تبدیلی کی شروعات


یہ بھی دنیا میں عجیب رویہ ہے، ہر انسان دوسرے کو تبدیل کرنے کے قصیدے پڑھ رہا ہے۔ جب کہ اسے خود تبدیلی کا پہاڑا ازبر نہیں ہوتا۔ اگر ان غیر فطری رویوں پر غوروخوض کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی سرشت میں قول و فعل میں تضاد کی جنگ ہے۔ انسان نے روز اول سے ہی دوسروں کو سکھانے کی کوشش کی ہے جب کہ اپنی ذات سے روپوشی۔ آپ اسے کچھ بھی سمجھ لیں۔ شاید جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمیں دوسروں کے عیب تو نظر آتے ہیں البتہ اپنی آنکھ کے شہتیر دکھائی نہیں دیتے۔ یہ خود احتسابی عدالت ہے اس میں کوئی اپنے آپ کو کھڑا کرنے کی جسارت نہیں کرتا۔

مگر افسوس یہ ہمارے سماج کے زوال میں وہ بنیادی نکتہ ہے جسے بڑی بے دردی کے ساتھ نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ ہمیں ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے ہم دوسروں کے لئے تبدیلی کی بانسری بجاتے ہیں، جبکہ خود اس راگ کو سننے سے بہرے ہو جاتے ہیں۔ دنیا میں کوئی بھی کام جب خلاف قدرت ہوتا ہے تو اس کے ہولناک نتائج ثابت ہوتے ہیں۔ اور خدا ہمیں ان برے کاموں کی سزا بھی ضرور دیتا ہے اور خاص طور پر جب کوئی معاشرہ نمونہ دینے سے قاصر رہ جائے تو وہ بے چینی کا گڑھا بن جاتا ہے اور لوگ مسلسل ٹھوکریں کھا کھا کر اس میں گرتے رہتے ہیں۔

دنیا کا کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ایمان امید اور محبت کی تصویر پیش نہیں کر سکتا۔ جب تک وہ پہلے اپنی ذات کو پیش نہ کرے۔ لہذا کسی بھی کام کو پھل دار بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی حفاظت اور نگہبانی کی جائے۔ محنت اور لگن سے کام کیا جائے۔ اسے کرنے کے لیے پہل کی جائے تاکہ دوسرے آپ سے متاثر ہو کر تبدیلی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکیں۔

انسان جب تک اپنے ضمیر کی آواز نہیں سنتا اس وقت تک اس کے ہاتھ میں تبدیلی کی چابی نہیں آتی۔ چنانچہ اسے معاشرے میں عملی طور پر لاگو کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ان تمام قوانین اور اصولوں پر عمل کیا جائے جو انسان کو برائی سے روکتے اور ترقی کی راہ پر گامزن کرتے ہیں تاکہ نمونے کی داغ بیل ڈالی جا سکے۔ ہم اس دنیا میں کچھ ایسا طرز عمل دیکھ رہے ہیں کہ ایک مالک اپنے نوکر سے وفاداری توقعات کرتا ہے جب کہ مصیبت آنے پر وہ اس کے کام نہیں آتا، ایک حکمران چاہتا ہے کہ اس کی ساری عوام ٹھیک ہو جائے لیکن وہ خود ٹھیک نہیں ہونا چاہتا، ایک انسان دوسروں کو اخلاقیات کے پہاڑے ازبر کرواتا ہے جبکہ اس کی ذات ان صفات سے خالی ہوتی ہے، اسی طرح اس بات کا اطلاق ہر شعبہ زندگی سے وابستہ ہے۔ آئینہ انسان کو وہی تصویر دکھاتا ہے جو اس کی اصلی تصویر ہوتی ہے۔

دراصل یہ ہماری معاشرتی ناہمواریاں اور بے قاعدگیاں ہیں جنہوں نے ہمارے راستوں میں کھڈے کھود رکھے ہیں جو ہمیں آگے بڑھنے سے روکتے ہیں۔ شاید ہمارے پاس قوت مدافعت کا وہ عصا نہیں ہوتا جو ہمیں انہیں عبور کرنے کی قوت دیتا ہے۔ ہم اکثر بزدل اور بیدل ہو جاتے ہیں اور ہماری سوچ پر اس بات کا پہرہ بیٹھ جاتا ہے نہیں نہیں! میں یہ کام نہیں کر سکتا۔ اگر اس بات کو فطری تقاضوں میں دیکھا جائے تو تبدیلی کا مرکز تو انسان کے اندر ہی موجود ہوتا ہے۔ اس کے احساسات اور جذبات اس بات کے گواہ ہوتے ہیں کی اس کے پاس مثبت سوچ کے ذخائر ہیں یا منفی محرکات کے۔ آپ کی ترجیحات یہاں سے ہی الگ راستے بنا دیتی ہیں۔ منفی رجحانات رکھنے والا ہمیشہ شکست کھا جاتا ہے جب کہ مثبت رجحانات رکھنے والا جیت جاتا ہے۔

مگر افسوس ہم ایک ایسے ماحول اور معاشرے میں پرورش پا رہے ہیں۔ جہاں صرف اخلاقی اصول دوسروں کی اصلاح کے لئے وضع کیے جاتے ہیں جب کہ ہم نے خود اپنی ذات کا دروازہ بند کر لیا ہوتا ہے۔ یہاں نصیحت کے جام صرف دوسروں کو پلائے جائیں اور خود اس کا ذائقہ چکھا نہیں جاتا۔ جب فطرت میں عدم مساوات کی شجرکاری شروع ہو جائے وہاں انصاف کی دھجیاں اڑ جاتی ہیں۔ چنانچہ ہمارے لیے یہ بات ضروری ہے کہ ہم اپنے نصیب جگانے کے لئے اپنے ضمیر کی آواز سنیں۔

اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو یہ بوکھلاہٹ اور بغاوت کی وہ تصویر ہے۔ جسے جو بھی دیکھے گا وہ اس میں نقص نکالے گا یقیناً کردار پر لگے ہوئے داغ آسانی سے ختم نہیں ہوتے۔ نہ انہیں مصنوعی طریقوں سے ختم کیا جا سکتا ہے اور نہ باتونی بن کر۔ بلکہ تبدیلی کے لئے پہلے اپنے آپ کو باکردار بنانا پڑے گا۔ دنیا کبھی نصیحتوں سے نہیں سدھری۔ بلکہ سدھار کے لیے پہلے نمونے کے مرکبات تیار کرنا پڑتے ہیں۔

تب جا کر کہیں تبدیلی کی امید بر آتی ہے۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم پہلے اپنی اصلاح نہیں کرتے بلکہ دوسروں پر اپنے فیصلے مسلط کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ جو ہمارے ماحول اور معاشرے میں رکاوٹوں کے پہاڑ بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور پھر ان پہاڑوں کو سر کا نا کسی ایک آدمی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ کیونکہ جب تک اتحاد و یگانگت کا لقمہ نہ کھایا جائے اس وقت تک قوت حیات میں توانائی کے ذخائر جمع نہیں ہوتے۔

بلاشبہ ارادے اور جذبات تو سب دلوں میں مچلتے ہیں۔ لیکن تعبیر کا دروازہ کسی کسی پر کھلتا ہے۔ اگر سچائی کا دامن تھام لیا جائے اور ارادوں اور ترجیحات کو تبدیل کر لیا جائے۔ تو تبدیلی کا پہاڑا لکھا اور پڑھا جا سکتا ہے۔

راستے میں حائل ان تمام رکاوٹوں کو عبور کیا جا سکتا ہے جو بنی آدم کے لیے رکاوٹ بن کر کھڑی ہو جاتی ہیں۔

ہر انسان کے پاس روشنی کا چراغ ہے اسے جلانے کے لیے نیت کا شعلہ چاہیے اور جب تک ہماری نیت سے فتور ختم نہیں ہوتا اس وقت تک تبدیلی کے آثار نظر نہیں آ سکتے۔

ہم جب تک اپنی زندگی سے نافرمانی کا کوڑھ نہیں اتارتے۔ خیالات کو مثبت سوچ کا غسل نہیں دیتے اس وقت تک تبدیلی کی طرف اپنے قدم نہیں بڑھا سکتے۔

کوئی بھی کام اس وقت ناکامی کی بھینٹ چڑھتا ہے جب اس میں عملی جوہر نہیں ہوتا اور نا اس کے مرکبات کی روشنائی سے ارادوں کو گرمائش ملتی ہے۔ تبدیلی کا نعرہ ضرور لگائیں مگر مہم اپنی ذات سے شروع کریں۔ یہ قانون قدرت بھی ہے اور اپنی اصلاح بھی۔ بے شک قوت فیصلہ کا خلاصہ ضمیر کی عدالت پیش کرتی ہے۔ اور جب ضمیر ملامت کرتا ہے تو ہاتھ کی ریکھاؤں میں میں تبدیلی کی صورت دیکھی جا سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments