”آئینہ سی زندگی“ ۔ رومی اور شمس تبریز کے بارے میں ایک خوبصورت ناول



ہر کسے کو دور ماند از اصل خویش
باز جو ید روزگار وصل خویش
) جو کوئی اپنی اصل سے دور ہوجاتا ہے وہ اپنے وصل کا زمانہ پھر تلاش کرتا ہے (

رومی کا یہ شعر ان کی معرکہ آرا مثنوی کے ابتدائی اشعار میں سے ہے۔ یوں رومی کی ساری شاعری اپنی اصل سے وصل کی تمنا معلوم ہوتی ہے اور اسی تمنا کی بازگشت ربی سنکربل کے اس ناول میں سنائی دیتی ہے۔ عظیم صوفی اور عالم بے بدل مولانا جلال الدین رومی کی سات سو سال قدیم اس مثنوی کی شہرت دنیا کے کونے کونے میں ہے۔ مولانا جلال الدین رومی کی حیات کے گرد بنے گئے اس ناول میں حقیقت اور فسانے کی کئی پرتیں نظر آتی ہیں۔ ناول کے واقعات کہیں مولانا کی زندگی سے اور کہیں ان کی حکایتوں سے اخذ کیے گئے ہیں اور یوں آپ کو ایک ایسی دنیا میں لے جاتے ہیں جو حقیقت بھی ہے اور حکایت بھی۔

اس ناول میں چھوٹی چھوٹی کہانیاں مل کر ایک بڑی کہانی کی تشکیل کرتی نظر آتی ہیں۔ قصہ گوئی کا یہ انداز مشرق سے خاص ہے۔ کہانی کے اندر سے کہانی نکالنا شاید ربی سنکر بل کا پسندیدہ عمل ہے۔ اس کا مظاہرہ ان کے معرکہ آرا ناول ”دوزخ نامہ“ میں بھی نظر آتا ہے، تاہم اس کتاب کا موازنہ ”دوزخ نامہ“ سے کرنا مناسب نہیں۔ دونوں کتابوں کا مزاج مختلف ہے۔ اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ”آئینہ سی زندگی“ اپنے طور پر ایک شاندار ناول ہے۔

”دوزخ نامہ“ غالب اور منٹو کے بارے میں تھا اور یہ کتاب رومی اور شمس تبریز سے متعلق ہے۔ رومی اور شمس کے تعلق خاطر نے ادھر فکشن نگاروں کو بار بار متوجہ کیا ہے اور اس بارے میں کئی اچھے ناول سامنے آئے ہیں جن میں ایلف شفق اور میوریئل میفروئی کے ناول قابل ذکر ہیں۔ بنگالی ادیب ربی سنکر بل کا یہ ناول اس اعتبار سے منفرد نوعیت کا حامل ہے کہ اس میں رومی اور شمس کے عشق ہی کی کہانی نہیں ہے بلکہ اس میں رومی کے مولانا سے ایک صوفی بننے اور ان کی گھریلو زندگی کا نہایت خوبصورت بیان بھی شامل ہے۔

پرانی کہانیوں کو نیا کر دینا ربی سنکر بل کو خوب آتا ہے۔ رومی کی کہانی بھی نئی ہو کر ہمارے سامنے آتی ہے پھر بھی اس کہانی میں مولانا اور ان کے شمس کو پہچاننا مشکل نہیں۔ مولانا کی داستان سنانے کے لیے شاید روایتی بیانیہ کارآمد نہ ہو سکتا اسی لیے ربی سنکر بل نے کہانی کا پلاٹ روایتی ناول کی طرح نہیں بنایا۔ یوں کہنے کو یہ داستان چھوٹی چھوٹی باتوں سے بنی ہوئی ہے لیکن باتوں باتوں میں مصنف ایسا ایسا سحر پھونکتا ہے کہ پڑھنے والا خود کو کسی طلسم ہوشربا میں کھڑا پاتا ہے جہاں ایک کہانی دوسری کہانی سے اپنی جگہ بدل لیتی ہے۔ ایسے میں مصنف کا یہ بیان اور بھی معنی خیز ہوجاتا ہے کہ: ’کہانیوں سے پہلے بھی کہانیاں ہوتی ہیں۔ لیکن کچھ کہانیاں تقدیر کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں۔ ‘

ربی سنکر بل کا یہ بنگالی ناول کتابی صورت میں شائع ہونے سے پہلے 2012 ء میں ہندوستان کے ”سنگباد پرتی دین“ نامی روزنامے میں قسط وار شائع ہوتا رہا۔ مکمل ناول کتابی صورت 2013 ء میں ”آئینہ جیبون“ (آئینہ زندگی) کے عنوان سے شائع ہوا اور دو برس بعد 2015 ء میں اس کا انگریزی ترجمہ ”A Mirrored Life“ کے نام سے سامنے آیا۔ اس ناول کو اردو میں ترجمہ کرنے کا خیال اس وقت آیا جب میں نے ربی سنکر بل کا مشہور ناول ”دوزخ نامہ“ پڑھا اور اس کا اردو ترجمہ مکمل کیا۔

”دوزخ نامہ“ کے ترجمے پر کام کرتے ہوئے ہی میں اس بے مثال بنگالی ادیب کی دوسری تحریروں کا متلاشی ہوا۔ معلوم ہوا ربی سنکر بل نے ناول تو پندرہ لکھے ہیں لیکن ”دوزخ نامہ“ کے علاوہ ان کا صرف ایک اور ناول انگریزی ترجمے میں دستیاب ہے، وہ یہی ناول تھا۔ اس ناول کا ترجمہ بھی ارون سنہا نے کیا تھا جو ”دوزخ نامہ“ کے بھی مترجم تھے۔ یوں میں نے ربی سنکر کے فن کے ایک مداح کے طور پر اس ناول کا ترجمہ کرنے کا ارادہ کیا جو اب آپ کے سامنے ہے۔

ارون سنہا کے انگریزی ترجمے کو پڑھتے ہوئے یہ خیال بار بار آتا رہا کہ بنگالی زبان میں اس ناول کی شان کیا رہی ہوگی۔ یہی خیال ”دوزخ نامہ“ پڑھتے ہوئے بھی آیا تھا۔ اردو ترجمہ کرنے میں یہ سہولت بہرحال حاصل رہی کہ رومی کے عہد کا ماحول، زبان اور تہذیب کے نقوش کا بیان بجائے انگریزی کے اردو میں زیادہ مانوس اور اصل کے قریب دکھائی دیا۔ انگریزی متن میں بعض ناموں کا املا یا تلفظ اور بعض صوفیانہ اصطلاحات نادرست نظر آئیں، انھیں اس اردو ترجمے میں درست کر کے لکھا گیا ہے۔ اسی طرح اگر کسی تاریخی واقعے کا بیان، تاریخی حقائق سے متصادم نظر آیا ہے تو اس کی وضاحت حاشیے میں کردی گئی ہے تاکہ تاریخ کا قبلہ درست رہے۔

اس اردو ترجمے میں ایک بڑھت البتہ کی گئی ہے جو قارئین کے لیے، امید ہے، خوشگوار ثابت ہوگی۔ ناول میں متعدد مقامات پر مولانا روم کے اشعار کا انگریزی ترجمہ شامل ہے۔ میں نے اس انگریزی متن کو اردو میں ڈھالنے کے بجائے مولانا کے اصل فارسی اشعار اپنے ترجمے کا حصہ بنا لیے ہیں اور ان کا نثری اردو ترجمہ ساتھ دے دیا ہے۔ افسوس میں ناول میں شامل سبھی اشعار کا اصل فارسی متن تلاش نہیں کر سکا۔ دیوان شمس تبریز کی ہزار ہا غزلوں اور مثنوی معنوی کے پچیس ہزار سے زائد اشعار میں سے، انگریزی کے ڈھیلے ڈھالے ترجمے کی مدد سے، اصل فارسی کلام ڈھونڈ نکالنا یوں بھی

یہ ناول ایک سفر کی روداد ہے، لیکن یہاں یہ سفر راہ سلوک کے سفر سے کم نہیں۔ ناول کا قصہ ایک مسافر کی زبانی کہلوایا گیا ہے۔ ابن بطوطہ۔ قاری اس مشہور سیاح کی انگلی پکڑ کر اس کے ساتھ اس سفر کا آغاز کرتا ہے اور مولانا سے جا ملتا ہے۔ کہنے کو یہ ایک تاریخی کہانی ہے لیکن مصنف کا اصرار ہے کہ تاریخ کوئی کہانی نہیں ہوتی، ایک ذمہ داری ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments