینیج کرو گی۔ تمہارے بچوں کے لیے باپ کا پیار بٹ جائے گا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا ’آج میری شادی کو نو سال ہو گئے ہیں ہم دونوں کے دو دو بچے ہیں۔ چاروں بچے آپس میں پیار محبت سے رہتے ہیں۔ اور اس کا سہرا میرے شوہر کی پہلی بیوی کے سر بھی ہے کہ انھوں نے بھی بچوں میں کوئی فرق نہیں رکھا اور نہ کبھی میں نے ایسا کیا۔ ہم ایک گھر میں بہت اچھے طریقے سے رہتے ہیں۔‘

کیا ثمینہ اپنا شوہر شیئر کرنے پر تیار تھیں۔ اس سوال پر ثمینہ کا کہنا تھا کہ ’اگر میں ایک شخص کی پہلی بیوی کو اپنی زندگی میں شامل کر رہی ہوں، میں خود کسی سے شراکت داری کر رہی ہوں تو ظاہر ہے میری محبت اور احساسات میں بھی کوئی شریک ہو سکتا ہے۔‘

ان کا مسکراتے ہوئے کہنا تھا ’جب آپ کسی سے دوسری بیوی کی حیثیت سے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں تو آپ کے ٹو سر کر چکے ہوتے ہیں اس کے بعد چھوٹی چھوٹی چوٹیاں سر کرنا مشکل نہیں ہوتا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ شادی کے بعد خاندان کی تقریبات میں انھیں عجیب نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔ ان کے بقول ’لوگ ایسے دیکھتے کہ جیسے کوئی معیوب سی چیز آ گئی ہے یا کوئی مجرم بیٹھا ہوا ہے۔ لوگ ایسے دیکھتے کہ میں نظریں جھکانے اور یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتی کہ کیا میں نے کوئی گناہ کر لیا ہے؟ میں بہت ڈسٹرب ہو جاتی۔ آپ چاہے جتنے پڑھے لکھے ہوں لیکن جب ایسے منفی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو آپ حیران رہ جاتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان کی اور ان کے شوہر کی زندگی بہت پرامن ہے تاہم معاشرتی رویے کافی تکلیف دہ ہیں۔

جوڑا

سوکن لفظ کا استعمال گالی کی طرح

ثمینہ کو اعتراض ہے کہ کسی بھی شخص کی دوسری بیوی کے لیے جو لفظ استعمال ہوتا ہے اسے تقریباً گالی بنا دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا ’لوگ یہ بھی تو کہہ سکتے ہیں کہ یہ فلاں شخص کی دوسری بیوی ہے۔ ہمیشہ تحقیر والے انداز میں کہا جاتا ہے کہ یہ فلاں کی سوکن ہے۔ جس طرح یہ لفظ ادا کیا جاتا ہے اس کے لیے تکلیف بہت چھوٹا لفظ ہے، یہ اذیت ناک ہوتا ہے۔‘

ثمینہ کا کہنا تھا کہ ہر معاملے میں نہ پہلی بیوی مظلوم ہوتی ہے نہ دوسری بیوی ظالم۔ ’اگرچہ ساس سسر، خاندان والے حتیٰ کے معاشرہ بھی پہلی بیوی کے ساتھ ہوتا ہے لیکن اسے پھر بھی مظلوم سمجھا جاتا ہے۔ اور اب حد تو یہ ہے کہ سوکن اور دوسری بیوی جیسے الفظ بہت پیچھے رہ گئے ہیں بلکہ اب ’دوسری عورت‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ ہمارے ڈراموں اور میڈیا میں بھی یہی بیانیہ اختیار کیا گیا ہے۔‘

احمد کا کہنا تھا کہ ’میں بظاہر بہت کامیابی سے دونوں بیویوں کے ساتھ زندگی گزار رہا ہوں۔ دونوں ایک ہی گھر میں رہتی ہیں لیکن مجھے بہت کچھ مینیج کرنا پڑتا ہے۔ میرے معاشی اور جذباتی مسائل دوسروں سے زیادہ ہوتے ہیں۔‘

احمد کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ میں اپنی زندگی سے مطمئن ہوں لیکن میں اپنے دوستوں اور جاننے والوں کو یہی مشورہ دیتا ہوں کہ دوسری شادی مت کرنا کیونکہ یہ تقسیم کر دیتی ہے۔‘

پہلے بیوی بچوں کے قانونی حقوق

پاکستانی میں ایسی بے شمار کہانیاں سننے کو ملتی ہیں جہاں دوسری شادی کے بعد یا تو شوہر پہلی بیوی کو طلاق دے دیتے ہیں یا پھر ناچاقی کے بعد ان کا خرچ اٹھانا بند کر دیتے ہیں۔ ایسے میں پہلی بیوی یا تو خود ملازمت کرتی ہیں یا ان کے میکے والے ان کا اور ان کے بچوں کا خرچ اٹھاتے ہیں۔

پاکستانی قانون شوہر کو پہلی بیوی اور بچوں کا خرچ اٹھانے کا پابند بناتا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے وکیل سید وجہیہ الحسن کا کہنا ہے کہ ’1969 کے فیملی لا اور 1964 فیملی ایکٹ کے تحت مرد دوسری شادی کرے یا نہ کرے وہ قانونی طور پر دونوں صورتوں میں بیوی بجوں کی مینٹیننس یا نان نفقہ فراہم کرنے کا پابند ہے۔ اگر یہ خرچہ نکاح نامے پر لکھا ہے یا نہیں لکھا۔ مرد یہ خرچہ دینے کا پابند ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا ’اگر مرد پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کرتا ہے تو بیوی فیملی کورٹ میں پولی گیمی کا استغاثہ دائر کر سکتی ہے۔‘

مسلم فیملی لا آرڈیننس کے سیکشن سِکس میں لکھا ہے کہ ’قانونی تقاضا ہے کہ پہلی بیوی آربٹریشن کونسل کے چیئرمین کے سامنے پیش ہو کر باقاعدہ اپنے شوہر کو شادی کی اجازت دیتی ہے۔ لیکن اگر مرد اس اجازت کے بغیر شادی کرتا ہے تو اس کے خلاف پہلی بیوی شکایت درج کروا سکتی ہے۔‘

ایڈوکیٹ سید وجیہہ الحسن کا کہنا تھا ’شکایت کی صورت میں دوسری شادی تو ہرگز ختم نہیں ہوسکتی تاہم مرد کو چھ ماہ قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے تک کی سزا ہو سکتی ہے۔‘

تاہم انھوں نے واضح کیا کہ اکثر معاملات میں سزاؤں کی صورت میں پہلی بیوی کے ساتھ شادی خطرے میں پڑنے کے خدشے کے پیش نظر جرمانہ اور صلح صفائی ہو جاتی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’نان نفقہ کتنا ہو اس کا فیصلہ مرد کی آمدن کے حساب سے کیا جاتا ہے۔ عدالت یہ دیکھتی ہے کہ وہ کتنا خرچ برداشت کر سکتا ہے۔ عدالتی حکم کے باوجود اگر کوئی شخص نان نفقہ نہیں دیتا تو عدالت دس یا پندرہ دن تک مرد کو جیل بھیج سکتی ہے۔ دوسری صورت میں مرد کی جائیداد میں شامل چیزوں کو بیچ کر یہ خرچ دیا جاسکتا ہے۔ ‘

سوشل میڈیا ردعمل

فرح سعدیہ کی ٹویٹ کے ساتھ اتفاق اور اختلاف کرنے والوں کی کمی نہیں تھی۔

مبشر نامی صارف کا کہنا تھا ’بالکل سچ، مالی حالت بہتر ہونے اور دولت/جائیدادیں ضروریات سے کہیں زیادہ ہو جانے کے بعد بھی مردوں کو دوسری شادی نہیں کرنی چاہیے۔ اپنی بیوی سے محبت کریں جو مشکل وقت میں آپ کی ساتھی رہی ہے اس کی قسمت کی وجہ سے آپ کو یہ تمام کامیابیاں ملی ہیں۔‘

کرن ملک کا کہنا تھا کہ ’ہر عورت مظلوم بیوی نہیں ہوتی، کسی بھی رشتے کو تباہ کرنے والے عوامل دو طرفہ ہوتے ہیں۔ سب عورتیں ہی ظلم کا شکار نہیں ہوتیں بلکہ کچھ مرد بھی ہوتے ہیں۔ میں جانتی ہوں کئی گھر مردوں کے صبر کی وجہ سے چل رہے ہیں۔ گھر کوئی ایک شخص تباہ نہیں کرتا۔‘

عائشہ دوسری بیوی کی منفی تصویر کشی پر خوش نظر نہیں آئیں۔ ان کا کہنا تھا ’بصد احترام۔ کیا دوسری عورت صرف گھر ہی برباد کرسکتی ہے؟ ہمارے معاشرے میں کیونکر دوسری عورت کو جینے کا اختیار نہیں؟ کیا کوئی خیر کی توقع نہیں رکھی جا سکتی اس سے؟ فرح جی، یقین جانیے، آپ کو معاشرے میں ایسی مثالیں بھی ملیں گی، جہاں دوسری عورت گھر برباد نہیں کرتی، رشتوں کو سمیٹ لیتی ہے۔‘

جبکہ نوید کمبوہ کا موقف تھا کہ ’اسلامی احکام کے خیر کے پہلو بھی دیکھ لیا کریں۔ جو بچوں والی بیوہ اور مطلقہ ہیں ان سے بچوں والے مرد بنسبت غیر شادی شدہ مرد کے بخوشی نکاح کرتے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments