ٹھنڈا گوشت اور صحافی


سینئر صحافی فخر درانی نے ٹویٹر پر ایک صحافی کی تنگ حالی کی داستان شیئر کی ہوئی تھی۔ جو ان کی ٹائم لائن سے کاپی کر کے ہی آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ ایک صحافی نے ایک دوسرے صحافی سے درخواست کی کیا وہ کچھ دن اس کے ساتھ رہ سکتا ہے۔ صحافی نے کہا رہنے میں تو کوئی حرج نہیں مگر تمہاری تو فیملی بھی ادھر نہیں رہتی؟ تو اس نے جواب دیا بچوں کا سامنا نہیں کر سکتا، گھر جاتا ہوں تو بچے کہتے ہیں یونیفارم اور فیس نہ ہونے کی وجہ سے وہ ہر روز کلاس سے باہر نکالے جاتے ہیں۔ فخر درانی بتاتے ہیں انہوں نے بہت کوشش کی کہ اس صحافی کا نام پتہ چل سکے مگر اس نے دوست سے نام نہ بتانے کا وعدہ لیا ہوا تھا۔

یہ واقعہ پڑھ کر مجھے منٹو صاحب کا افسانہ ٹھنڈا گوشت یاد آ گیا۔ اس افسانے کے کردار ایشر سنگھ، کلونت کور اور مظلوم لڑکی آج کل کے صحافتی حالات کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔ ایشر سنگھ دراصل میڈیا مالکان ہیں کہ جو اپنی دولت اور اختیار کے زعم میں کرپان اٹھائے معاشی قتل کرنے میں لگے ہیں۔ جبکہ کلونت کور کا کردار پاکستانی صحافتی تنظیموں کے نام نہاد عہدیدار ادا کر رہے ہیں جو نہ صرف ان مالکان کو شہ دینے بلکہ وقت آنے پر ان کی رکھیل بننے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

جو پس رہا ہے یا کٹ رہا ہے وہ عام صحافی ہے۔ 2018 کے بعد کے حالات تو دراصل صحافیوں کے لئے وہی حالات ثابت ہوئے جو تقسیم ہند کے بعد بھارت سے ہجرت کرنے یا رہ جانے والے مسلمانوں کے ساتھ ہوئے۔ مالکان نے دھڑا دھڑا اخبارات، چینلز پر ڈاؤن سائزنگ اور بندش جیسے اقدامات نما بلوے بولے۔ یوں کئی صحافیوں کا معاشی قتل عام کیا گیا۔ کئی اس معاشی قتل عام کے سہمے صحافی خود ہی اس فیلڈ سے ہجرت کے چکر میں مستعفی ہوئے اور مہینوں بے روزگار بیٹھے۔

یہاں ہمارے حقوق کی آواز اٹھانے کے نام پر بنی صحافتی تنظیمیں اور پریس کلبز نے تو (سوائے ایمرا کے ) دراصل کلونت کور والا ہی پیشہ اپنایا۔ ان کے عہدیداروں نے تو نہ صرف مالکان کی پیٹھ تھپکی بلکہ ان اقدامات کی دبے لفظوں میں حمایت بھی کی۔ کیا میرے کسی دوست صحافی یا پھر کسی عام قاری نے یہ سنا یا پڑھا کہ کسی صحافتی تنظیم کے عہدیدار کو کسی چینل یا اخبار نے نکالا ہو؟ میرے تو علم میں ایسی کوئی بات نہیں آئی ہے ابھی تک۔ حالات تو یہ تھے کہ ایک طرف حکومت مہنگائی کے بم گرا رہی تھی، پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لئے تگ و دو بڑھتی جا رہی تھی۔

کئی صحافتی دوست نکالے جانے پر دلبرداشتہ ہو کر یا تو چل بسے یا پھر بیماریوں کا شکار ہوئے۔ جو ملازمت پر رہے وہ تنخواہوں کی کئی کئی ماہ عدم ادائیگی اور کٹوتیوں کی وجہ سے درجنوں بیماریوں کا شکار بن گئے۔ کسی کی سفید پوشی کا بھرم نہ ٹوٹے وگرنہ میں نام اور ادارے اور بیماریوں کی تفصیلات بھی بیان کر سکتا ہوں۔ کئی دوست ایسے ہیں جو گاڑیوں پر تھے تو وہ موٹرسائیکلوں پر آ گئے۔ کئی جو موٹرسائیکلوں پر تھے وہ لفٹ لینے لگ گئے۔ باقی ماندہ اوبر یا بائیکیا یا پھر فوڈ پانڈا کی ڈیلیوری سروس میں لگ گئے۔

کئی دوستوں نے تو پرچون کی دکانیں لگائی ہوئی ہیں۔ ایسے ایسے سینئر نام بھی میں یہاں بتا سکتا جو ٹکر آپریٹر اور کاپی ایڈیٹر کی معمولی نوکری اور تنخواہ کے لئے انٹرویو دیتے پائے گئے۔ اس وقت میں پوری ذمہ داری کے ساتھ یہ دعوی کر سکتا کہ میڈیا انڈسٹری کے 95 فیصد صحافتی ملازمین کی تنخواہیں 25 ہزار سے بھی کم ہیں، باقی ماندہ چار فیصد کی تنخواہیں 60 ہزار سے کم ہیں۔ ایک فیصد طبقہ وہ ہے جس کی تنخواہیں لاکھوں میں ہیں اور ان میں سے اکثریت تنظیموں کے عہدیدار، انتظامی افسران جو کہ مالکان کے ہی مفادات کے تحفظ میں لگے ہوتے ہیں کی ہے۔

یقین مانیں میں نے کسی عہدیدار کو گاڑی سے کم کی سواری پر پھرتے نہیں دیکھا ہے پیٹرول چاہے 200 روپے لیٹر ہو جائے۔ ان کے بچے بڑے بڑے سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان کا کوئی کام نہیں رکتا ہے۔ شروع شروع میں تو برائے نام مائیک اٹھانے کی مہم کا آغاز کیا گیا۔ وہ بھی دراصل جن عہدیداروں کی جانب سے کیا جاتا تھا انہی کے اپنے ادارے تنخواہیں نہیں ادا کر رہے تھے۔ یہاں ایک اور بات صرف چند ایک عہدیداروں کے علاوہ مجال ہے کوئی دفتر میں پاؤں بھی رکھتا ہو۔

ان عہدیداروں کی مالکان کے ساتھ وفاداری اور گہرا تعلق ایسے ہی ہے جیسے ایشر سنگھ سے کلونت کور کا تھا۔ ہاں کلونت کور نے تو چلو جلن کے مارے ایشر سنگھ کو کرپان سے مار کر مار دیا مگر ہماری کسی تنظیم کے ساتھی میں تو شاید اتنا ایک احساس بھی باقی نہیں رہا ہے۔ سعادت حسن منٹو کی روح اور ان کے چاہنے والوں سے اس تحریر کا عنوان اور اس کے کرداروں کے کاپی کرنے پر دل سے معذرت، میری تو یہ اوقات ہی نہیں کہ میں نے پائے کا لکھ سکوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments