ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ اور پاکستانی ٹیم


پاکستان میں کرکٹ صرف ایک کھیل کا نام نہیں ہے۔ اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ کرکٹ کا میچ ہو اور مد مقابل بھارت ہو تو پھر پوری قوم سبز ہلالی پرچم کی فتح کی دعائیں کرتی ہے۔ پاکستان کی ٹیم کچھ بھی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور بلا شبہ ٹی ٹونٹی کی بہترین ٹیم ہے۔ لیکن میرے خیال میں اگر پاکستانی ٹیم میں کچھ تبدیلیاں کر دی جاتی تو نتیجہ اور مختلف ہو سکتا تھا۔ جیسے شاہد آفریدی سے درخواست کی جاتی وہ اس ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کی قیادت کریں اور پاکستان کو 2009 کے ورلڈ کپ کی طرح فتح سے ہمکنار کریں۔

یقیناً شاہد آفریدی پاکستان سے انمٹ محبت کرنے والے انسان ہیں۔ وہ کبھی بھی انکار نہ کرتے۔ اسی طرح اگر محمد عامر کے گلے شکوے دور کیے جاتے ان کو ٹیم میں رکھا جاتا تو یقیناً اس کا ٹیم کو بہت فائدہ ہو سکتا تھا۔ اسی طرح اگر وہاب ریاض کو ٹیم میں شامل کیا جاتا ان کے پاس کرکٹ کا وسیع تجربہ موجود ہے اور اس میں کوئی شک نہیں وہ اس وقت بھی دنیا کے کسی بھی بلے باز کو کھل کر کھیلنے کا موقع نہیں دیتے اور پھر ان کے پاس بیٹنگ کرنے کی اضافی صلاحیت بھی موجود ہے۔

افتخار احمد کو لازمی ٹیم میں ہونا چاہیے تھا انہوں نے اپنی کارکردگی سے خیبر پختونخوا کو قومی ٹی ٹوئنٹی چیمپیئن بنوایا انہوں نے اس ٹی ٹوئنٹی کپ میں بارہ میچ کھیلے آٹھ مرتبہ ناٹ آؤٹ رہے کل 409 رنز بنائے ان کا اسٹرائیک ریٹ 170 تھا۔ 36 چوکے اور 22 چھکے لگائے۔ ان کے پاس بولنگ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ وہ آصف علی کی جگہ بہترین چوائس ہو سکتے تھے۔ جب انہوں نے فائنل میچ میں اپنی ٹیم کی کامیابی کے لئے وننگ شارٹ کھیلا تو ان کا جارحانہ انداز دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔

وہ عموماً اس طرح کا رویہ نہیں اپناتے لیکن یقیناً وہ قومی سلیکٹر کو بہت کچھ کہہ گئے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی ہمیشہ سے آمرانہ پالیسی رہی ہے۔ ہمارا کرکٹ بورڈ کھلاڑیوں کے مسائل کو نہیں سمجھتا۔ کئی بڑے بڑے نام اسی طرح ضائع ہو گئے۔ نیشنل ٹی ٹونٹی میں ایسے کھلاڑیوں کو کھیلنے کا موقع دیا جا رہا ہے۔ جو ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ ان کھلاڑیوں کو ٹیسٹ ٹیم میں بھی شامل نہیں کیا جاتا اور پھر ہمارے کھلاڑی بھی ایسے ہی ہیں جن کو جب تک کرکٹ بورڈ دھکے دے کر نہ نکالے وہ بھی جانے کا نام نہیں لیتے۔

میرے خیال میں نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ میں اور پی ایس ایل میں صرف ان کھلاڑیوں کو موقع دینا چاہیے جو ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کے اہل ہیں۔ جو ٹیم اب سلیکٹ کی گئی ہے۔ اب وہ بھی انشاءاللہ اچھے نتائج دے گی۔ میری نظر میں پاکستان بھارت ویسٹ انڈیز اور انگلینڈ چار ٹاپ ٹیمیں ہوں گی۔ فائنل جیتنے کے امکانات انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کے زیادہ ہیں۔ بھارت نے اشوان کو ٹیم میں شامل کیا ہے وہ گزشتہ چار سال سے ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں شامل نہیں تھے۔

اس کے مقابلے میں پاکستان نے محمد عامر کو صرف اس وجہ سے ٹیم سے نکال دیا کیونکہ انہوں نے ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے سے انکار کر دیا۔ اب دنیا بھر میں کرکٹ بہت زیادہ ہو چکی ہے ہر کھلاڑی چاہتا ہے اس کا کیریئر لمبا ہو۔ محمد عامر کے پانچ سال پہلے ہی ضائع ہو چکے ہیں۔ ابھی اس کو اگر ہمارا کرکٹ بورڈ اپنا ایک اثاثہ سمجھتا تو یقیناً اس کو بڑی احتیاط سے استعمال کرتے۔ مگر ہمارے کرکٹ بورڈ میں آمرانہ ذہنیت موجود ہے۔ وہ چاہتے ہیں صرف ان کی بات سنی اور مانی جائے۔

کرکٹ ورلڈ کپ کے لیے قومی سلیکشن کمیٹی نے جلد بازی میں ٹیم کا اعلان کر دیا جبکہ ابھی قومی ٹی ٹونٹی کپ ہو رہا تھا۔ کم ازکم اس کے نتائج دیکھ ہی لیتے۔ لیکن قومی سلیکشن کمیٹی کو اس بات کا احساس ہو گیا اور پھر یوٹرن لے لیا۔ شعیب ملک محمد حفیظ اور سرفراز احمد کے آنے سے یقیناً قومی ٹیم کو بہت فائدہ ہو گا۔ فخر زمان اوپننگ بلے باز ہے۔ اس کو اسی نمبر پر کھلانا چاہیے۔ حارث رؤف کی جگہ اگر وہاب ریاض کو کھلایا جاتا اس کا ٹیم کو بہت فائدہ ہوتا۔ کیونکہ وہاب ریاض کے پاس ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کا وسیع تجربہ بھی موجود ہے اس کے پاس ورائٹی بھی موجود ہے اور تیز گیند بازی کی صلاحیت بھی موجود ہے۔ صرف شرٹ پر 150 لکھنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ وہاب ریاض حارث رؤف کے مقابلے میں تیز گیند کرتا ہے اور پھر وہاب ریاض بڑے شارٹ بھی کھیل سکتا ہے۔ کرکٹ بورڈ کی سلیکشن کمیٹی لاکھوں روپے ماہوار لیتی ہے۔ لیکن نہ جانے کیوں ایک ایک کھلاڑی کی سلیکشن پر اس طرح محنت نہیں کی جاتی جس طرح کرنی چاہیے۔

قومی کرکٹ بورڈ میں پسند ناپسند کی ڈپلومیسی بہت چلتی ہے۔ جب آپ قومی ٹیم کو منتخب کرتے ہیں تو آپ کو ایک ایک کھلاڑی کے ایک ایک نقطہ پر محنت کرنی چاہیے۔ گزشتہ بیس پچیس میچوں کے نتائج سامنے رکھیں۔ ہر کھلاڑی کا جائزہ لیں۔ بلے بازوں کی الگ فہرست بنائیں اور دیکھیں کون سا بلے باز کس نمبر پر اس طرح کھیلتا ہے۔ تیز گیند باز کو کیسے کھیلتا ہے اور دھیمے گیند باز کو کیسے کھیلتا ہے۔ گزشتہ بیس باریوں میں وہ کس کس طرح آؤٹ ہوا ہے۔

کون کون سی اس کی کمزوریاں ہیں ان تمام باتوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ اسی طرح ہمارے جو گیند باز ہیں ان کی گزشتہ بیس باریوں میں کیا صورتحال رہی۔ کون سا گیند باز ابتدائی اور کرا سکتا ہے۔ کون سا آخری اور اچھے کراتا ہے۔ جب میچ پھنسا ہوا ہو تو کون سا گیند باز وقار یونس اور وسیم اکرم کی یاد تازہ کر سکتا ہے۔ یہ سب باتیں ایک کرکٹ تجزیہ کار کی ہوتی ہیں۔ جو کہ کرکٹ بورڈ میں موجود ہوتا ہے اور وہ لاکھوں میں تنخواہ لیتا ہے۔

لیکن ہمارے کرکٹ بورڈ میں محنت سے کام کرنے کی عادت ذرا کم ہے۔ یہی وجہ ہے جب بھی کسی ٹیم کا اعلان ہوتا ہے تو پھر بار بار تبدیلیاں کی جاتی ہیں اور یہ تبدیلیاں سوشل میڈیا کی تنقید کے بعد سامنے آتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں بطور ایک پاکستانی کے ہر شخص پاکستان کی فتح کے لیے دعا کرے گا اور اس کی خواہش ہوگی پاکستان کی ٹیم ورلڈ کپ میں کامیابی حاصل کرے اور ہماری ٹیم کچھ بھی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ بہت اچھے نتائج بھی دے سکتی ہے یعنی قوم کو حیران بھی کر سکتی ہے اور کسی بھی وقت بہت برے نتائج دے کر قوم کو پریشان بھی کر سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments