کیا بزنس سکول کاروبار کو درست پڑھا رہے ہیں؟


اکیسویں صدی میں ٹیکنالوجی اور مواصلات کی ترقی نے کاروبار کے لیے بے پناہ مواقع دیے ہیں، ٹیکنالوجی کی کئی چھوٹی کمپنیوں نے اپنے قیام کے کچھ عرصے میں ہی بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں، مثلاً اوبر، واٹس اپ، سکائپ وغیرہ۔ دوسری جانب یہ ترقی بزنسز کے لیے کئی نئے چیلنجز بھی لائی ہیں۔ کاروباری دنیا کی کئی بڑی کمپنیاں ٹیکنالوجی میں بڑا نام رکھنے کے باوجود ان تقاضوں کی صحیح سمجھ نہ ہونے کی وجہ سے یا وقت پر تبدیلی نہ لانے کے باعث ناکامی کا شکار ہوئی ہیں، مثلاً کو ڈک، نوکیا وغیرہ۔

اس صدی کا کاروبار نئے تقاضوں سے نبرد آزما ہے۔ دنیا سمٹ کر چھوٹی ہو گئی ہے، کمپنیوں کا مقابلہ اب عالمی سطح پر ہے۔ گاہک پہلے کی نسبت ہوشیار ہیں، آج خریدار انٹرنیٹ کے ذریعے مصنوعات کے بارے بہت کچھ جان سکتا ہے، وہ مختلف کمپنیوں کی تیار کردہ اشیا کا تقابلی جائزہ کر سکتا ہے۔ خریدار کا مصنوعات سے متعلقہ علم اور توقعات کمپنیوں کو اپنی مصنوعات بہتر کرنے پر کوشاں رکھتی ہیں۔ عالمی منڈی تک آسان رسائی اور مقابلہ، آؤٹ سورسنگ، ڈیجیٹل دور، علم اور ٹیکنالوجی پر مبنی معیشت اور نت نئی ایجادات نے کمپنیوں پر ایسا دباؤ ڈالا ہے کہ انہیں ہر دم ہوشیار، تیار اور عمل پیرا رہنا پڑتا ہے۔ نالج بیس ترقی ہونے کے باعث کوئی بھی کمپنی آگے نکل سکتی ہے۔ اگر ایک طرف بزنس کے لیے عالمی مواقع ہیں تو دوسری جانب کمپنیوں کو مسلسل غیر یقینی صورتحال کا بھی سامنا رہتا ہے۔

دنیا بھر میں انتظامی اور تنظیمی یعنی مینجمنٹ اور آرگنائزیشنل علوم بزنس سکولوں میں پڑھائے جا رہے ہیں۔ ان کورسز میں مینیجرز کو سکھایا جاتا ہے کہ مختلف کاروباری اکائیوں مثلاً سپلائرز، مارکیٹ، گاہک وغیرہ کے ساتھ کیسے کاروباری معاہدے اور تعلق پیدا کیے جائیں کہ آپ کی کمپنی کے لیے بہتر سے بہتر نتائج حاصل کیے جاسکیں۔ کسی بھی ادارے کی کارکردگی اس کے رہنماؤں کی سمجھ بوجھ، ادارے کی سوچ و حکمت عملی، ادارے میں اپنائے گئے کلچر، ادارے کی افرادی قوت کے ساتھ استوار کیے گئے تعلقات سب کے تابع ہوتی ہے۔

آپ کاروباری سکولوں میں بار بار نیٹ ورکنگ کی اہمیت اور ضرورت کو سنیں گے۔ دلچسپ بات ہے کہ نیٹ ورکنگ اور تعلقات اصل میں نفسیات اور عمرانیات کے علوم سے متعلقہ ہیں۔ اب جب کاروبار مختلف اقوام اور معاشروں کے لوگوں سے تعلق رکھتا ہے تو مختلف انسانی معاشرتوں اور رہن سہن کا علم ایک احسن تعلق بنانے کے لیے ضروری ہے۔ گلوبل ویلج نے نئے تقاضے اور چیلنجز پیش کیے ہیں جو کہ پہلے نہیں سوچے گئے تھے۔ کورونا وائرس اور اس کے عالمی اثرات اس کی ایک مثال ہیں۔ اسی طرح انتظامی اور تنظیمی علوم کے قوانین، اصول اور نظریات بھی موجودہ دور کی تیزی کا ساتھ نہیں دے پا رہے۔ انتظامی علوم کے محققین کو اس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ موجودہ پڑھائے جانے والے اصول و قوانین موثر طریقوں، بہتر انتظامی ڈھانچوں اور قابل مینیجرز بنانے میں ناکام ہیں [ 1 ]۔

موجودہ دور میں کئی بڑی کمپنیوں کے جھوٹ، اکاؤنٹس فراڈ اور دھوکہ دہی کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ عالمی سطح پر معیار کا نام رکھنے والی فوکس ویگن کمپنی نے اعتراف کیا کہ انہوں نے ایک کروڑ دس لاکھ سے زیادہ گاڑیوں میں دھویں کے اخراج کو چیک کرنے کے سسٹم کو دھوکہ دینے کے لیے پروگرامنگ کا سہارا لیا۔ یہ سافٹ ویر معائنے کے درمیان اچھے رزلٹ پیش کرتا تھا، جبکہ عام چلنے میں گاڑی قانونی حد سے زیادہ مضر صحت گیسوں کا اخراج کرتی تھی [ 2 ]۔

ایک اور مثال ایپل کمپنی کا صارفین کے علم میں لائے بغیر اپنے پرانے موبائل فونوں کی کارکردگی کم کرنا تھا۔ کمپنی کو اس بنا پر پچیس ملین یورو کا جرمانہ ہوا۔ اینرون، گلوبل کروسنگ، ٹائی کو انٹرنیشنل اور امکلون جیسی بڑی کمپنیوں کے فراڈ کاروباری دنیا کی اخلاقیات پر واضح سوال اٹھاتے ہیں۔ ان واقعات کے بعد مختلف بزنس سکولوں نے کاروباری اخلاقیات کے کورسز بنا کر پڑھانے شروع کیے ہیں مگر کیا یہ کورسز اس طرح کے واقعات کا سدباب کر سکتے ہیں؟

خصوصاً اگر بزنس سکولوں میں پڑھائی جانے والی تھیوریاں ہی ایسے واقعات کی ذمہ دار ہوں۔ اس کی ایک مثال ہ اور ڈ یونیورسٹی کے پروفیسر جینسن اور روچسٹر یونیورسٹی کے پروفیسر میکلنگ کی دی گئی ایجنسی تھیوری ہے جو دنیا بھر کے کاروباری سکولوں میں پڑھائی جاتی ہے۔ یہ تھیوری مینیجرز کی نیت پر شک کرتی ہے اور کہتی ہے کہ مینیجرز کو کمپنی میں شیئرز کی ملکیت دینے سے وہ بہتر کام کریں گے۔ اس تھیوری کو الزام دیا جاسکتا ہے کہ اس کی بنا پر کئی کمپنیوں کے مینیجرز نے ان سائیڈر ٹریڈنگ کے ذریعے اپنی کمپنیوں کے دیوالیہ ہونے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔

ایک اور مثال ہ اور ڈ بزنس سکول کے پروفیسر مائیکل پورٹر کا دیا گیا کاروباری مسابقت کا پانچ قوتوں کا ماڈل ہے جو دوسری کمپنیوں کے ساتھ ساتھ سپلائرز، انضباتی اداروں یعنی ریگولیٹرز، اپنے ملازمین اور حتی کہ خریداروں کو بھی مدمقابل جانتا ہے۔ ان تھیوریوں کا مطمح نظر صرف اور صرف منافع ہے اور یہ کئی مقامات پر انسانی اخلاقیات سے متصادم ہیں۔ یہ غیر اخلاقی تھیوریاں برسوں سے دنیا بھر کے بزنس سکولوں میں پڑھائی جا رہی ہیں اور اس کے نتائج سامنے آتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں اس کی ایک مثال ٹیلیکمیونیکیشن کمپنیوں کے مختلف پیکجزز تھے، خصوصاً نائٹ پیکجزز جن پر معاشرے کے مختلف کونوں سے آوازیں اٹھتی رہی مگر متعلقہ صاحب کا روباران اپنی بزنس سکولوں کی تربیت کے مطابق منافع کو اولین ترجیح دیتے رہے۔

ایک اور نکتہ قابل غور ہے کہ بزنس سکولوں نے اپنی تحقیق میں سائنسی طریقہ فکر کو اپنایا ہے۔ سائنس اور علم طبیعی میں تحقیق عمل اور ردعمل کے اصول پر چلتی ہے۔ ان تجربات میں گو ماحول اور مختلف اثر پذیر اکائیوں کو حتی المقدور ایک ہی رکھا جاتا مگر سوچ، اخلاقیات اور خیال ان تجربات پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ نوبل انعام یافتہ پروفیسر فریڈرچ فون ہائیک نے اپنے نوبل انعام کے لیکچر میں اس طبیعاتی نقطہ نظر پر تنقید کی [ 3 ]۔ ان کے بقول طبیعاتی سائنس کے طریقہ فکر کو ان شعبوں میں استعمال کرنا جہاں خیال اور سوچ واضح فرق ڈال سکیں بذات خود ایک غیر سائنسی عمل ہے اور اس کے تباہ کن اثرات ہیں۔ ان کے مطابق مختلف ممالک میں افراط زر کی وجہ حقیقت میں وہ پالیسیاں ہیں جو حکومتوں کو معاشی ماہرین تجویز کرتے رہے ہیں۔

مینجمنٹ کی زیادہ تھیوریاں فرد کے بارے میں ایک منفی رائے رکھتی ہیں اور اپنے لحاظ سے انسانی خامیوں کے اثرات کو کم کرنے اور ان پر قابو پانے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان تھیوریوں کے درست ہونے کا تعین کرنا مشکل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کو پڑھنے والے طالب علم اس تھیوری کو پڑھ کر اس سے اثر انداز ہوتے ہیں اور اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں پڑھی تھیوری پر عمل پیرا رہتے ہیں۔ اس جانبدارانہ رویے کی وجہ سے تھیوری کی درستگی پر سوالیہ نشان آ جاتا ہے۔ جرمن امریکی سائیکالوجسٹ کر ٹ لیون کے مطابق ”ایک اچھی تھیوری سے بہتر عملی چیز کوئی نہیں“ ۔ لندن سکول آف اکنامکس کے محقق پروفیسر گھوشال کے مطابق اسی بات کو ہم الٹ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایک بری تھیوری سے خطرناک چیز اور کوئی نہیں ہے [ 4 ]۔

سٹینفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر جیفری فایفر کے مطابق انسان اور انسانی اقدار کو نظر انداز کر کے صرف منافع کو کامیابی کی اکائی سمجھنے کی بنا پر انتظامی اور تنظیمی علوم کی تحقیق بری طرح متاثر ہوئی ہے [ 5 ]۔ ان کے مطابق اس منافع کی دوڑ نے اخلاقیات کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ وہ اپنے مضمون میں ایپل کے سٹیو جابز، فوکس نیوز کے راجر آیل اور ایمیزون کے جیف بیزوس کی بد تمیزیوں، منفی رویوں، ملازمین کے لیے کام کرنے کے برے ماحول اور استحصال کی بات کرتے ہیں، مگر چونکہ کاروباری سکولوں کے نزدیک صرف منافع ہی کامیابی کا پیمانہ ہے سو ہمیں ان افراد اور ان اداروں کی تعریفیں ہی سننے کو ملتی ہیں۔ آرگنائزیشنل تحقیق اگر سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹس میں ہوتی تو شاید معاملہ کچھ اور ہوتا کہ پھر انسان اور انسانی وقار بنیادی حیثیت لے جاتا۔ موجودہ بزنس سکولز میں کی جانے والی تحقیق منافع کو ماپنے میں انسان کو مشین کی مانند ایک پرزے کے طور پر لیتی ہے۔

کچھ محققین کے نزدیک انتظامی اور تنظیمی شعبوں میں سیر حاصل تحقیق نہ ہونے کی ایک وجہ بزنس سکولوں اور متعلقہ تحقیقی اداروں میں مقالے چھاپنے کا پریشر ہے۔ موجودہ تحقیق کو ہم اضافی زمرے میں لا سکتے ہیں جس میں موجودہ تھیوریوں پر سوال نہیں اٹھایا جا رہا بلکہ رائج تھیوریوں میں کچھ بڑھوتی اور کچھ کمی کی جانب تحقیقی کام شائع کروایا جاتا ہے۔ محققین کے ایک بڑی تعداد مقالے شائع کرنے کی کوشش میں اپنے شعبے میں کوئی نئی جہت لانے میں ناکام ہے۔ بزنس اور مینجمنٹ کے نام ور جرنلز میں مقالے رد ہونے کی شرح نوے فی صد کے قریب ہے۔ اس صورتحال میں نئے جہتیں جو کہ موجودہ تھیوریوں سے متصادم ہوں پیش کرنا مقالے کو رد کروانا ہی ہو گا۔

موجودہ دور میں ٹیکنالوجی کی ترقی، گلوبلائزیشن، افرادی قوت کا مختلف ملکوں میں پھیلاؤ اور جداگانہ پن، کاروبار کے نت نئے مواقع سب نے مل کر آرگنائزیشن اور مینجمنٹ کے روایتی ڈھانچے کو متاثر کیا ہے، مثلاً ای۔ کامرس کا کاروباری ڈھانچہ اور اس کی مختلف سطحیں پہلے کے کاروباروں سے بالکل فرق ہیں۔ اس بنا پر موجودہ دور کی تحقیق نئی سوچ اور مفروضات کی متقاضی ہے۔

اس مضمون میں پیش کردہ دلائل کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ مینجمنٹ کے شعبہ میں بامعنی تحقیق نہ ہونے کی وجوہات تحقیق شائع کرنے کی دوڑ، انسانی اور اخلاقی اقدار کی نظر اندازی، صرف منافع کے پیمانے پر سب کچھ تولنا، طبیعاتی تحقیق کی غلط پیروی، نئی جہتوں کی بجائے اضافی تحقیق پر انحصار اور ٹیکنالوجی کی برق رفتاری ہے۔ مگر تحقیق کے موجودہ ڈھانچے کو بدلنا آسان نہ ہو گا کیونکہ یہ کئی دہائیوں سے بزنس سکولوں میں پڑھایا جا رہا ہے اور پروفیسروں کی تعیناتی سے لے کر ترقیاں سب اسی سسٹم کے تابع ہے، نیز آج کے مینیجرز بھی اسی سسٹم کی پیداوار ہیں۔

مگر دوسری طرف آج اس سال خوردہ ذہنیت کے بدلنے کی بھی ضرورت ہے کہ مینجمنٹ تھیوریاں انسان کی خامیوں پر زور دے کر نہ بنائی جائیں اور ان میں قطعیت کے عنصر کو رد کیا جائے۔ انسانی نفسیات کو آرگنائزیشنل تحقیق میں زیادہ شامل کیا جائے۔ موجودہ سوچ میں تبدیلی لانے کے لیے ایک اجتماعی کوشش کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلے اس تبدیلی کی ضرورت اور اہمیت کا ادراک ہونا ضروری ہے۔ بزنس سکولوں کے بورڈ آف گورنرز، اساتذہ، تحقیقی جرنلز، بزنس سکولوں کے ڈونرز چاہے وہ انفرادی یا ادارے ہوں، سب کو مل کر اس ضرورت کو سمجھنا ہو گا۔ اس سمجھ کے بعد عملی اقدام کے ذریعے اس تبدیلی سوچ کی سرپرستی ہی مینجمنٹ اور آرگنائزیشن کے شعبے میں معنی خیز تحقیق کا موجب بن سکتی ہے۔ ترقی پذیر معاشروں کو بھی اندھی تقلید سے بچنا ہو گا کہ منافع کے لیے اخلاقیات کو نظر انداز کرنا معاشرے میں کئی مسائل، مشکلات اور انحطاط کا موجب ہے۔

عاطف ملک
Latest posts by عاطف ملک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاطف ملک

عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسڑن آسڑیلیا میں سکول آف کمپیوٹر سائنس اور سوفٹ وئیر انجینرنگ میں پڑھاتے ہیں ۔ پڑھانے، ادب، کھیل اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ طالبعلمی کے دور میں آپ نے اپنی یونیورسٹی کا400 میٹر کی دوڑ کا ریکارڈ قائم کیا تھا، جبکہ اپنے شوق سے کے-ٹو پہاڑ کے بیس کیمپ تک ٹریکنگ کر چکے ہیں۔

atif-mansoor has 74 posts and counting.See all posts by atif-mansoor

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments