انڈیا چین تنازع: انڈین نائب صدر کے اروناچل پردیش کے دورے پر چین ناراض، انڈیا اور چین کا اروناچل پردیش پر تنازع کیا ہے؟


انڈیا کے ساتھ چین کا سرحدی تنازع گذشتہ دو سالوں سے خبروں کی ذینت بنا ہوا اور اس میں حالیہ پیش رفت اس وقت ہوئی جب انڈیا کے نائب صدر وینکیانائیڈو کے اروناچل پردیش کے دورے پر چین نے اعتراض اٹھایا ہے۔

اپنے نو اکتوبر کے دورے میں انڈیا کے نائب صدر نے ریاستی اسمبلی سے خطاب کیا تھا اور اسمبلی کی لائبریری، آڈیٹوریم اور ریاستی دارالحکومت اٹانگر میں ایک پیپر ری سائیکلنگ یونٹ کا افتتاح بھی کیا تھا۔ اس دورے کے دوران اور گورنر اور وزیر اعلیٰ سمیت ریاستی قیادت سے ملاقات کی تھی۔

چین کے وزیر خارجہ نے بدھ کے روز میڈیا کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’چین اور انڈیا کی سرحد کے معاملے پر چین کا مؤقف مستقل اور واضح ہے۔

’چینی حکومت نے کبھی بھی نام نہاد ’اروناچل پردیش‘ کو تسلیم نہیں کیا جو انڈیا کی جانب سے یکطرفہ اور غیر قانونی طور پر قائم کیا گیا ہے اور ہم مذکورہ علاقے میں انڈین رہنما کے دورے کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں۔‘

چین کا دعویٰ ہے کہ انڈیا کے شمال مشرقی صوبے اروناچل پردیش میں 90 ہزار مربع کلومیٹر کا رقبہ تبت کا حصہ ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’چین انڈین فریق سے درخواست کرتا ہے کہ وہ چین کے خدشات کا احترام کرے، کوئی بھی ایسا اقدام نہ اٹھائے جس سے سرحدی مسئلہ پیچیدہ اور وسیع ہو، اور باہمی اعتماد اور دوطرفہ تعلقات کو نقصان پہنچانے سے گریز کرے۔‘

’اس کے برعکس چین اور انڈیا کی سرحدی علاقے میں امن اور استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے حقیقی اقدامات کرے اور چین اور انڈیا کے درمیان تعلقات کو درست اور مستحکم ترقی کی راہ پر واپس لانے میں مدد کرے۔‘

ادھر انڈیا کی طرف سے چین کے بیان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ ’ہم نے آج چین کے سرکاری ترجمان کے تبصرے کو نوٹ کیا ہے۔ ہم ایسے تبصروں کو مسترد کرتے ہیں۔‘

اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اروناچل پردیش انڈیا کا ایک لازمی حصہ ہے۔ انڈین رہنما معمول کے مطابق ریاست اروناچل پردیش کا سفر کرتے ہیں جیسا کہ وہ انڈیا کی کسی بھی دوسری ریاست میں کرتے ہیں۔

’انڈین رہنماؤں کے انڈیا کی ایک ریاست کے دورے پر اعتراض کرنا انڈین عوام کی عقل و فہم کے برعکس ہے۔‘

تبت کی تاریخ

انڈیا کے شمال مشرق میں واقع اس دور دراز علاقے میں بدھ مذہب کے لوگوں کی اکثریت ہے اور اسے دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے۔ تبت کو چین میں ایک خود مختار حصے کی حیثیت حاصل ہے۔

چین کا کہنا ہے کہ صدیوں سے اس خطے پر اس کی حکمرانی رہی ہے جبکہ تبت کے بہت سے باشندے اپنے جلاوطن روحانی پیشوا دلائی لامہ کے ساتھ اپنی وفاداری قائم رکھے ہوئے ہیں۔

دلائی لامہ کے پیروکاروں کی نظر میں وہ ایک ‘زندہ خدا’ کا درجہ رکھتے ہیں جبکہ چین انھیں ایک علیحدگی پسند اور اپنے لیے خطرہ تصور کرتا ہے۔

تبت کی تاریخ بہت ہنگامہ خیز رہی ہے۔ کبھی یہ ایک آزاد ریاست کے طور پر قائم رہی اور کبھی منگولیا اور چین کے طاقتور حکمرانوں نے اس پر حکومت کی۔

سنہ 1950 میں چین نے تبت پر قبضہ کرنے کے لیے ہزاروں فوجی اس علاقے میں بھیجے۔ تبت کے کچھ علاقوں کو خودمختار علاقوں میں تبدیل کر دیا گیا، اور باقی علاقوں کو اس سے ملحق چینی صوبوں کے ساتھ ملا دیا گیا۔

لیکن سنہ 1959 میں چین کے خلاف ناکام بغاوت کے بعد 14ویں دلائی لامہ کو تبت چھوڑ کر انڈیا میں پناہ لینی پڑی جہاں انھوں نے جلاوطن حکومت تشکیل دی۔ تبت کی بیشتر بدھ خانقاہیں سنہ 60 اور 70 کی دہائی میں چین کے ثقافتی انقلاب کے دوران تباہ کر دی گئیں۔

چین اور تبت کا تنازع کب شروع ہوا؟

چین اور تبت کے درمیان تنازعے کی وجہ تبت کی قانونی حیثیت ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ 13ویں صدی کے وسط سے تبت چین کا علاقہ رہا ہے۔ تاہم تبت میں رہنے والوں کا کہنا ہے کہ تبت کئی صدیوں تک ایک آزاد ملک تھا اور چین کا اس پر حق نہیں ہے۔

منگول بادشاہ قبلائی خان نے اپنے شاہی یوان خاندان اور سلطنت کو تبت ہی نہیں بلکہ چین، ویتنام اور کوریا تک پھیلایا تھا۔

پھر سترہویں صدی میں چین کے چنگ شاہی خاندان کے ساتھ تبت کے تعلقات قائم ہوئے۔ 260 برس کے رشتے کے بعد چنگ فوج نے تبت پر قبضہ کر لیا۔ لیکن تین برس کے اندر اسے تبت سے باہر کر دیا گیا اور 1912 میں دلائی لامہ نے تبت کی آزادی کا اعلان کیا۔

پھر 1951 میں چینی فوج نے ایک بار پھر تبت پر قبضہ کر کے کنٹرول حاصل کر لیا اور تبت سے ایک معاہدے پر دستخط کروا لیے جس کے تحت تبت کی خود مختاری چین کو سونپ دی گئی۔

دلائی لامہ انڈیا چلے گئے اور تبھی سے وہ تبت کی خود مختاری کے لیے کوشاں ہیں۔

چین، انڈیا

لہاسا: ایک ممنوعہ شہر

جب 1949 میں چین نے تبت پر قبضہ کیا تو اسے بیرونی دنیا سے بالکل الگ تھلگ کر دیا۔ تبت میں چینی فوج تعینات کر دی گئی۔ سیاسی حکومت میں دخل دیا گیا جس کی وجہ سے دلائی لامہ کو بھاگ کر انڈیا میں پناہ لینی پڑی۔

پھر تبت کو چینی رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کی گئی۔ تبت کی زبان، تہذیب، مذہب اور روایات سبھی کو بتدریج تبدیل کرنے کی کوشش شروع ہوئی۔ کسی باہر سے آنے والے شخص کو تبت اور دار الحکومت لہاسا جانے کی اجازت نہیں تھی۔ اس لیے اسے ‘ممنوعہ شہر’ بھی کہا جاتا ہے۔

غیر ملکی افراد کے تبت آنے پر 1963 میں پابندی عائد کی گئی تھی، تاہم 1971 میں تبت کے دروازے غیر ملکی افراد کے لیے کھول دیے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا چین لداخ سیکٹر میں ٹینکوں اور فوجی تعمیرات میں اضافہ کر رہا ہے؟

اروناچل کے قریب چین کا ریلوے منصوبہ انڈیا کے لیے باعث تشویش ہے؟

لداخ: ’فوج پیچھے ہٹانے کے معاہدے میں انڈیا نے کچھ نہیں کھویا‘

انڈین اور چینی فوجیوں کے درمیان سکم کی سرحد پر ’معمولی جھڑپ‘ ہوئی: انڈین آرمی

کیا تبت چین کا حصہ ہے؟

چین اور تبت کے تعلقات کے بارے میں کئی اہم سوالات اکثر لوگوں کے ذہن میں آتے ہیں۔ جیسے کہ کیا تبت چین کا حصہ ہے؟ چین کے کنٹرول سے پہلے تبت کیسا تھا؟ اس کے بعد کیا کیا بدل گیا؟

تبت کی برطرف حکومت کا کہنا ہے کہ ‘اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں کہ تاریخ کے مختلف دور میں تبت مختلف غیر ملکی طاقتوں کے زیر اثر رہا ہے۔ منگولوں، نیپال کے گورکھوں، چین کے منچو شاہی خاندان اور انڈیا پر راج کرنے والی برطانوی حکومت، سبھی کا تبت کی تاریخ میں کردار رہا ہے۔ لیکن تاریخ کے دوسرے حصوں میں ایک ایسا تبت بھی ملتا ہے جس نے اپنے ہمسایوں پر طاقت اور رسوخ کا استعمال کیا اور ان ہمسایوں میں چین بھی شامل تھا۔’

آج کے دور میں دنیا میں ایسا کوئی ایسا ملک تلاش کرنا مشکل ہے جس پر تاریخ کے کسی دور میں کسی غیر ملکی طاقت کا اثر یا قبضہ نہ رہا ہو۔ تبت کے معاملے میں غیر ملکی اثر یا دخل اندازی بہت ہی مختصر عرصے کے لیے رہی تھی۔

انڈیا، چین

جب انڈیا نے تبت کو چین کا حصہ مانا

جون 2003 میں انڈیا نے یہ باضابطہ طور پر قبول کر لیا تھا کہ تبت چین کا حصہ ہے۔

چین کے صدر جیانگ جیامن کے ساتھ اس وقت انڈیا کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی ملاقات کے بعد انڈیا نے پہلی بار تبت کو چین کا حصہ تسلیم کر لیا تھا۔ اس وقت اسے چین اور انڈیا کے رشتے میں ایک اہم قدم کے طور پر دیکھا گیا تھا۔

واجپائی اور جیانگ جیامن کے مذاکرات کے بعد چین نے بھی انڈیا کے ساتھ سِکم کے راستے تجارت کی شرط قبول کر لی تھی۔ تب اس قدم کو یوں دیکھا گیا کہ چین نے بھی سکم کو انڈیا کے علاقے کے طور پر تسلیم کر لیا ہے۔

انڈین اہلکاروں نے اس وقت کہا تھا کہ انڈیا نے پورے تبت کی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا ہے جو چین کا بڑا حصہ ہے۔ انڈیا نے صرف اس حصے کو تسلیم کیا ہے جو تبت کا خود مختار علاقہ تصور کیا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments