ڈاکٹر اے کیو خان۔ عالم برزخ میں (1)


محسن پاکستان ایٹم بم کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان 20 سالہ نظربندی کاٹ کر موت کو گلے لگا کر اپنے حقیقی رب سے جا ملے۔ عالم برزخ  میں پہنچتے ہی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا شاندار استقبال ہوا،

آپ ایک دم حسین جمیل شخصیت کے مالک، 20 سال کی عمر میں تگڑے دکھائی دیے، آپ کے آگے پیچھے حوریں غلمان کھڑے تھے، فرشتے آپ سے مصافحہ کرنے میں مصروف تھے، ۔

ڈاکٹر قدیر خان صاحب عالم برزخ میں پہلے ہی روز پاکستانیوں کے مہمان بنے۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو سمیت لاکھوں پاکستانیوں سمیت کروڑوں لوگوں نے ان کا والہانہ استقبال کیا۔ سفید ملبوس میں ہزاروں فرشتوں کے پروٹوکول میں جیسے ہی اے کیو خان کو لایا گیا تو اہلا و سہلا مرحبا، کے فلک شگاف نعرے گونج رہے تھے،

عالم برزخ میں ہر طرف عید کا سماں تھا۔

نظر بندی کی وجہ سے مسلسل نظر بند و قید ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو رہائی کا جیسے ہی ملک الموت عزرائیل علیہ السلام موت کا پروانہ لے کر آیا تو ایک سیکنڈ کی مہلت بھی نہ مانگی،

جیسے ہی آپ کو عرش معلیٰ پر لے جایا گیا، زمین درخت، دریا سمندر، پرندوں، جانوروں سمیت حیوانات نباتات عرشی فرشی مخلوق نے آپ کو الوداع کیا، پہلے ہی آسمان پر پہنچتے ہی، فرشتوں نے آپ کو سلام علیکم کہا،
آپ کو مبارکباد مبارکباد سلام سلام کہا گیا، ۔

آپ کی روح کو (عالم برزخ) منتقل کیا گیا۔ نماز جنازہ کے بعد آپ کے جسد خاکی کو فیصل مسجد کے برابر میں تدفین کیا گیا، قبر میں آپ کی روح واپس کردی گئی،

فرشتے با ادب با ملاحظہ کھڑے تھے،

آپ بالکل بھی نہیں گھبرائے، فرشتوں نے جنت کی کھڑکی کھول دی، تنگ قبر وسیع میدان کی طرح ہو گئی، جس میں پھول، سرسبز باغ، شہد دودھ کی نہریں بہ رہی تھی،

آپ کو جنت کی سیر کرائی جا رہی تھی، آپ دنیاوی زندگی کو بھول چکے تھے۔ آپ کی تھکاوٹ، تکلیف، پریشانی تک نہیں تھی،

آپ نے فرشتوں سے پوچھا آپ سوال کیوں نہیں کر رہے؟ مجھ سے جو پوچھنا ہے پوچھ لو۔
میں چور نہی ہوں نہ میں نے ایٹمی اثاثوں کے روز چوری کیے ہیں نہ ہی میں نے فارمولے بیچے ہیں۔
مجھے تو پھنسایا گیا ہے۔
میرے اپر الزام لگایا گیا ہے یقین جانیے میں بے قصور ہوں!
فرشتوں نے جواب دیا آپ پر اللہ تعالیٰ کی سلامتی ہو،

20 سالوں سے قید میں نظر بند تھے ہم آپ کو خوشخبری سناتے ہیں کہ آپ صالحین نیکو کار لوگوں میں شامل ہیں، ۔

ہم آپ سے کیا پوچھیں گے آپ کی گواہی تو 22 کروڑ پاکستانیوں نے دیدی ہے کہ آپ محسن پاکستان ہیں۔
آپ موجودہ مسلمانوں میں افضل ہیں، آپ وزیراعظم، صدر، جرنیل، علامہ، سب سے زیادہ افضل انسان ہیں،

ایک نیک عمل جو اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کو ایٹم بم دیا، امت مسلمہ کے دفاع کے لئے اسلحہ دیا، عالم کفر سے محفوظ بنایا آپ کے اس نیکی نے آپ کو اعلی بنا دیا ہے،

آپ کے استقبال کے لئے لاکھوں پاکستانی ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں کھڑے تھے۔ شاہ فیصل، کرنل قذافی، حمید گل سمیت نہ جانے ججز، جرنیل، علماء کرام، نامور سیاستدان آپ کے استقبال کرتے مصافحہ کرتے جاتے اور خیریت معلوم کر رہے تھے۔

پاک فوج کے شہدا کی لمبی قطاریں آپ کے خدمت میں حاضر تھی، جنرل حمید گل  نے آپ کو سلام کہا اور خوش آمدید کہتے ہوئے شہدا کی طرف سے خراج تحسین پیش کیا۔

روحوں نے آپ سے پہلے پوچھا کہ بتاؤ پاکستان کا کیا حال ہے؟
ڈاکٹر قدیر خان نے کہا کہ میں بیمار تھا ہسپتال میں تھا زندگی جینے کے لئے دعائیں مانگ رہا تھا۔

ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ گھر آیا طبعیت بگڑ گئی ہسپتال لایا گیا، عزرائیل علیہ السلام آیا، موت کا پیغام دیا، میں نے ہاں کردی،

آنکھیں بند کی اور کھولیں تو اپنے آپ کو یہاں آپ سب کے پاس پایا ہے، لیکن جو مزا مجھے موت کے بعد ملا ہے وہ زندگی میں کہا ہے۔ زندگی میں تو مجھے قید، نظر بندی، تکلیفیں، اذیتین برداشت کرنی پڑی، مجھے اندازہ بھی نہ تھا کہ خداداد پاکستان کے سپہ سالار اور صدر مشرف صاحب امریکا کی غلامی میں اتنا گر جائیں گے کہ میری زندگی کو داؤ پر لگا دیں گے، مجھے میری محبت کا یہ صلہ دیں گے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے ہنستے ہوئے کہا کہ اب آپ فکر نہ کریں آپ ہمارے ساتھ جنت میں داخل ہو چکے ہیں،

ساتھ میں کھڑے میر ظفر اللہ جمالی بولے کہ میں گواہ ہوں آپ کو امریکا کے حوالے کرنے سے میں رکاوٹ بنا اور مجھے اقتدار سے علیحدہ ہونے پڑا لیکن میں نے ظلم کا ساتھ نہیں دیا۔

ڈاکٹر قدیر خان کو دوسرے آسمان پر لے جایا گیا، جہاں پر انہیں خراج تحسین پیش کیا گیا، اسی طرح ایک آسمان سے دوسرے آسمان پر، ہوں جنت کی سیر کرائی گئی،

ڈاکٹر قدیر خان کو سامنے آسمان سے باتیں کرتی ہوئی آگ بھی نظر آئی،

پوچھنے پر فرشتوں کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ یہ آگ عام گناہگار لوگوں کے لئے نہی بلکہ وطن کے غداروں کے لئے ہے،

پاکستان کے وہ غدار حکمران بیوروکریٹ و دیگر جو اپنے اقتدار طاقت کے نشے اور تکبر غرور کے لئے ملک کو ٹکے دام پر نیلام کرتے ہیں، اپنے لوگوں کو بیچ دیتے ہیں، قومی غیرت ملک کی عزت کو داو پر لگا دیتے ہیں، ان میں وہ جلیں گے۔

ڈاکٹر اے کیو خان نے ایسی تیز آگ کبھی زندگی میں نہ دیکھی تھی نہ سنی تھی،
ڈاکٹر صاحب نے فرشتوں سے پوچھا یہ اتنی تیز اور خوفناک کیوں ہے۔ ؟

جواب دیا کہ آپ کے وطن عزیز کے غدار قوم کے لٹیروں کے لئے خاص آگ تیار کی گئی ہے، یہ آگ ان کے اعمال کا نتیجہ ہے، جو وہ دنیا میں کر کے آئے ہیں۔

ڈاکٹر قدیر خان نے کہا کہ شکر ہے کہ میں ملک کی خدمت کرنے والوں میں تھا نہ کہ ملک دشمن قوتوں میں شامل تھا، شکر الحمد للہ شکر الحمد للہ کہتے ہوئے پوچھا۔ کہ کوئی جلتا ہوا نظر کیوں نہیں آ رہا ہے؟ ؟

جواب ملا کہ یہ آگ ہی جلنے والوں کی ہے اس میں پاکستان کے کرپٹ ترین ہر سطح کے لوگ شامل ہیں،

اس آگ میں ملک کے غدار، ملک میں دوسرے لوگوں کا حق کھانے والے، میرٹ پر ڈاکے ڈالنے والے، رشوت پر فیصلہ کرنے والے ججز صاحبان، امریکا کے کے حوالے عافیہ صدیقی، ایمل کانسی سمیت سینکڑوں افراد کو بیچ کر ڈالر لینے والوں کا ٹھکانہ یہ جہنم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments