شہری نمبر 2


پاکستان میں آئے روز قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں قوانین میں ترامیم کے ذریعے تبدیلی لائی جاتی ہے کبھی میڈیا کی آزادی کو سلب کرنے کے لئے تو کبھی چائلڈ لیبر کبھی ماحولیاتی آلودگی تو کبھی عورتوں کے حقوق پر کبھی مذہبی ھم اھنگی تو کبھی بنیادی حقوق پر مگر ان سب سے زیادہ اگر شور سنا جاتا ہے تو وہ ہے اقلیتوں کے حقوق پر جہاں ایوان صدر سے لے کر وزیر اعظم تک پریس کانفرنسوں اور ٹویٹر کے ذریعے اقلیتوں کو قومی دھارے میں لانے کی باتیں ہوتی ہیں کبھی ان کو کوٹہ دینے کے حوالے سے تسلیاں دی جاتی ہیں مگر اقلیتیں مقدس امانت سے زیادہ مقدس گاۓ بنا کر رکھ دی گئی ہیں۔ 23 مارچ 1956 کے آئین سے لے کر 14 اگست 1973 کے آئین تک اقلیتوں کے حقوق آزادی کی ضمانت دی گئی ہے جو صرف ہر سال 11 اگست کو بجلی کے کھمبوں لگے بینروں تک محدود ہے. 1947 کی آئین ساز اسمبلی کے اہم رکن مولانا شبیر احمد عثمانی نے 1949 کو سردار عبدالرب نشتر اور ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کے ساتھ مل کر اقتدار اعلیٰ، جمہوریت، بنیادی حقوق اور اقلیتوں کے حقوق سے متعلق قرارداد مقاصد 12 مارچ 1949 کو آئین ساز اسمبلی سے منظور کرا لی۔

21 سے 24 جنوری 1951 تک کراچی میں مختلف مکاتب فکر کے ممتاز علمائے کرام کا کنونشن منعقد ہوا جس میں آئین سازی کے لیے 22 نکات پر تمام علمائے کرام نے مشترکہ طور پر منظوری دی۔ ان 22 نکات میں سے آرٹیکل 6 ۔7 بلا امتیاز مذہب و نسل بنیادی ضروریات کی گارنٹی دیتا ہے آرٹیکل نمبر 10 غیر مسلم اقلیتوں کو مذہب تعلیم روزگار اور رسم و رواج کی آزادی دیتا ہے مگر آج تک اقلیتوں کو روزگار کے نام پر درجہ چہارم یا درجہ دوئم کی نوکریوں کے سوا صرف نمائش کے طور پر پیش کیا۔ آزادی کے بجائے اقلیتوں کو مقدس امانت کے طور پر رکھا جاتا ہے لیکن اب تو اقلیتوں کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ اس لیے مذہبی اقلیتیں اپنی ماؤں بہنوں بیٹیوں کو محفوظ رکھنے کے لئے سرکاری سکولوں یا سرکاری تربیتی اداروں میں جانے سے کتراتی ہیں تاکہ کوئی شخص ان کی نوعمر بچی کے ایمان کو راتوں رات تبدیل نہ کرے۔

حالیہ چند برسوں میں جس طرح پنجاب خصوصاً سندھ میں جبری مذہب تبدیلی مذہب کی جو لہر چلی ہے وہ نہ صرف ریاست کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے بھی بڑا امتحان ہے۔ پنجاب اور سندھ میں نابالغ بچیوں کی شادیوں کے حوالے سے قانون کی موجودگی میں پولیس ہندو اور مسیح بچیوں کے معاملات میں نہ صرف ملزمان کا ساتھ دیتی ہے بلکہ تمام قانونی پیچیدگیوں میں سہولت کاری کا فریضہ بھی سرانجام دیتی ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی نوعمر مسلم بچی اپنی مرضی سے گھر سے بھاگ کر شادی کر لے تو نہ صرف ریاست بیدار ہو جاتی ہے بلکہ عدلیہ بھی قانون کی بالادستی کے لیے سیسہ پلائی دیوار بن جاتی ہے۔

انگریزی اخبار دی نیشن کی رپورٹ 2016 کے مطابق سندھ ہائی کورٹ کے جج کے کے آغا نے 16 نومبر 2016 کو خانیوال کی 17 سالہ اقصیٰ طارق کو یہ کہہ کر دارالامان بھیج دیا کہ سندھ چائیلڈ رسٹرنٹ میرج ایکٹ کے تحت 18 سال سے کم عمر بچی کی شادی غیر قانونی ہے۔ ڈان اخبار کی 12 نومبر 2017 کی رپورٹ کے مطابق ایس ایچ او قائدآباد میں وارڈ نمبر 7 سندھ سے ایک دس سالہ بچی کو اس وقت چھاپہ مار کر برآمد کیا جب اس کی شادی چالیس سالہ شخص سے ہو رہی تھی مگر پولیس نے وقت سے پہلے ہی لڑکی کے والد کے خلاف سندھ کے چائلڈ رسٹرنٹ میرج ایکٹ کے تحت ایف آئی آر درج کی۔ سماجی رابطہ کی ویب سائٹ سماء کی 28 جنوری 2021 کی رپورٹ کے مطابق سندھ کے علاقے کوٹ دھنیال تھانہ خیر پور کی پولیس نے 13 سالہ دلہن اور 14 سالہ دلہا سمیت 20 افراد کو گرفتار کرکے ان کے خلاف سندھ چائلڈ رسٹرنٹ میرج ایکٹ کے تحت پہلی اطلاعی رپورٹ درج کی جس پر ایس ایس پی سعد مگسی نے پیرجو گوٹھ میں کم عمر شادی کے قانون کے خلاف ورزی پر نوٹس لیا، 21 جون 2021 کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ کے رپورٹر رانا شاکر نے کہا کہ لودھراں کی پولیس نے شادی کی تقریب پر چھاپا مار کر گیارہ سالہ دلہن اور 35 سالہ دلہا کو گرفتار کر کے سات لوگوں کے خلاف پنجاب چائلڈ میرج رسٹرنٹ ایکٹ کے تحت ایف آئی آر درج کی۔ سندھ چائلڈ میرج رسٹرنٹ ایکٹ کی سیکشن 3 کے مطابق کم عمر بچوں کی شادی پر پابندی عائد کردی گئی جس میں واضح کیا گیا کہ 18 سال سے زائد شخص بچوں اور بچیوں کی شادی کا اگر معاہدہ کرے گا تو اسے تین سال سخت قید کی سزا ہوگی یا دو سال۔ سیکشن 2 کے مطابق قانون میں غفلت برتنے پر کم عمر شادی کو سنجیدگی سے نہ روکنے والا شخص غفلت کا مرتکب ہوگا۔

ان قوانین کی موجودگی میں پنجاب اور سندھ میں ہندو اور مسیحی بچیوں کی جبری شادیوں کا سلسلہ تسلسل سے جاری ہے جس پر ریاست اقلیتی بچوں کے معاملے میں خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے گزشتہ ماہ ستمبر میں نیشنل کمیشن برائے اقلیت نے صدر پاکستان عزت مآب عارف علوی سے ایوان صدر میں چیئرمین چیلا رام کی قیادت میں ملاقات کی اور اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ ملاقات کے بعد میڈیا ٹاک میں چیلا رام نے واضح طور پر ریاست کے بارے میں اطمینان کا اظہار کیا۔ ستمبر 2021 ہی میں اسلامی نظریاتی کونسل کا اہم اجلاس چیئرمین قبلہ ایاز کی سربراہی میں ہوا جس میں غیر مسلم بچیوں کی جبری تبدیلی مذہب اور کم عمر شادی کے موضوع پر بات چیت ہوئی۔ اس اہم اجلاس میں سندھ سے خاص طور پر میاں مٹھو کو مدعو کر کے اسلامی نظریاتی کونسل سے پیغام دیا گیا کہ اقلیتیں صرف شہری نمبر2 ہیں۔

ان تمام قوانین کی پاسداری صرف نو عمر مسلم بچیوں کے لیے ہیں۔ اس اجلاس نے متفقہ طور سے وزارت مذہبی امور وبین المذاہب ہم آہنگی کی جبری تبدیلی مذہب اور شادی کی سفارشات کو مسترد کردیا جس کو بعد ازاں وزارت مذہبی امور کے وزیر نور الحق قادری نے من و عن قبول کیا۔ کیا ریاست، جو ماں ہے، اپنے بچوں سے منہ موڑ کر انہیں نمبر2 ہونے کا پیغام کیوں دے رہی ہے؟ کیا میاں مٹھو جیسے افراد ریاست سے زیادہ طاقتور ہیں یا صرف ریاست اقلیتوں کے نام پر بیرونی ممالک سے معاہدوں اور فنڈ تک محدود ہے جس کے لیے ہر پارٹی نے اقلیتوں کے زرخرید غلام رکھے ہوئے ہیں جو ہر دور میں اقلیتوں کی نمائندگی کے پردے میں اپنے فائدے کی بات کرتے ہیں چاہے وہ نیشنل کمیشن برائے اطفال ہو یا عورتوں کے حقوق پر کام کرنے والی قومی کمیشن، وزارت مذہبی امور وبین المذاہب ہم آہنگی ہو یا انسانی حقوق کی وزارت ان سب کے نزدیک اقلیتں شہری نمبر 2 ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments