اکثر لوگ مکڑیوں کو ہلاک کرنے والوں کو برا کیوں نہیں سمجھتے


امریکی ریاست نیو ہیمشائر میں اب سرکاری اعلان کے مطابق باقاعدہ طور پر حیوانِ عنکبوت (یعنی عنکبَہ، مَکڑی، جُوں اور بِچھُّو وَغيرَہ جیسے حشرات الارض) کے موسم کا آغاز ہو چکا ہے۔ یہاں گھروں میں لاکھوں کی تعداد میں مکڑیاں نمودار ہو رہی ہیں اور ان کے لیے بہتر ہے کہ وہ اپنی حفاظت کریں۔ لیکن ہم انھیں یوں ہی بڑے آرام کے ساتھ کیوں مار دیتے ہیں؟

میں نے جیسے ہی اپنے گھر میں داخل ہونے والا دروازہ کھولا میں نے اپنے آپ کو ذہنی طور پر آنے والی ایک رکاوٹ کے لیے تیار کر لیا۔

سب سے پہلے مجھے گھر کے گارڈن والے شیڈ میں بنے سٹور سے کسی شہ کو لانا تھا۔ چوہوں کے چھوٹے بچوں کے سائیز کے برابر بد ہیبت مکڑیوں کی آماجگاہ جہاں یہ اپنی لمبی تڑنگی ٹانگوں پر لگے ہوئے نرم نرم بالوں کے ساتھ گھوم پھر رہی ہوتی ہیں۔ پھر مجھے بچھو جیسی شکل کے گُھن کے کیڑوں سے احتیاط کے ساتھ بچتے بچاتے زمین پر لگی ہوئی چند سلیبز کو ہٹانا پڑتا ہے، جنھوں نے ان کے نیچے اپنے گھر بنائے ہوئے ہوتے ہیں۔ پھر میں نے اپنے گھر میں گلِ یاسمین کی باڑ کو بنایا تاکہ وہ کہیں ان حشرات کی زد میں نہ آجائیں جو ان پودوں کے اوپر چڑھ سکتے ہیں۔

بالآخر میں اپنے گھر کے صحن میں پہنچ گیا۔ اور جب میں یہاں پہنچا تو میں سکتے میں آگیا۔ وہاں کے فرش پر میں نے کسی دھاری دار سڑے ہوئے کیڑے کو اپنی لمبی لمبی ٹانگیں پھیلائے ہوئے مردہ حالت میں دیکھا۔ اس طرح کی تصویر پیش کرنے والے حشرات میرے گھر کے باغ میں گذشتہ تین برس سے اکثر و بیشتر اس قسم کے نقوش چھوڑ جاتے تھے، اور اس دوران ایک کچھ عجیب و غریب بات ہوئی: میں نے ان کیڑوں کو پسند کرنا شروع کردیا۔

اپنے گھر کے کوڑے دان میں اس مخلوق کا ایسا زوال کسی رونگٹے کھڑے کردینے والی خونی مخلوق کا انجام نہیں لگتا تھا، بلکہ کسی پالتو جانور کا منظر لگتا تھا جس کا دل دھڑکنا بند ہوگیا ہو۔

تاہم ہر مکڑی کا انجام اس طرح کے پرسکون انداز میں نہیں ہوتا ہے۔ ہم جیسے ہی انھیں اپنے فرش پر رینگتے ہوئے دیکھتے ہیں، یا انھیں اپنے گھر کی چھت کے کسی کونے میں اپنا جال بنتے ہوئے لٹکتا ہوا دیکھتے ہیں، تو ان کو عموماً کچل دیتے ہیں، یا ان پر کیڑے مار ادویات چھڑک دی جاتی ہیں، یا انھیں صفائی والے ویکیوم میشین سے تلف کردی جاتا ہے یا انھیں گھر سے نکال دیا جاتا ہے۔ بہت سارے لوگ اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اتنے آرام سے یونہی انھیں ہلاک کیسے کر دیتے ہیں، جیسے کہ یہی ان کی فطرت ہو؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ جب بھی ممکن ہو انسان ایک معمول کے تواتر کے ساتھ جانوروں کو تلف کرتا رہتا ہے – اس تلخ حقیقت کے بغیر فارمنگ یا لیبارٹری میں تجربات کرنا شاید ممکن ہی نہ ہوں۔ لیکن مکڑیوں جیسی مخلوقات کے ہلاک کیے جانے کو اس طرح بیان کیا جاتا ہے جیسے کہ کوئی ایک بڑی فتح حاصل کی گئی ہو۔

مکڑیوں کو تلف کرنے والی ایک دوا کے بارے میں ایمیزان پر لکھے گئے ایک تبصرے میں درج تھا کہ ‘میرے باتھ روم میں مکڑیوں کا ایک جال تھا جس پر میں نے یہ دوا چھڑکی، وہ ایک منٹ کے اندر ہلاک ہو گیا۔ یہ بہت ہی موثر دوا ہے۔’ ایک اور صارف نے اس دوا کی تعریف کرتے ہوئے لکھا تھا ‘مکڑوں کی لاشیں (بہت زیادہ تعداد میں) اپنے جال میں زمین پر لٹک رہی تھیں۔’

زندگی کی ایک پیچیدہ شکل

ان مکڑیوں کا اس قسم کا قتلِ عام آپ کے لیے بہت ہی پریشان کن ہوگا اگر آپ کے علم میں یہ بات آئے کہ مکڑیوں اور انسانوں کی زندگی میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ اگرچہ 53 کروڑ برس پہلے ارتقا کے سفر کے دوران ہمارے رستے جدا ہوگئے تھے، تاہم ہمارے اعضا اور جسم کے کئی حصے، مثال کے طور پر گھٹنے کی چپنی اور ڈوپامائین سے لے کر ایڈرالین تک دماغ میں پیدا ہونے والی کیمیائی رطوبتیں، ایک جیسی ہیں۔ کسی نے مکڑی کے جذبات کے بارے میں کوئی تحقیق کرنے کی کوشش ہی نہیں کی ہے۔ لیکن ان کے جذبات کو سمجھنا ہمارے اندازوں سے زیادہ آسان ہے۔

اسی طرح ان کے سر ان کے کاندھوں پر زیادہ بھاری نہیں ہوتے ہیں (یا ان کی ٹانگوں پر زیادہ بھاری نہ ہوں — بعض اوقات ایک مکڑ کے سر میں اتنی جگہ ہی نہیں ہوتی ہے کہ اس کا بھیجا اُس میں سما سکے)۔ لیکن کچھ ایسی بھی مکڑیاں ہوتے ہیں جو بہت ہی زبردست پیچیدہ ذہانت کے مالک ہوتے ہیں، مثال کے طور پر وہ اپنے شکار کو پھانسنے کے لیے مختلف پیچیدہ قسم کے رستے بدلنے کی منصوبہ بندی کرسکتے ہیں۔ ان میں ان کی ضرورت کی ایک منفرد قسم کی ذہانت ہوتی ہے جس کے ذریعے وہ اپنا جال بننے کی منصوبہ بندی پر غور و فکر کرتی ہیں۔

اور اگر وہ ہیجان کا شکار انسان کے حملے سے بچ جائیں تو مکڑوں کی ایسی کئی انواع ہیں جو کئی دہائیوں تک زندہ رہ سکتی ہیں۔

’تیرتی ہوئی دلدلی زمین پانی کی قلت کا حل بن سکتی ہے‘

’سانپ انسانوں سے دور بھاگتے ہیں سو انھیں مت چھیڑیں‘

’کسان کو سمجھنا چاہیے کہ مکڑیاں فصل کی چوکیدار ہیں‘

کرہ ارض پر سب سے قدیم معروف مکڑی – نمبر 16 کے نام سے شناخت کی جانے والی ایک ٹراپ ڈور مکڑی — نے 43 برس کی ایک قابل فخر طویل زندگی بسر کی۔ اس پورے وقت میں اس کا صرف ایک گھر تھا، جنوب مغربی آسٹریلیا میں تمین کے قریب بنگولو ریزرو کے ایک بل میں۔ سنہ 2018 میں اس مکڑی کی موت کے وقت، لیانڈا میسن – ایک ماہر ماحولیات جنہوں نے اس کے مطالعے میں کئی سال گزارے تھے – نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ کس طرح وہ اذیت ناک طور پر ‘اپنے عروج کے دور میں اپنے انجام کو پہنچی’، ایک پرجیوی کیڑے کے ڈنگ سے وہ ہلاک ہوئی تھی۔

اگر ہمیں مکڑی کی زندگی کو اہم سمجھنے کے لیے کسی اور وجہ کی ضرورت ہوتی ہے تو یہ حقیقت ہے کہ – جیسا کہ آج تمام زندہ جانوروں کی طرح – ہر مکڑی اپنے کامیاب اجداد کی ایک اٹوٹ نسل کی پیداوار ہے جس کا زمین پر پہلی زندگی کے ساتھ آغاز ہوا تھا۔ یعنی تین ارب اسی کروڑ برس قبل۔ حیرت انگیز مشکلات کے خلاف، اس خاص مکڑی کے آباؤ اجداد اور ان کے بھی آباؤ اجداد – اور اسی طرح اوپر کی کئی نسلیں، ہزاروں برسوں تک – اپنی نسلیں دوبارہ پیدا کرنے کے لئے کافی دیر تک زندہ رہنے میں کامیاب رہیں۔ پھر ایک بھاری پاؤں والا انسان باتھ روم میں مکڑی پر قدم رکھتا ہے کیونکہ یہ اُس کے لیے ایک معمولی پریشانی بھی نہیں ہے۔

تو کیا ہم سب صرف ظالم ہیں۔ یا کچھ اور ہو رہا ہے؟

جیفری لاک ووڈ کے مطابق، کئی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ہم مکڑیوں کے ساتھ ہمدردی پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں – درحقیقت یہ بدقسمت مخلوق الگ الگ خصوصیات کا ایک مرکب بنتی ہے جسے اتفاقات نے ایک ایسے پیکج کی شکل دے دی ہے جو ہمیں منفرد طور پر ناگوار دکھائی دیتا ہے۔

وئومنگ یونیورسٹی میں نیچرل سائینسز اور ہیومنیٹیز کے پروفیسر لاک ووڈ کہتے ہیں’میں لوگوں سے کہتا ہوں کہ ارتقاء اور ثقافت کی کامل شکل مکڑی ہے – ٹھیک ہے یہ ایک ہے اور اگر آپ کوئی کیڑا چننے جا رہے ہوں تو آپ کے ذہن میں کھٹمل آئیں گے۔’ پروفیسر لاکووڈ ایک تحقیق ‘متاثرہ دماغ: کیوں انسان خوفزدہ ، نفرت اور کیڑوں سے محبت کرتے ہیں’ کے مصنف بھی ہیں۔

ایک قدیم دشمن

شاید سب سے واضح وجہ جو ہم مکڑیوں کو کچلنے کے جواز کے طور پر پیش کرتے ہیں وہ آٹھ ٹانگوں والی چیزوں سے ہمارا ایک نفسیاتی خوف ہے جو اس مخلوق کے لیے ہماری ہمدردی کو مشکل بنا دیتا ہے۔

انسانی شیر خوار بچے صرف پانچ مہینے کی عمر میں ہی دیگر کیڑوں کی نسبت مکڑیوں کی تصویروں سے زیادہ خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہم میں ان سے ہماری نفرت جزوی طور پر پیدائشی ہے، شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ہمیں ہمارے ارتقا کے دوران زہریلے جانوروں کو غلطی یا اتفاقیہ طور پر انتخاب کرنے سے روکا جائے۔

اس قدرتی محتاط والے رویے کو پھر ثقافتی وجوہات عام لوگوں کے لیے مزید پیچیدہ بنا دیتی ہیں، جیسے والدین جو انہیں بڑے ہوتے ہوئے خوفناک قرار دیتے ہیں۔ زیادہ انتباہ دینے والے اخباری مقالے اور دیگر طرز کے ابلاغی مواد سے اس کے بارے میں پریشانی کے بڑھنے کا امکان ہوتا ہے۔

تاہم اس سارے معاملے کی وجہ صرف خوف نہیں ہے – خاص طور پر اس وجہ سے کہ ہمیں دوسرے آرتھروپیڈس (مکڑی کی طرح کے ریڑھ کی ہڈی کے بغیر حشرات اور جانور) سے وہی نفرت نہیں ہوتی ہے جو مکڑی سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔

اس کی ایک ممکنہ وضاحت یہ ہے کہ مکڑیاں دیکھنے میں اس زمین کی مخلوقات سے کتنے زیادہ غیر ارضی یا مختلف نظر آتے ہیں یعنی کسی اور سیارے کی مخلوق نظرف آتے ہیں، آنکھوں کی غیر معقول تعداد کے ساتھ – 12 آنکھوں تک – بہت زیادہ ٹانگیں اور بغیر دانتوں کے فنگز۔ ان کا رویہ بھی بیشتر دودھ دینے والے جانوروں سے بالکل مختلف ہے – بے خبر حشرات کو پھنسانے کے لیے جال بنانا، پھر ان کے اندر کا حصہ چوسنا، یا ان کے ساتھیوں کو کھانا اور اتفاقی طور پر اپنی نوع کی ایک بہت بڑی نسل پیدا کرنا۔

لاک ووڈ کا کہنا ہے کہ ‘اور اس طرح ان کی ناواقفیت ایک طرح کی کئی عمومی خصوصیات سے جڑی ہوئی ہے تاکہ وہ دوسروں سے مختلف نظر آئیں – میرے خیال میں تکنیکی اصطلاح یہ ہے کہ ہم انہیں ڈراؤنا سمجھتے ہیں۔’

مکڑیاں بھی جینیاتی طور پر اجنبی ہیں۔ اگرچہ انسانوں اور مکڑیوں کا ایک دوسرے کے ساتھ دور کا تعلق بنتا ہے، تاہم ہماری ان سے کوئی قریبی رشتہ داری نہیں ہے، جیسا کہ ہم دودھ دینے والے دوسرے جانوروں یا یہاں تک کہ رینگنے والے جانوروں کے قریبی رشتہ دار سمجھے جاتے ہیں۔

یہ ممکنہ طور پر پریشانی کا ایک باعث ہے، کیونکہ ہم دوسروں کے ساتھ جتنا زیادہ مشترک ہیں – یا جتنا زیادہ ہم آپس میں ایک دوسرے سے وابستہ ہیں – ان کے لیے ہمدردی اتنی ہی زیادہ ہے۔ سنہ 2019 کے ایک مطالعے سے پتہ چلا کہ جب سے ہمارے ارتقائی راستے مختلف ہوئے، ہماری اپنے پرانے شریکِ سفر جانوروں سے ہمدردی وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی گئی۔

یہاں تک کہ سائنس دان زیادہ جاذب نظر ہم سے وابستہ جانوروں کا مطالعہ کرنے میں زیادہ متعصب ہیں۔ سنہ 2010 کے ایک مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ خطرے سے دوچار ایمفیبین (خشکی اور تری دونوں کا وہ جانور جو خشکی اور پانی دونوں میں رہے ) کے بارے میں شائع ہونے والے ہر تحقیقی مقالے کے مطابق، دودھ دینے والے ایسے جانور جن کی نسل ختم ہو سکتی ہے ان کی تعداد 500 سے زیادہ تھی۔

معاشرے میں خوف اور اجنبیت کا یہ مرکب بنیادی طور پر مکڑیوں سے پیار کرنے کی ہماری صلاحیت کو روک سکتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے یہ عوامل انسانوں میں ان کے اقلیتی گروہوں کو پسماندہ بناتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک تجربے سے پتہ چلا کہ کسی کی خوفناک تصاویر کے سامنے لانے سے لوگوں میں اس کے لیے ہمدردی کا جذبہ کم ہوجاتا ہے۔

درحقیقت یہ ان تمام عوامل کا مجموعہ ہماری ہمدردی کو کم کرنے میں بہت موثر ثابت ہوتے ہے، یہ دشمن کے خلاف نفرت پھیلانے یا جنگ کے وقت پروپیگنڈے میں ‘زینوفوبیا’ کو بڑھانے کا ایک کلاسیکی طریقہ ہے – اور مکڑیوں کی تصویروں کو اکثر بیک وقت دونوں مقاصد حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جنگ عظیم دوئم کے ایک مشہور برطانوی پوسٹر میں ہٹلر کو ایک لمبی تڑنگی مکڑی کی طرح لٹکتے ہوئے دکھایا گیا ہے جو دنیا میں گھوم رہی ہے، جس سے سنگین خطرہ ہے: ‘ایک ایک کرکے اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی’۔

کنٹرول کا ختم ہونا

مکڑیوں کے بارے میں بہت ہی ڈراؤنی کہانیوں میں حیرت کا عنصر ہوتا ہے – جیسے کہ ایک دوست نے ہالووین کا ایک پرانا لباس پہنا جس کو کئی سالوں سے اونچی جگہ پر رکھا گیا تھا، اور کسی نے کہا ‘واہ، مجھے آپ کی گردن پر مکڑی کی تصویر پسند ہے۔ یہ بہت ہی حقیقت پسندانہ ہے ۔۔۔۔’ بہت زیادہ چیخیں نکلنا شروع ہوئیں، کیونکہ یہ یقینی طور پر نظر کا حصہ نہیں تھا، بلکہ یہ ایک حقیقی مکڑی تھی جو آہستہ آہستہ خاموشی سے ان کی ٹوپی سے نیچے کی جانب سرک رہی تھی۔

لاک ووڈ وضاحت کرتا ہے کہ یہ مکڑیوں سے ہماری نفرت کا ایک بڑا عنصر ہے – ہمارے کنٹرول سے انحراف کرنے کی ان کی صلاحیت۔ ‘ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اپنی دنیا کے انچارج ہیں، لیکن مکڑیاں اور کیڑے آتے رہتے ہیں، وہ فرش بورڈز کے نیچے سے رینگتے رہتے ہیں اور کیا کچھ نہیں کرتے ہیں۔ اس لیے ہم میں ایک احساس رہتا ہے — میرے خیال میں یہ ایک اچھا احساس ہے — کہ ہم ان باتوں کے بارے میں کوئی خطرہ مول نہیں لیتے ہیں۔’

مکڑیاں چُھپنے میں اور تیزی سے چُھپنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہیں۔ آوارہ کبوتروں یا لومڑیوں کے برعکس، آپ انہیں دور رکھنے کے لیے دیوار نہیں بنا سکتے۔ اگرچہ ہم اب انتہائی کنٹرول کی دنیا میں رہتے ہیں – جہاں ہم دنیا کے دوسری طرف سے حرارتی نظام کو آن کر سکتے ہیں – مکڑیاں اب بھی غیر متوقع طور پر ہمارے بستروں اور جوتوں میں ظاہر ہو سکتی ہیں، جیسا کہ وہ ہزاروں برسوں سے ظاہر ہو رہی ہیں۔ ہم اسے پسند کریں یا نہ کریں، ان کا گھروں سے خاتمہ ناممکن ہے۔

ایک خاموش چیخ

کچھ دیگر عملی قسم کی باتیں بھی ہیں۔ ایک یہ ہے کہ مکڑیوں میں جذبات نہیں ہوتے جنھیں ہم آسانی سے پہچان سکیں، یا وہ اپنے بارے میں شور مچائیں – لہذا جب مکڑی کو تکلیف ہوتی ہے تو ہم غافل رہتے ہیں۔

لاک ووڈ کا کہنا ہے کہ ‘یہ عجیب جگہ ہے جس پر وہ قابض ہیں۔ اگر وہ مکمل طور پر غیر متعلقہ ہوتے تو مجھے لگتا ہے کہ ہمارا ان کے ساتھ اس طرح کا کوئی مسئلہ نہیں ہونا تھا۔ لیکن ان کے حیوان ہونے کے بارے میں ہم میں ایک احساس موجود ہے — ہم ایک سطح پر تو فوراً ان کی شناخت کرتے ہیں، لیکن پھر فوراً ایک دوسری سطح پر ان کے متعلق کچھ احساس بھی نہیں کرتے ہیں۔

جیسا کہ ماہرین ماحولیات اسٹیفن کیلرٹ نے اپنی کتاب (Kinship to Mastery: Biophilia In Human Evolution And Development ) میں لکھا ہے کہ ‘۔۔۔ شاید سب سے زیادہ پریشان کن، یہ مخلوق (کیڑے مکوڑے اور دیگر جڑواں جانور) ذہنی زندگی سے محروم دکھائی دیتے ہیں’۔ وہ وضاحت کرتا ہے کہ ہمارے نزدیک وہ (ہماری طرح) انسانی جذبات محسوس نہیں کر سکتے ہیں – گویا ان کے اپنے دماغ ان کے وجود سے متعلق نہیں ہیں۔ (یقیناً یہ ایک وہم ہے۔)

ان تمام باتوں کا مطلب یہ ہے کہ آپ یہ سوچے بغیر کہ اسے تکلیف ہوگی یا نہیں آپ مکڑی کو کچل سکلتے ہیں – اور جب تک کہ آپ کا ہدف بھاگ نہ جائے یا آپ کا خوفناک کام ادھورا نہ رہ جائے، آپ میں احساس پیدا ہی نہیں ہوتا ہے کہ (اُسے کچلتے ہوئے) آپ کوئی ناخوشگوار کام کر رہے ہیں۔

تاہم یہ بات تب سچ ہے جب وہ بہت چھوٹی چھوٹی مکڑیاں ہوں – اور زیادہ تر لوگ بڑی بڑی مکڑیوں کو مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔

سڈنی یونیورسٹی کے فنکشنل جینومکس کے پروفیسر نیلی بڑے سائیز کی مکڑیاں دکھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘یہاں ہمارے پاس شکاری مکڑیاں ہیں، جو کہ اس جیسی بڑے بڑے سائیز کی ہوتی ہیں۔ لیکن یہاں لوگ انہیں نہیں مارتے ہیں، یہ ہماری دوست ہیں۔’ گریک نیلی سڈنی یونیورسٹی میں دوسرے جانوروں کے علاوہ پھلوں کی مکھیوں میں تکلیف کا مطالعہ کرتا ہے۔

لاک ووڈ اس سے اپنی بات جوڑ سکتا ہے۔ ‘کچھ بہت بڑے لال بیگوں (کاکروچوں) کے بارے میں بھی یہی بات ہو سکتی ہے – میری بیوی عام طور پر کیڑوں سے نفرت کرتی تھی، لیکن وہ نہیں چاہتی تھی، اور میں دوسروں کو جانتا ہوں جو کاکروچ پر قدم رکھنا پسند کرتے ہیں کیونکہ وہ اس کے کچلنے کی ایک مخصوص آواز سننا پسند کرتے ہیں۔’ یہ بات وہ اپنے خیال کی اپنی وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے – کئی سال پہلے – جب وہ گھر پہنچا تو دیکھا کہ اس کی بیوی دہی کے برتنوں کے نیچے کیڑوں کو پکڑتی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘یہ ایک چھوٹی سی موت کی طرح تھا۔’

لاک ووڈ کا کہنا ہے کہ ‘کسی دوسرے وجود کو کچلنے کے بارے میں کچھ بات ضرور ہے، تاہم اس وقت تک ہمیں یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں لگتا ہے جب تک ہمیں اس کے کچلے جانے کے وقت اس کے ردعمل کا کوئی حسی سگنل نہ مل جائے، جو یہ بتائے کہ یہ ایک حقیقی قتل ہے یا یہ ایک تشدد ہے۔’

ایک خوفناک چہرہ

اپنی خوفناک فینگوں اور دھمکانے والی ٹانگوں کے علاوہ مکڑیوں کو انسانی نقطہ نظر سے اپنی شکل و صورت کی وجہ سے ایک اور چیلنج کا سامنا کرنا پڑتا ہے: وہ انسانی بچوں کی طرح پیاری سی شکل نہیں رکھتے ہیں۔

‘بیبی فیس ایفیکٹ’ (بچوں والے چہرے کا اثر) انسانوں میں ایک بہت ہی بااثر پوشیدہ تعصب ہے، جس کا مطلب ہے کہ ہم اتفاقی طور پر لوگوں – اور جانوروں کے ساتھ – قدرتی طور پر ‘نیوٹینس’، یا بچوں جیسی خصوصیات کے ساتھ سلوک کرتے ہیں گویا کہ وہ اصل بچے ہیں۔ مثال کے طور پر بڑی آنکھیں، بڑی پیشانی، چھوٹی ناک اور ٹھوڑی، اور فرشتہ شکل چھوٹے ہونٹ وغیرہ انسانوں میں ہمدردی اور پیار کے طاقتور جذبات کو متحرک کرسکتے ہیں۔

تاہم یہ اثر ہمیں اچھی طرح سے ثابت شدہ غلطیوں کی طرف لے جا سکتا ہے۔ ماحولیاتی تحفظ میں، یہ اکثر مشاہدہ کیا گیا ہے کہ ‘پیاری’ نظر آنے والی انواع کو نمایاں طور پر زیادہ توجہ اور مالی اعانت ملتی ہے، جبکہ انسانوں کی دیکھ بھال میں ‘بدصورت’ جانور – ، مثال کے طور پر چڑیا گھروں اور لیبارٹریوں میں – ان کی زندگی کا معیار کم ہوسکتا ہے، کیونکہ ہم ان کی تکلیف اور ان کے دکھ کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔

اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں کے ساتھ مکڑیاں اس کیٹیگری میں شمار کی جاتی ہیں – ہمارے بندر جیسے دماغوں کے لیے مکڑوں کی شکل غیر معصومانہ لگتی ہے، جس سے ہم کم مہربان اور قابل اعتماد ہونے جیسی غیر معمولی خصوصیات کو منسوب کرتے ہیں۔ اس کے برعکس، مکڑی کی وہ انواع جن کی آنکھیں بڑی ہوتی ہیں عام طور پر کم خوفزدہ مخلوق کے طور پر دیکھی جاتی ہے۔

ایک مثال چھلانگ لگانے والی مکڑیوں کی ہے، جن کی دو اہم اضافی آنکھیں ہوتی ہیں، ان کی آنکھوں کے اضافی جوڑے ان کے سروں کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں۔ وہ اتنی قابلِ پسند ہوتی ہیں کہ ایک مقالے کے محققین نے انہیں ‘گیٹ وے مکڑیاں’ قرار دیا – اس طرح یہ مکڑیاں اپنی بدصورت اقسام کی ایک لحاظ سے مفید نمائیندہ سفیر بنتی ہیں۔ وہ پہلے ہی متعدد وائرل ویڈیوز میں ظاہر ہوچکی ہیں، جنہوں نے کئی معروف گیتوں میں اپنے پیار کے ملاپ کا رقص کرتے دکھایا گیا ہے۔

ایک ناقص درجہ بندی

اس سے قطع نظر کہ ہم مکڑیوں کو مضرِ صحت سمجھتے ہوئے تلف کرنا ایک درست سمجھتے ہیں، ان کی زندگیوں کو زیادہ احترام کے ساتھ پیش کرنے کے لیے کافی دلائل موجود ہیں – اور ایسا کرنے میں ہماری مدد کرنے کے لیے نفسیاتی تدبیریں بھی موجود ہیں۔

ایک طریقہ یہ ہے کہ مکڑیوں کو انسانی رویوں کی حامل مخلوق بنا کر پیش کیا جائے تاکہ ہمارے ذہنوں میں ان کے لیے ایک قدرتی ہمدردی پیدا ہوسکے اور انسان ان مکڑیوں سے ایک میل جول بڑھائیں۔ یہ وہ طریقہ ہے جو ختم ہونے کے خطرے سے دوچار انواع و مخلوقات کو بچانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے (اتفاق سے مکڑیوں کی کئی اقسام اسی خطرے سے دوچار ہیں)۔ یہ مقصد مکڑیوں کو زیادہ انسان جیسی جسمانی خصوصیات کے ساتھ دکھا کر حاصل کیا جا سکتا ہے، مثلاً ہم انہیں، انسانی جذبات اور جنس دے کر انھیں پیش کرسکتے ہیں -‘دیکھو، وہ غصے میں ہے!’ – اور ان سے اختلافات کے بجائے ان سے اپنی مماثلتوں پر توجہ مرکوز کریں۔

تاہم ایک مخالف مکتبہ فکر بھی ہے: چونکہ ہمدردی میں بہت زیادہ خامی ہے، ہمیں اسے اپنے اخلاقی فیصلوں کی بنیاد کے طور پر استعمال کرنے سے گریز کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

اس کے بجائے ہم مکڑی کی زندگیوں کو عقلی حساب کی بنیاد پر پیش کر سکتے ہیں – جیسے ماحولیاتی نظام میں ان کے کام کی اہمیت۔ لہذا ہم اپنے آپ کو یہ یاد دلانے کی کوشش کر سکتے ہیں کہ مکڑیوں کی انواع ہر سال 40 سے 80 کروڑ ٹن حشرات کا شکار کرتے ہیں، اور ایسا کرنے سے بشمول انسانوں میں بیماری پیدا کرنے والے کچھ کیڑوں کے، یہ حشرات کی آبادی کو حد سے زیادہ پھیلنے سے روکنے میں مدد دیتے ہیں۔

ان تجاویز کے متبادل کے طور پر ہم مکڑیوں کو ان کی صلاحیتوں اور حیاتیات کی وجہ سے ان کے تلف کرنے کے رجحان پر قابو پاسکتے ہیں – اپنے آپ کو ان کے دماغ کی زبردست ذہانت کے بارے میں آگاہ کریں جن کی وجہ سے یہ مکڑیاں قابل ذکر پیچیدہ فیصلہ سازی کی صلاحیت ظاہر کرتی ہیں حالانکہ وہ دودھ دینے والے جانوروں کی نسبت کئی ہزار گنا چھوٹی ہیں۔

لیکن ایک اور طریقہ بھی ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے علم حشرات الارض (انٹومولوجی) کے پروفیسر، جیرالڈین رائیٹ کہتی ہیں کہ ‘مجھے لگتا ہے کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کی کچھ اقسام دوسری اقسام سے زیادہ قیمتی ہیں ۔۔۔ لیکن وہ ان کے بارے یکساں طور پر نہیں سوچتے ہیں۔ وہ ان کے بارے سوال نہیں کرتے ہیں۔’ وہ بتاتی ہیں کہ ہمارا مکڑیوں کو خاطر میں لانا مغربی تہذیب کی ایک خصوصیت ہے، کیونکہ کئی ثقافتوں اور مذاہب – جیسے بدھ مت – کا خیال ہے کہ تمام زندہ انواع ہزاروں برسوں کے لیے اہم ہیں۔

تاہم کچھ ماہرین پرامید ہیں کہ ہم آہستہ آہستہ مکڑیاں اور کیڑے مکوڑے قبول کر رہے ہیں – خاص طور پر جب لوگ حیاتیاتی تنوع (بائیو ڈائیورسٹی) اور ماحولیاتی تحفظ کے بارے میں مزید سوچنا شروع کر رہے ہیں۔ کیمبرج یونیورسٹی میں جانوروں کی فلاح و بہبود کے پروفیسر ڈونلڈ بروم کا کہنا ہے کہ ‘دوسری تبدیلی یہ خیال ہے کہ ہر نوع کی ایک اپنی اہمیت ہے، اور آپ کو صرف اس لیے تلف نہیں کرنا چاہیے کیونکہ آپ اسے یونہی تلف کرنا چاہتے ہیں۔’

جیسے ہی میں یہ آرٹیکل لکھ رہی تھی، میں نے اپنے باغ میں ایک نئی دھاری دار مکڑیوں کو بلند ہوتے دیکھا – شاید یہ میری پرانی دوست مکڑی کی اولاد میں سے ایک ہو ۔ مجھے لگتا ہے کہ میں انہیں ان کے حال پر چھوڑ دوں گی، چاہے میں انہیں پسند کروں یا نہ کروں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments