مجھے پڑھائی سے نفرت کیوں ہوئی؟


لائق ہونے کی تہمت بچپن میں ہی لگ گئی تھی۔ والدین روایتی چوہا دوڑ کے اسیر تو نہیں تھے اور نہ ہی اس زمانے میں ہر ایک کو ذاتی دیوار میسر تھی جس پر نمبروں کے اشتہار چسپاں کرنا ممکن ہوتا پر نجی محفلوں میں میری کلاس میں لی گئی پوزیشن کا ذکر ایسے فخریہ ہوتا جیسے پہلے بدر کیمرج اور پھر گورنمنٹ جونئیر ماڈل سکول کے کنویں کی ایک جماعت کے پچاس بچوں میں پہے نمبر پر رہنا گویا دنیا کی فتح سے کم نہیں تھا۔

سب کچھ لیکن ہمیشہ اچھا نہیں رہا۔ جونیر ماڈل سے سیکنڈری اور پھر ہائی سکول کے سفر میں کئی برے دن بھی آئے کہ پانچویں کے بورڈ کا امتحان ہو کہ آٹھویں کا یا پھر روز آخرت سے پہلے سب سے اہم میٹرک کا میزانیہ، ان سب میں بوجوہ ان توقعات سے تھوڑا کمتر ہی رہا جہاں تک کہ کمند میرے والدین امتحان سے پہلے ڈال دیا کرتے تھے۔

آٹھویں جماعت جسے اس زمانے میں ہشتم کہنا افضل خیال کیا جاتا تھا، کے بورڈ امتحان میں میری کارکردگی ذرا غیر نمایاں رہی، اور وہ بھی اس صورت کہ اس سے پہلے سکول کے داخلی امتحانات میں میری پہلی پوزیشن تھی۔ تو والدین کے چہرے کچھ کھنچ سے گئے۔ زیادہ تو نہیں کہا لیکن دبے دبے لفظوں میں جتایا گیا کہ پڑھو گے لکھو گے، بنو گے نواب۔۔ کھیلو گے، کودو گے، ہو گے خراب۔ اشارہ میرے ہر کھیل میں ٹانگ اڑانے کی طرف تھا۔

اللہ جانے یہ اس خفی سی سرزنش کا اثر تھا کہ میرے ستارے بہتر بروج میں براجمان ہو گئے تھے کہ جماعت نہم کے سہ ماہی، ششماہی، نو ماہی اور پھر سالانہ امتحان میں نہ صرف سیکشن کی حد تک بلکہ تمام سیکشنز میں مجموعی طور پر بھی گورنمنٹ پائلٹ سیکنڈری سکول میں پہلی پوزیشن سے میری معزولی ممکن نہ ہو سکی۔

میٹرک میں قدم رکھا تو اچانک پتہ لگا کہ کائنات میں اس سال سے اہم وقت کوئی نہیں تھا اور اس کے اختتام پر جو میزانیہ ہاتھ میں تھمایا جائے گا اس سے اہم میزانیہ روز حشر ہو تو ہو ورنہ شاید وہ بھی نہیں۔ امیدوں کا بوجھ یکایک پڑھائی کے بوجھ سے کہیں زیادہ ہو گیا۔ اتنا زیادہ کہ ایک دوست کا انہی دنوں نروس بریک ڈاؤن ہو گیا اور تین ماہ وہ صاحب فراش رہا۔ غضب خدا کا، چودہ پندرہ سال کی عمر میں نروس بریک ڈاؤن۔ وہیں کوئی ایک لمحہ تھا کہ اندر کچھ ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو گیا۔ شاید آس کا وہ محل جسے خاندان نے میرے دل میں تعمیر کرنے میں برسوں لگائے تھے اور جس کے ماتھے پر بورڈ میں پہلی پوزیشن جلی حروف میں ویسے ہی کندہ تھی جیسے بھدے بنگلوں کی پیشانی پر ہذا من فضل ربی خط نسخ میں لکھا ہوتا ہے۔

پڑھائی سے ایک ہی رات میں دل اٹھ گیا۔ درسی کتب کے صفحوں پر بچھو رینگنے لگے۔ ان پر نظر نہ پڑے تو بیچ میں کبھی منٹو، کبھی بیدی تو کبھی کرشن چندر کو رکھنا لازم ہو گیا۔ کتاب سے محبت میں کوئی کمی نہیں آئی پر درس لازم سے نفرت سی ہوتی گئی۔ میٹرک کا دور یوں ہی بیتا کہ یہ رشتہ کمزور پڑتا چلا گیا۔ اتنے برے حالات میں بھی داخلی امتحان میں شاید پچھلے برسوں کی ریاضت کا ثمر رہا کہ پہلی تین پوزیشنوں سے باہر نہ ہوا سو امید کے دھاگے جو گھر والوں نے تھامے تھے، ان کے ٹوٹنے کی نوبت بھی نہ آئی۔ پر میری پڑھائی سے رغبت جس کا فزوں تر ہونا ضروری تھا، وہ ہر گزرتے دن بجھتی چلی گئی۔

ہوتے ہوتے روز قیامت آن پہنچا۔ نتیجہ نکلا تو پہلی تین کیا، دس پوزیشنز میں بھی نام نہیں تھا۔ پر ٹھوکر کھا کر بھی اتنی دور نہیں گرا تھا کہ عمومی طور پر کوئی نتیجے کو برا کہہ سکتا۔ میرٹ پر اور وہ بھی پری انجینئرنگ میں گورنمنٹ کالج لاہور کی پہلی فہرست میں نام اگر آجاتا تھا تو اس فہرست کے سب شہر کے ہی نہیں، ملک کے منتخب مانے جاتے تھے۔ سو وہ ہو گیا۔ والدین نے اب ایک نیا قصر امید بنا لیا جس کے ماتھے پر یو ای ٹی لاہور لکھا ہوا تھا۔

گورنمنٹ کالج ایک نئی دنیا تھی، کچھ دن تو اس کے رومان اور اس کی مرعوبیت میں گزر گئے پر پڑھائی سے محبت ہونے کے دن ابھی نہیں آئے تھے۔ نصاب کی کتاب کھولی تو ایک ایسے دماغ نے، جس کا تجسس ابھی مرا نہیں تھا وہ سوال اٹھانے شروع کر دیے جس کا جواب دینے میں گورنمنٹ کالج جیسے ادارے کے اساتذہ کو بھی یا تو کوئی دل چسپی نہیں تھی یا اس کا جواب وہ جانتے نہیں تھے۔

میں پوچھنا چاہتا تھا کہ نمبر تھیوری یا ٹپولوجی میں پڑھ رہا ہوں تو کیوں پڑھ رہا ہوں۔ تھرمو ڈائنامکس کا میری زندگی میں کیا کردار ہے۔ پیریاڈک ٹیبل کے عناصر یاد کر بھی لوں تو اس سے میرے گھر میں کیا بدل جائے گا۔ نظریے اور مفروضے سب کو یاد تھے۔ عملی اطلاق سے کوئی آشنا نہیں تھا۔ نصاب سے رجوع کرنے کا ارادہ ترک کیا اور طلاق بائن تک نوبت پہنچا دی گئی۔ صبح گھر سے کالج کے لیے نکلتا لیکن کبھی کالج پہنچنے کی نوبت نہیں آئی۔ مال روڈ کے اس طرف پنجاب پبلک لائبریری میرا دوسرا گھر بن گئی۔ کتاب سے محبت بڑھ رہی تھی لیکن یہ وہ کتاب نہیں تھی جس کے اوپر پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی مہر لگی ہوئی تھی۔

ایف ایس سی کے دو برسوں میں شاید دس دفعہ کالج کا منہ دیکھا وہ بھی اس لیے کہ نام کٹنے کی نوبت آتی تو دوست خبردار کر دیتے، کسی ایک آدھ جماعت میں بیٹھ جاتا۔ پروفیسر کبھی کبھی شکل دیکھ لیتے تو کافی سمجھتے۔ لازمی داخلی امتحان سے پہلے کچھ دن کتابیں کھول لیتا۔ معجزانہ طور پر ان میں فیل ہونے کی نوبت نہیں آئی۔ دل سے مجھے سائنس اور ریاضی پسند تھی تو نصاب سے مکمل قطع تعلقی کے باوجود بھی دماغ اتنا کام کر لیتا تھا کہ سوالوں کے جواب بن ہی جاتے تھے۔ رہے سوشل سائنسز والے مضامین یا زبانیں تو وہ ہمیشہ سے گھر کی بات تھی۔ یوں بھی اس میں نظریے اور عمل کی دوئی خارج از بحث تھی۔

ایف ایس سی کے امتحان ہوئے۔ پتہ نہیں کیا پڑھا، کیسے پڑھا اور امتحان بھی کیسے دیا۔ آج بھی ہزار ذہن پر زور ڈالوں تو کچھ یاد نہیں۔ اتنے نمبر تو نہیں آئے کہ انجینیرنگ یونیورسٹی میں کوئی کام کا شعبہ مل پاتا لیکن اتنے برے بھی نہیں رہے کہ سائنسز کو خیر باد ہی کہنا پڑتا۔ والدین کی مایوسی سوا تھی۔ جو جو وہ کہنا چاہتے تھا، کہہ لیا۔ میں نے سن لیا۔ اس سے زیادہ نہ ان کے بس میں تھا، نہ میری بساط میں۔

رجحان کیا ہوتا ہے، کیرئیر کس چڑیا کا نام ہے، شعبوں کا تنوع کس کھیت کی مولی ہے۔ ان سب باتوں سے بے خبر، لاعلم، میں نے بھی وہی راہ اختیار کر لی جو انجینئرنگ یونیورسٹی سے بس ایک جست کی دوری پر رہ جانے والے کیا کرتے تھے یعنی دوہری ریاضی اور طبیعیات میں بی ایس سی۔ نمبر اب بھی اتنے تھے کہ گورنمنٹ کالج سے دور نہیں جانا پڑا۔ اوول کی فصیل کے اندر ہی ایک اور ڈگری کے حصول کی کہانی لکھی جانے لگی۔

بی ایس سی کے مضامین میں بھی مسائل وہی تھے جو پچھلے دو سال میں حل نہیں ہوئے تھے۔ پلین کَرو پڑھ رہے ہیں تو کیوں پڑھ رہے ہیں، ویکٹر کے کیا مقاصد ہیں۔ ڈفرنسیئیشن کا انسانی معاشرت سے کیا تعلق ہے۔ وغیرہ وغیرہ اور جواب پھر ندارد تھے۔ نتیجہ بس یہ نکلا کہ میں نے پنجاب پبلک لائبریری کے اردو سیکشن کو کنگھالنا بند کیا اور انگریزی شعبے میں سر کھپانا شروع کر دیا۔ قرۃ العین حیدر، علی عباس جلالپوری، سبط حسن، ن م راشد کے بعد ول ڈیورانٹ، ٹوائن بی، پی جی ووڈ ہاؤس، مارک ٹوین، ہیمنگوے، رسل، لاک اورجان سٹورٹ مل سے پیار کی پینگیں بڑھنے لگیں۔ گرمیوں میں زیادہ تنگ ہوتا اور جیب میں کچھ پیسے ہوتے تو بس پکڑ کر پلازہ، الفلاح، تاج یا کراؤن سینما میں گھس جاتا اور جو بھی فلم لگی ہوتی وہ دو تین گھنٹے دیکھتا رہتا۔ یہ دونوں کام کرنے کے لیے کسی دوست کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ میں اور تنہائی پسند بھی ہوتا چلا گیا۔ کتابوں اور فلموں سے عشق میں بی ایس سی کا دورانیہ بھی گزر گیا۔

اس دور میں بھی کبھی کبھی کالج کا منہ دیکھ لیتا۔ کئی لطیفے بھی ہوئے۔ کبھی کسی کلاس میں جا بیٹھا تو لیکچرر نے پہچاننے سے انکار کر دیا۔ ایک دفعہ خوب بحث کے بعد حاضری رجسٹر میں نام لکھایا کہ نام تھا ہی نہیں۔ لیکچرر نے اس شرط پر لکھا کہ اگلے دن میں اپنے والد کو لے کر آؤں گا تاکہ ان سے بھی تصدیق کی جا سکے۔ اس کے بعد میں سات ماہ کلاس میں گیا ہی نہیں۔ سات ماہ بعد پھر اسی کلاس میں پہنچا تو لیکچرر پرانا قصہ بھول چکا تھا۔ پھر بحث کے بعد اس نے نئے حاضری رجسٹر میں میرا نام اس شرط پر درج کیا کہ اگلے دن میں اپنے والد کو لے کر آؤں گا۔ اس کے بعد بی ایس سی ختم ہونے تک کبھی اس کلاس کا رخ نہیں کیا۔

بی ایس سی کے اختتام پر حالات یہ تھے کہ میرے پاس طبعیات کی کتابیں تک نہیں تھیں۔ ریاضی کی کتابیں کسی وقت خرید لی تھیں پر ان کے صفحے بھی نہیں کٹے تھے۔ امتحان چند ماہ کی دوری پر ہوئے تو فکر لاحق ہوئی کہ فیل ہونا ایک ایسا حادثہ ہوتا جس کا سوچنا بھی ممکن نہیں تھا۔ کریش کورس کے لیے ایک دوست کے توسط سے ایک ایسے مسیحا تک جا پہنچے جس نے ایک سال پہلے بی ایس سی میتھمٹکس امتیازی نمبروں سے پاس کیا تھا اور اب پنجاب یونیورسٹی میں ایم بی اے سمسٹر کے آغاز سے پہلے وہ ٹیوشن پڑھا کر اپنا خرچہ نکالتا تھا۔ یہ بعد میں ہمارا گہرا دوست بننے والا عقیل احمد تھا۔ عقیل بیچارے نے چند ماہ پتہ پانی کیا۔ دل چسپی تو ریاضی میں اب بھی لوٹ کر نہیں آئی تھی پر اتنا آسرا ہو گیا کہ امتحاں ہوا تو ریاضی میں قریب پچاس پچپن فی صد نمبر آ گئے۔ حالت یہ تھی کہ امتحان میں جس مساوات کو مختصر کرنے کا سوال آتا وہ دو صفحات کی مغز ماری کے بعد تین سطروں سے پھیل کر سات سطروں پر محیط ہو جاتی۔ نتیجتا ایسے سوال ہمیشہ ادھورے ہی رہے۔

سوشل سائنسز یا زبان کے مضامین کبھی مسئلہ نہیں تھے پر طبیعیات کی کھیر کافی ٹیڑھی تھی۔ نہ اس کی کوئی ٹیوشن دستیاب تھی اور نہ اس کی کوئی کتاب میں نے کبھی دیکھی تھی۔ سوچتے سوچتے کہ کیا جائے، امتحانات کے دن آن پہنچے۔

پہلے سوچا کہ پیپر چھوڑ دیے جائیں لیکن اس کی تاویل اماں ابا کو کیا دیں گے جو ہمارے کرتوتوں سے ابھی تک بے خبر تھے۔ حوصلہ نہیں ہوا پر کیجیے تو کیا کیجیے۔ عقیل سے مشورہ کیا، اس نے اپنے کچھ پرانے دوستوں سے بات کی۔ معلوم ہوا کہ طبیعیات کے تین پیپرز یعنی میکینکس، تھرموڈائنامکس اور غالبا الیکٹرانکس (دیکھیے اب یاد بھی نہیں) کے نوٹس کچھ پرانے پاپیوں کے پاس دستیاب ہیں اور اگر ہر پیپر میں پانچ سے چھ ابواب کے نوٹس کا مکمل رٹا لگایا جا سکے تو امتحان میں ستر سے اسی فی صد مواد انہی ابواب پر مشتمل ہوتا ہے۔ لیجیے، ایک یہی راہ نجات تھی سو اسی پر قدم دھر دیے۔

شہر کے مختلف حصوں سے نوٹس تو اکٹھے ہو گئے جو ہاتھ سے لکھے ہوئے تھے کہ ابھی ٹائپنگ یا فوٹو کاپی کا رجحان نہیں تھا تو یہ قلمی نسخے ہی ہماری امتحانی میراث بنے۔ جن جن کی بھی یہ کاوش تھی، بڑی محنت سے کی گئی تھی۔ ہر باب کو سوالوں میں بانٹ دیا گیا تھا۔ جواب مساوات صاف صاف قدم بہ قدم لکھ دی گئی تھی لیکن یہ کوئی آیت یا نثر پارہ یا نظم تو تھی نہیں کہ اس کے زبانی یاد کرنے کا کوئ طریق کبھی ذہن میں رہا ہو۔ آپ سوچیے کہ طبیعیات کا مقدمہ ہے، سمجھ بوجھ صفر ہے اور زبانی یاد بھی کرنا ہے۔ مشکل سی مشکل تھی، اس پر مستزاد کہ ٹائم ٹیبل ایسا تھا کہ ہر پرچے کے لیے بس ایک رات اور ایک دن ہی میسر تھا۔

جس صبح امتحان ہوتا، اس سے کوئی اٹھارہ انیس گھنٹے پہلے میں نوٹس اٹھاتا اور انہیں رٹنا شروع کرتا۔ رٹتے رٹتے چھ گھنٹے بعد وہ مقام آتا کہ دل کہتا کہ لعنت بھیجو، یہ تمہارے بس کا کام نہیں ہے۔ کچھ نہیں ہو سکتا۔ نوٹس کو دیوار پر مارتا اور اوندھے منہ لیٹ جاتا۔ پندرہ بیس منٹ کے ایک مکمل بلیک آؤٹ کے بعد اماں ابا کے چہرے ذہن میں روشن ہونا شروع ہوتے۔ ان چہروں پر لکھی حیرانی اور شکستگی سے گھبرا کر پھر نوٹس اٹھاتا اور رٹنا شروع کردیتا۔ بغیر کسی نیند کے یہ مشق امتحان سے گھنٹہ پہلے تک جاری رہتی۔ پھر جو باب ہاتھ میں ہوتا، اسے لے کر امتحان گاہ تک پہنچتا، آخری وقت اس کے مزید رٹے پر صرف کرتا اور پرچہ دے آتا۔

کمرہ امتحان بھی اپنی جگہ ایک واقعہ تھا۔ ایف سی کالج میں سنٹر تھا اور نقل کا بازار خوب گرم تھا۔ تاریخ میں اس وقت تک مجھے نقل کا نہ سلیقہ تھا نہ ہمت تھی۔ یہاں تو ممتحن اور نگران بھی پیسے پر چل رہے تھے۔ جیب میں پیسے بھی تھے پر یہ ہو گا کیسے، اس کا کچھ پتہ نہیں تھا اور کہیں بہت پہلے سکھائی گئی اخلاقیات الگ دامن گیر تھیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کمرہ امتحان میں کوئی سو میں سے دس بچے ہی ایسے تھے جن کی نگران عملے سے رسم و راہ کبھی استوار نہ ہو سکی۔ پرچہ شروع ہوتا تو ان دس بچوں کو ایک کونے میں اکٹھا کر دیا جاتا اور جہاں باقی کمرے میں نقل کا سامان ارزاں ہوتا وہاں دس نگران ان دس بچوں کو ہلنے کی بھی اجازت نہ دیتے۔ اسی عالم میں سارے پرچے دیے گئے۔

چلیے ایک لطیفہ بھی اسی حوالے سے سن لیجیے۔ غالبا تھرمو ڈائنامکس کا پرچہ تھا اور اس میں ایک سوال تھا جس کا جواب ایک وضاحتی مساوات کی شکل میں تھا اور یہ مساوات اور اس کے لوازمات دو تین صفحات پر محیط تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ جس باب سے یہ سوال پوچھا گیا تھا وہاں دو ملتی جلتی مساواتیں تھیں، دونوں کا حوالہ گرچہ مختلف تھا اور اس سوال کا جواب ظاہر ہے ان میں سے کوئی ایک مساوات تھی۔ اگر تو میں نے کہیں کسی دن سمجھ کر کچھ پڑھا ہوتا تو یہ کوئی الجھن نہ ہوتی لیکن ایک بے مغز رٹے کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ اس سوال کے جواب میں مساوات نمبر 1 لکھنی ہے یا مساوات نمبر 2۔

ذرا سا ادھر ادھر دیکھنے کی کوشش کی کہ کسی سے پوچھ ہی لوں کہ نگران لمبے لمبے ڈگ بھرتا سیدھے میرے سر پر آن کھڑا ہوا۔ اب کیا کیا جائے۔ کچھ دیر سوچتا رہا، خالی کاغذ پر کچھ حاشیے بنائے۔ سوال پھر سے پڑھا۔ شاید کچھ پلے پڑ جائے، کوئی اشارہ مل جائے مگر ان تلوں میں تیل کہاں۔ وقت محدود تھا۔ جب ہر راہ مسدود نظر آئی تو جیب میں ہاتھ ڈالا اور پچاس پیسے کا ایک سکہ برآمد کیا جو شاید کسی ایسی ہی الجھن کے واسطے جیب میں رکھا تھا۔ نگران کی حیرانی کو کمال تغافل سے نظر انداز کرتے ہوئے سکہ اچھالا اور ایک ہتھیلی پر گرا کر اسے دوسری سے ڈھانپ لیا۔ لیجیے چت ہے تو مساوات نمبر 1 نہیں تو مساوات نمبر 2۔ ہتھیلی اٹھائی تو سامنے پٹ۔ احتیاط سے سکہ ایسے ہی کسی دوسرے وقت کے لیے جیب میں رکھا اور انتہائی دلجمعی سے چار گھنٹے پہلے رٹی ہوئی مساوات نمبر 2 حرف بحرف امتحانی کاپی ہر تحریر کر دی۔

یہ تو آج تک معلوم نہ ہو سکا کہ اصل جواب کیا تھا لیکن امید یہی ہے کہ ٹاس میرے حق میں ہی گیا تھا کہ امتحانی نتیجہ آیا تو مجموعی طور پر تحریری پرچوں میں میرے اسی فیصد نمبر تھے۔ وہ الگ بات کہ ہر پرچے کے چند گھنٹے بعد یاد کی ہوئی ہر چیز میرے ذہن سے ہمیشہ کے لیے محو ہو جاتی۔ شاید اس لیے کہ اگلے رٹے کی جگہ بن سکے۔ اس لطیفے سے بتانا یہ مقصود ہے کہ نظام میں اس وقت بھی کجی ایسی تھی کہ ایک رات میں بغیر سمجھے ایک رٹا دو سال کی محنت سے بڑھ کر نمبر دلا سکتا تھا۔ طبیعیات میں ایک اڑچن ابھی باقی تھی اور وہ تھا عملی امتحان کو پاس کرنا۔ پچاس میں سے کم ازکم سترہ نمبر درکار تھے اور عمومی طور پر اوسط بچے بھی پینتیس چالیس نمبر آرام سے لے لیتے تھے پر میں نے کبھی لیب میں قدم رکھا ہو تو نا۔

خیر اس کا حل پھر وہی کریش کورس کی صورت میں ایک پرائیوٹ اکیڈمی کی لیب میں چھ سات پریکٹیکلز کی ساری ترتیب یاد کرنا تھا جس میں میرے پانچ دن صرف ہوئے۔ عملی امتحان میں جو بھی کیا وہ تو یاد نہیں پر اتنا ہو گیا کہ ممتحن نے ترس کھا کر رعایتی سترہ نمبر میرے میزانیے میں جوڑ دیے۔ یہ اور تحریری امتحان کے اسی فیصد نمبر ملا کر طبیعیات میں نتیجہ کافی بہتر ہی نکل آیا۔ وہ الگ بات تھی کہ اس نتیجے کا میری طبیعیات کی سمجھ بوجھ سے کوئی رشتہ، کوئی ناتہ نہیں تھا۔

خدا جانے کس طرح لیکن باقی مضامین میں بھی فیل ہونے کی نوبت نہیں آئی لیکن سات نمبروں کے فرق سے زندگی میں پہلی دفعہ سیکنڈ ڈویژن کا مزا چکھ لیا۔ اس دفعہ امی ابو کا غصہ، مایوسی، حیرانی سب پہلے سے سوا تھے۔ گھر میں بہت دن ایک عجیب سی یاسیت چھائی رہی پھر ابو نے تجویز کیا کہ مجھے دوبارہ امتحان دینا چاہیے۔ میں اس کے لیے تو آمادہ نہ ہو سکا پر بی اے کا نجی داخلہ پنجاب یونیورسٹی کو بھیج دیا۔ ادب، صحافت اور فارسی کو اختیاری مضمون کے طور پر رکھ کر تیاری شروع کی تو وہ ہفتے دس دن میں ہی ختم ہو گئی۔ فارسی کی ایک مختصر سی کتاب تھی، صحافت پر دو کتابیں تھیں جس میں لکھی شاید ہی کوئی ایسی بات تھی جو پہلے سے پتہ نہ تھی اور ادب کی تین کتابیں بہت بچگانہ لگیں کہ پنجاب پبلک لائبریری میں گزارے گئے وہ کئی سال مجھے اس مرحلے سے بہت آگے لے آئے تھے جہاں اس کتاب کا نشان منزل گڑا تھا۔ باقی رہے لازمی مضامین تو ان میں کوئی خاص مسئلہ نہ پہلے تھا نہ اب پایا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ چند دن بعد میں اس پڑھائی سے بھی دور ہٹ گیا۔ امتحان ہوا، جامعہ پنجاب میں اس تقریبا نہ کی جانے والی تیاری کی بعد بھی پانچویں پوزیشن نے یہ واضح کر دیا کہ سوشل سائنسز کے مضامین میں میرا رجحان زیادہ ہے لیکن یہ بھی حقیقت تھی کہ مجھے طبیعیات کے مضمون سے بھی عشق تھا اور ریاضی بھی دل کے قریب معلوم ہوتی تھی پر ان مضامین کی درسی کتب کے اسلوب سے ہم آہنگی کا کوئ سرا اس وقت تک مل نہیں پایا تھا۔

رجحان وغیرہ تو اپنی جگہ پر آگے کیا کیا جائے، اس بارے میں ہر راہ دھند میں لپٹی ہوئی تھی۔ بھیڑ چال میں انجینئیر بننے کی راہ تو مسدود ہو چکی تھی۔ کیرئیر رہنمائی کے لیے کونسلر نامی مخلوق ابھی پائی نہیں جاتی تھی۔ انٹرنیٹ کا وجود نہیں تھا اور اردگرد سب مجھ جیسے ہی تھے۔ پوچھیے تو کس سے پوچھیے اور کیا پوچھیے۔ گریجویشن اور ماسٹرز کے داخلے بیچ اس زمانے میں پورے ایک سال کا فاصلہ تھا۔ اس دوران آرٹس میں بی اے کرنے کے علاوہ ہر اس ڈگری میں جہاں درخواست بھیجنا ممکن تھا وہاں درخواست بھیج دی گئی۔ جہاں زمانے کی رو لے جائے۔ اس ضمن میں بھی کئی سخت مقام آئے۔ کچھ لطیفے بھی ہیں پر یہ کہانی کسی اور دن کے لیے۔

گھر میں اخبار تو آتا ہی تھا اس میں ایک دن آئی بی اے کراچی کے ایم بی اے پروگرام میں داخلے کا اشتہار نظر سے گزرا۔ داخلہ ایک معروضی امتحان کی بنیاد پر تھا جس میں شرکت کی واحد شرط گریجویشن میں پچاس فی صد نمبر تھے۔ یہ تو پتہ تھا کہ ایم بی اے اچھی ڈگری ہوتی ہے کہ ہمارے سابقہ استاد اور حالیہ دوست عقیل صاحب بھی پنجاب یونیورسٹی سے ایم بی اے کر رہے تھے جہاں ہمارے داخلے کا کوئی امکان نہیں تھا کہ اسی پچاسی فی صد سے کم وہاں کا میرٹ نہیں تھا اور ہمارے دامن میں محض ایک سیکنڈ ڈویژن۔ آئی بی اے کے بارے میں البتہ کچھ پتہ نہیں تھا۔ بہرحال درخواست بھیج دی۔

کچھ دن بعد ہی ایم بی اے بینکنگ کا امتحان تھا۔ اشتہار کی ہدایات کی روشنی میں ہی اردو بازار سے معروضی امتحانات کی تیاری سے متعلق کچھ کتابیں خریدیں اور الٹی سیدھی تیاری کر کے کمرہ امتحان میں پہنچ گئے۔ ہفتے دس دن بعد نتیجہ آیا تو معلوم پڑا کہ نہ صرف امتحان میں مجموعی نمبر ایک خاص حد تک ضروری تھے بلکہ جزوی حصوں کا الگ الگ سکور بھی ایک خاص حد تک چاہیے تھا۔ اب ہمارے مجموعی نمبر تو اس حد سے بہت اوپر تھے۔ سارے جزوی حصوں میں بھی معاملہ ٹھیک تھا لیکن ایک جزو جو کہ بٹلر فیری ٹیسٹ کہلاتا تھا وہاں مطلوبہ نمبر چاہیے تھے بارہ اور میرے نمبر تھے گیارہ۔ لیجیے اس بنیاد پر داخلہ مسترد ہو گیا۔ بٹلر فیری ٹیسٹ میں مختلف شکلوں کے درمیان مطابقت ڈھونڈنا مقصود تھا۔ تھوڑی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ بٹلر فیری کا یہ مخصوص ٹیسٹ بنیادی طور پر پلمبنگ یا سول انجینئرنگ کے لیے بنایا گیا تھا۔ یا حیرت۔ کچھ پلے نہ پڑا کہ اس کا ایم بی اے کے رجحان کی پیمائش سے کیا تعلق تھا۔ خیر، مایوس ہو کر بیٹھ گئے اور باقی بھیجی گئی درخواستوں میں سے کسی ایک کی قبولیت کے لیے دعائیں شروع کر دیں۔

تین ماہ گزر گئے۔ داخلہ تو کہیں نہ ہوا لیکن آئی بی اے کا ایک اور اشتہار آ گیا۔ یہ ان کے مشہور عالم ریگولر ایم بی اے کے داخلے کا اشتہار تھا۔ معلوم ہوا کہ اس میں مقابلہ ایم بی اے بینکنگ کے مقابلے میں کہیں زیادہ سخت ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے پاس کوئی اور انتخاب کہاں تھا۔ پھر درخواست بھیجی۔ پھر کمرہ امتحان میں پہنچے۔ پھر وہی ملتا جلتا معروضی امتحان اور اس میں وہی منحوس بٹلر فیری ٹیسٹ۔ اس دفعہ مجموعی نتیجہ پہلے سے بھی بہتر تھا۔ بعد میں یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اس سال ہزاروں امیدواروں میں بلحاظ مجموعی سکور میری دوسری پوزیشن تھی۔ ساتھ ساتھ معجزہ یہ بھی ہو گیا کہ بٹلر فیری میں بھی بارہ نمبر پورے پورے مل ہی گئے۔ ایک نمبر ادھر ادھر ہوتا تو خدا جانے آج میں کیا کر رہا ہوتا۔

اس طرح آئی بی اے کراچی جا پہنچے۔ ایم بی اے کس چڑیا کا نام ہے یہ تو معلوم نہیں تھا اور کئی سال سے پڑھائی کو بھی طلاق تھی پر ہوا یہ کہ پہلی ہی کلاس حساب کی تھی اور پہلا ہی سوال یہ تھا کہ اگر ایک دعوت میں اتنے مہمان ہوں، اتنے برتن ہوں، اتنے ویٹر ہوں، اتنے کھانے ہوں اور اتنا وقت ہو تو میٹرکس کا استعمال کر کے دعوت کی بہترین منصوبہ بندی کیونکر ممکن ہے۔ ارے، تو یہ میٹرکس اس لیے ہوتے ہیں۔ دو چار دن میں ڈفرنسئیشن اور ویکٹر وغیرہ کا عملی اطلاق بھی معلوم ہوا تو ریاضی سے روٹھی محبت اچانک واپس آ گئی۔ درسی کتب پھر سے اچھی لگنے لگیں۔ اکاؤنٹنگ میں بھی وہی اعداد مل گئے جو بولتے تھے، پڑھنے والے سے کلام کرتے تھے۔ باقی مضامین بھی خود یہ بتانے لگے کہ زندگی میں ان کا کردار کیا ہے۔ ٹھوکر کھاتے کھاتے گویا اچانک راستہ مل گیا۔ آج بھی یہ سوچتا ہوں کہ یہ طرز اور یہ طریق تعلیم کے ہر مرحلے پر اپنانے میں رکاوٹ کیا ہے۔

آئی بی اے کی داستان بہت طولانی ہے لیکن دو سال بعد کانووکیشن ہوا تو فنانس کے اختصاص میں پہلی پوزیشن اور اوور آل گولڈ میڈل دونوں میرے ساتھ تھے۔ پچھلے تعلیمی گناہ پورے خاندان کی آنکھوں سے دھل گئے اور ایک نئی زندگی کا آغاز ہو گیا۔

اس پوری کہانی میں کوئی سبق ہے یا نہیں، یہ تو میں آپ پر چھوڑ دیتا ہوں لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ میری زندگی کی راہ متعین کرنے میں ملک کے تعلیمی نظام نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ منظم تعلیم سے مجھے متنفر کرنے میں نصاب سے زیادہ عمل انگیز اور کچھ نہیں تھا اور میں جو بھی بنا، وہ محض اتفاق ہی تھا۔ میرے وہ دوست جو بہت سارے نمبر سمیٹ کر بالآخر انجینئر بنے، آج ان میں سے نوے فی صد انجینئرنگ سے وابستہ نہیں ہیں اور جو ہیں ان میں سے بھی شاذ ہی کوئی خوش ہے۔ ہم سب وقت کی لہروں پر بہتے جن سمجھوتوں کے جزیروں میں جا پہنچے ہیں، انہی کو اب مقدر سمجھ لیا ہے۔ پر اس سوچ سے کیسے پیچھا چھڑائیں کہ کاش کہیں زندگی کے سمندر کے تھپیڑوں میں کسی مینارہ روشنی کا سہارا مل جاتا تو ہم بھی سچی خوشی اور حقیقی کامیابی کی دھوپ میں چمکتے کسی ساحل پر اتر سکتے تھے۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments