انڈیا میں پرانے ٹائپ رائٹر آج بھی کارآمد ہیں


ایک چھوٹے سے کمرے میں جہاں ہلکے گلابی رنگ کا پینٹ ہے تقریباً ایک درجن مرد اور عورتیں کسی کام میں بڑے انہماک سے مشغول ہیں۔ وہ دیواروں سے لگی میز پر جھکے ہوئے ہیں اور ان کی انگلیاں تیزی کے ساتھ کی بورڈز پر چل رہی ہیں جہاں سے ٹکاٹک کی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ ٹائپنگ کی سکون بخش تال نے ٹریفک کے مسلسل شور کو کسی حد تک روک دیا ہے۔

جنوبی ہند کے شہر مدورائی کی مصروف ترین گلیوں میں سے ایک کے قلب میں گذشتہ چھ برس سے دھن لکشمی بھاسکرن روزانہ سیکڑوں طالب علموں کو شفٹوں میں ٹائپنگ کی مہارت سکھا رہی ہیں۔ اور یہ ادارہ مکمل طور پر 20 دستی ٹائپ رائٹرز سے چل رہا ہے ہے۔

اپنے بیٹے کے نام پر قائم امپاٹھی ٹائپ رائٹنگ انسٹی ٹیوٹ میں تین انگریزی، ہندی اور مقامی تمل زبانوں میں ٹائپنگ سکھائی جاتی ہے۔ یہاں جو ٹائپ رائٹرز استعمال ہوتے ہیں ان کا نام فیسٹ ہے اور اپنے لانچ کے زمانے یعنی سنہ 1950 کی دہائی کے آخر سے اب تک ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

وہ مشینیں جو کبھی دفاتر کا لازمی حصہ تھیں

18 مشینیں ایجاد کرنے والا انڈین ڈاکٹر

کیا مشینیں انسانوں کی جگہ لے لیں گی؟

وہ کہتی ہیں کہ بھاسکرن کے طلباء زندگی کے ہر شعبے سے آتے ہیں۔ کچھ ابھی تک ہائی سکول میں ہیں اور اس لیے ٹائپنگ سیکھ رہے ہیں تاکہ اپنے آپ کو مسابقتی جاب مارکیٹ میں برتری دے سکیں۔ دوسرے پیشہ ور افراد ہیں جو سرکاری دفاتر میں ملازمتیں حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔ کچھ نوجوان مائیں بھی ہیں جو بچوں کی پیدائش کے بعد اپنے کیریئر کو دوبارہ شروع کرنے کی امید کے ساتھ ان کلاسز کی طرف راغب ہوتی ہیں۔

یہ انسٹی ٹیوٹ ٹائپنگ کے بہت سے حکومت سے منظور شدہ مراکز میں سے ایک ہے۔ اس کورس کے اختتام پر طلباء ہر چھ ماہ بعد ہونے والے امتحانات میں شامل ہو سکتے ہیں۔ اگر وہ پاس ہوجاتے ہیں تو انھیں جو سرٹیفکیٹ جاری کی جاتی ہیں وہ نوکری کی تلاش میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔

لیکن ایک ایسی دنیا میں جہاں بہت عرصہ پہلے میکینیکل ٹیکنالوجیز کی جگہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز نے لے لی ہے اور جہاں لیپ ٹاپ، کمپیوٹر اور یہاں تک کہ ٹیبلٹ پہلے سے کہیں زیادہ سستے ہیں وہاں کوئی بھی اپنی ٹائپ رائٹنگ کی مہارت میں کیوں وقت اور پیسے لگانا چاہے گا؟

بھاسکرن کا کہنا ہے کہ ملازمت کے متلاشی افراد کے لیے، جنھیں گھر میں لیپ ٹاپ یا ذاتی کمپیوٹر تک رسائی حاصل نہیں ہے، دستی ٹائپ رائٹر پر ٹائپنگ سیکھنا کسی لائف لائن کی طرح ہے۔ وہ کہتی ہیں: ‘ایک مرتبہ جب آپ نے اس مشین پر تربیت حاصل کر لی تو آپ اپنی ٹائپنگ کی رفتار کو بہتر بنا سکتے ہیں اور غلطیوں سے بچ سکتے ہیں۔ اور ان مہارتوں کو کمپیوٹر میں منتقل کرنا آسان ہے۔’ ٹائپ رائٹر کی نقل و حمل بھی عملی اور کفایتی ہے۔ بھاسکرن کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کی پابندیوں میں نرمی کے بعد طلباء ٹائپ کرتے وقت سماجی طور پر فاصلے برقرار رکھ سکتے ہیں۔ اس کی جگہ اگر وہ بڑے کمپیوٹر سسٹم پر لوگوں کو ہدایات دے رہے ہوتے تو ممکن نہ ہوتا۔

سنہ 2009 میں ٹائپ رائٹر بنانے والی آخری انڈین کمپنیوں میں سے ایک گودریج اینڈ بوائس نے ٹائپ رائٹر بنانے کا کام روکنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت بہت سے لوگوں نے پیش گوئی کی تھی کہ دستی ٹائپ رائٹر جو کبھی انڈین گھروں کی شان اور دفاتر میں فخر کا مقام رکھتا تھا بالآخر متروک ہو جائے گا- اور اس ڈائنو سار کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نگل جائے گی۔

لیکن ایک دہائی بعد بھی انڈیا کے قصبوں اور چھوٹے شہروں کی پرپیچ گلیوں میں اور یہاں تک کہ بڑے شہروں میں بھی دستی ٹائپ رائٹرز کے مراکز اب بھی پنپ رہے ہیں۔

راجیش پالٹا یونیورسل ٹائپ رائٹرز کمپنی کے مالک ہیں۔ وہ سنہ 1954 سے نئی دہلی کی کملا مارکیٹ میں اپنے سٹور سے ٹائپ رائٹرز کی تجدیدکاری اور فروخت کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ان کا ‘خاندانی کاروبار ہے اور وہ اسے 100 سال سے زیادہ عرصے سے چلا رہے ہیں۔’ ان کے خاندانی بزنس کو ایک کتاب میں نمایاں طور پر بیان کیا گیا ہے جو کہ انڈیا میں ٹائپ رائٹر کے سفر پر لکھی گئی ہے۔

پالٹا کا کہنا ہے کہ ‘اگرچہ انڈیا میں ٹائپ رائٹرز کا مرکزی دھارے میں استعمال پہلے ہی ختم ہو چکا ہے، لیکن ایک بہت ہی مخصوص حصے میں اس کی مانگ اب بھی ہے جسے اس کے ڈیلرز پورا کر رہے ہیں۔’ اور یہ مطالبہ پیشہ ور افراد کے ساتھ ساتھ پرانی یادوں کو جمع کرنے والوں کی جانب سے بھی آتا ہے جن کے لیے ٹائپ رائٹر ماضی کے جادوئی حصے کی نمائندگی کرتا ہے۔

پالٹا نے بڑی محنت سے صدیوں پرانے ٹائپ رائٹرز کو ملک بھر سے لوگوں کے لیے پھر سے تیار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پرانی کاروں کی طرح کسی ٹائپ رائٹر کی قیمت اسی وقت اچھی ہوتی ہے جب وہ مکمل طور پر قابل استعمال ہو۔ لیکن اس کی بحالی میں اکثر تفصیل پر بہت زیادہ توجہ دینی پڑتی ہے اور یہ ایک مشکل امر ہے۔’

وہ کہتے ہیں کہ ‘ایک ریفریجیریٹر اس کے مقابلے میں بہت بڑا ہے لیکن اس میں دستی ٹائپ رائٹر کے مقابلے میں صرف دسواں حصے پرزے ہوتے ہیں۔’

بعض اوقات مخصوص ماڈلز کے سپیئر پارٹس دستیاب نہیں ہوتے کیونکہ ان کی مینوفیکچرنگ بند ہو چکی ہے۔ ان معاملات میں پالٹا کسی بھی سپیئر پارٹ کی پیداوار کو آؤٹ سورس کرنے میں مہارت رکھتے ہیں جس سے وہ اپنے گاہک کی مشینوں کی مرمت کر سکتے ہیں۔ لیکن ان پرزوں کو مکمل طور پر بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘اگر ٹائپ رائٹر کے پرزے مناسب طریقے سے نہیں لگائے گئے تو یہ کام نہیں کریں گے۔’

بعض اوقات ایک گمشدہ پرزہ تیار کرنے اور تبدیل کرنے میں اس کی اصل قیمت سے دس گنا زیادہ خرچ ہو سکتا ہے۔

پالٹا اپنی ہر فروخت ہونے والی مشین کے ساتھ اس کی عمر کا سرٹیفکیٹ بھی دیتے ہیں اور اس کے لیے انھیں کھوج بین بھی کرنی پڑتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘ہر ٹائپ رائٹر کا ایک منفرد سیریل نمبر ہوتا ہے جو مشین پر ابھرا ہوتا ہے، جیسے گاڑی کا انجن نمبر۔ ہم آن لائن پورٹل پر جاکر اس کا حوالہ دیتے ہیں اور اس تاریخ کو چیک کرتے ہیں جس میں سیریل نمبر جاری کیا گیا تھا۔’

پالٹا کے کچھ باقاعدہ گاہک پرانی چیزوں کے شوقین کلکٹرز یعنی جمع کرنے والے ہیں اور وہ انھیں برسوں پرانے ٹائپ رائٹرز وغیرہ بحال کرنے کے لیے بھیجتے رہتے ہیں۔ ایسے ہی ایک شخص مہاراجہ جیندر پرتاپ سنگھ ہیں جن کا تعلق شمالی ہند کی ریاست اتر پردیش کے بلرام پور کے سابق شاہی خاندان سے ہے۔ ان کے ذخیرے میں 11 ٹائپ رائٹرز ہیں جن میں گودریج پرائما کے ایک جوڑے، ایک لیٹیرا 32 اور ہندی ٹائپ رائٹر کا ایک نایاب ماڈل جو ان کی خالہ کا تھا اور سنہ 1950 کی دہائی میں استعمال میں تھا شامل ہیں۔

سنگھ کو ٹائپنگ کا شوق اس وقت شروع ہوا جب انھوں نے اپنے والد کی خط و کتابت میں مدد کرنا شروع کی، لیکن انھیں جلد ہی احساس ہو گیا کہ کمپیوٹر کی سپیل چیک تک آسان رسائی ان کی تحریر کی خرابی کا باعث ہو سکتی ہے۔ انھوں نے اس کی جگہ ٹائپ رائٹر اٹھا لیا کیونکہ وہ اپنی تخلیقی تحریری صلاحیتوں کو بہتر بنانا چاہتے تھے اور انھوں نے سنہ 2013 میں اپنا پہلا اولمپیا ٹائپ رائٹر خریدا۔

سنگھ کا کہنا ہے کہ ‘شروع شروع میں اس پر ٹائپ کرنا سیکھنا مشکل تھا۔ ‘حروف کو ایک قطار میں سیدھا رکھنا ایک چیلنج تھا اور مہارت سے ٹائپنگ سیکھنے میں انھیں تقریبا ایک سال کا عرصہ لگا۔ آج وہ ٹائپ رائٹر کو ذاتی خط و کتابت کے لیے استعمال کرتے ہیں اور کاروباری ملاقاتوں کے منٹس نوٹ کرتے ہیں۔

رواں سال رکشا بندھن کے تہوار کے بعد (11 اگست کو جس میں ہندو مذہب کے تحت بہن بھائی کی کلائی پر مقدس دھاگہ باندھتی ہے) انھوں نے اپنی ہر بہن کے لیے ایک ذاتی نوٹ ٹائپ کیا جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ سب ان سے بہت متاثر ہوئیں۔ سنگھ کا کہنا ہے کہ ‘مجھے کاغذ پر حروف کا تاثر بہت پسند ہے۔ اور کمپیوٹر کے چھپے ہوئے الفاظ ویسے نہیں ہوتے ہیں۔ ٹائپ کیے ہوئے نوٹ ہر چیز کو مخصوص بنا دیتے ہیں۔’

تخلیقی مصنفین کے لیے ٹائپ رائٹر گمراہ کن خیالات کو روکنے کا ایک ذریعہ ہے جو کہ ان خلفشار کو روکتا ہے جو ڈیجیٹل دنیا لا سکتی ہے۔

لیکن انڈیا میں بہت سے پیشہ ور افراد کے لیے پرانی مشینوں پر ٹائپ کرنا سیکھنا بہت رومانوی نہیں ہے۔ ٹائپ رائٹرز بے رحمانہ اور ناقابل معافی ہو سکتے ہیں جہاں اکثر اصلاح کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ہے۔ جنوبی ہند کے شہر کوئمبٹور میں ہیومن ریسورس کنسلٹنسی چلانے والے جیارام وشوناتھن کا کہنا ہے کہ ایک غلطی کرنے کا مطلب کام کو دوبارہ کرنا ہوتا ہے۔ وشوناتھن نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز سنہ 1979 میں ایک مقامی کیمیکل کمپنی کے سٹینو گرافر کے طور پر کیا تھا۔ ان کے بیشتر کام میں دستاویزات کو دستی طور پر ٹائپ کرنا شامل تھا۔

وشوناتھن کہتے ہیں: ‘ہم نے ایک مخصوص ایریزر (مٹانے والی چیز) کا استعمال کیا (جب ہم سے کوئی غلطی ہوتی) یہ روشن فیروزی سوراخ والا ایک دائرہ تھا جو معمولی اصلاحات میں مدد کر سکتا تھا۔ لیکن اگر آپ اسے بہت زیادہ رگڑتے تو اس کا انجام کاغذ میں سوراخ ہونا تھا۔’

تاہم بھاسکرن کا کہنا ہے کہ تربیت یافتہ پیشہ ور ٹائپسٹوں سے غلطیاں بہت کم ہوتی ہیں۔ ‘ہمارے طلباء اگر ایک بھی غلطی کرتے ہیں تو وہ امتحان پاس نہیں کر سکتے۔ ٹائپ رائٹر پر ٹائپ کرنا سیکھنا آپ کو درستگی سکھاتا ہے۔’

اس کے علاوہ ایک اور اہم وجہ ہے جس کے سبب انڈین بیوروکریسی اب بھی ٹائپ رائٹرز کے ساتھ سختی سے چپکی ہوئی ہے: کیونکہ اس سے تیار شدہ ریکارڈ زیادہ مستقل ہیں۔ ٹائپ رائٹر کے دستاویزات دیر پا ہیں۔ سری کرشنا ٹائپنگ انسٹی ٹیوٹ میں 300 طالب علموں کو ٹائپنگ کی تربیت دینے والے موروگاویل پرکاش کہتے ہیں: ‘کچھ اہم حکومتی دستاویزات ابھی بھی ٹائپ رائٹر کی لکھی ہوئی ہیں کیونکہ کمپیوٹرائزڈ پرنٹ آؤٹ کے برعکس اس کی سیاہی کبھی مٹتی نہیں ہے۔’

پرکاش نے سنہ 2012 میں اپنے والد کے انتقال کے بعد سول انجینئرنگ میں اسسٹنٹ پروفیسری کی یونیورسٹی کی نوکری چھوڑ دی تاکہ وہ اس ادارے کی باگ ڈور سنبھال سکیں۔ اس انسٹی ٹیوٹ کو سنہ 1954 میں ان کے چچا نے شروع کیا تھا اور اس وقت اس میں 80 مشینیں ہیں، جن میں سے زیادہ تر گودریج پرائما اور ریمنگٹن 14 ایس ٹائپ رائٹرز ہیں۔ وہ اور ان کی اہلیہ دن بھر صبح 7 بجے سے رات 8 بجے تک ایک ایک گھنٹے کے سیشنز کرتے ہیں۔ کورونا وائرس کے سبب مسلسل لاک ڈاؤن کے دوران انھوں نے یو ٹیوب چینل بھی شروع کیا تاکہ گھر تک محدود لوگوں کو ٹائپنگ کے بارے میں مزید جاننے میں مدد ملے۔

ایک نمایاں جگہ جہاں ماضی میں دستی ٹائپ رائٹرز کی اجارہ داری تھی وہ ملک کے کمرہ عدالت سے باہر کے حصے ہوتے تھے جہاں قانونی دستاویزات ٹائپ کر کے اکثر انڈین زبانوں میں ترجمہ کیے جاتے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق ملک بھر میں سنہ 2014 تک تقریبا 2،000 ٹائپسٹ عدالتوں کے باہر بیٹھا کرتے تھے، ان کے ٹائپ رائٹر ترپالوں میں لپٹے ہوئے تھے اور اکثر برگد کے بڑے درختوں کے سائے تلے بغیر کسی نگرانی کے پڑے رہتے تھے۔ کولکتہ اور دہلی جیسے بڑے شہر خاص طور پر اپنے عدالتی ٹائپسٹوں کے لیے مشہور ہیں۔ انھوں نے یہ ممکن بنایا کہ قانونی چارہ جوئی کرنے والوں کو کاغذی کارروائی تک فوری رسائی حاصل ہو، خاص طور پر اس وقت جب بجلی منقطع ہو، جو کہ ماضی میں اکثر ایسی صورت حال ہوا کرتی تھی۔

بہر حال حالیہ برسوں میں ان کی تعداد میں زبردست کمی دیکھی گئی ہے۔ پالٹا کا کہنا ہے کہ اگرچہ کمرہ عدالت میں ٹائپسٹ اب بھی موجود ہیں لیکن ‘دہلی میں عدالت کے چیمبر کے باہر کبھی ایک ہزار ٹائپسٹ ہوا کرتے تھے لیکن آج یہ تعداد صرف 14 یا 15 رہ گئی ہے۔’ اگرچہ بہت سے لوگوں نے پیش گوئی کی تھی کہ عدالتی ٹائپسٹوں میں اس کمی کا مطلب تمام ٹائپ رائٹرز کی موت ہو گی تاہم انڈیا میں دستی ٹائپ رائٹنگ کی روایت اب بھی زندہ ہے۔

شاید اس لیے کہ ٹائپ رائٹر کو انڈیا کی قانونی اور سیاسی تاریخ میں نمایاں لمحات سے جوڑا گیا ہے، اس لیے اس کا عوامی شعور سے جلد ہی مٹ جانے کا امکان نہیں ہے۔ اس ضمن میں ایک مثال بھاول سنیاسی کیس میں مشین کا کردار ہے، جو انڈیا کی سب سے زیادہ بدنام اور مجرمانہ سازشوں میں سے ایک ہے۔

25 اگست سنہ 1936 کو ہندوستان کی آزادی سے قبل ڈھاکہ (جو اب بنگلہ دیش میں ہے) کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹس اینڈ سیشن جج پنالال بوس ایک ایسے مقدمے کا فیصلہ سنانے کے لیے تیار ہو گئے جس نے پورے ہندوستان کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔

یہ سمجھنا آسان ہے کہ اس کیس کو اتنی توجہ کیوں ملی۔ اس میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے والی تمام تر باتیں تھیں۔ بنگال (اب بنگلہ دیش) کی سب سے بڑی اور امیر ترین ریاست میں سے ایک بھال کے شہزادے رامیندر نارائن رائے کی زہر سے موت کے ایک دہائی بعد اس کے پراسرار ظہور کے بارے میں سرگوشیاں ہونے لگيں۔ ایک آدمی جو بالکل اس جیسا دکھائی دیتا تھا وہ سٹیٹ کے قریب دوبارہ نمودار ہوا تھا لیکن اسے اپنی سابقہ شاہی زندگی کے بارے میں کچھ یاد نہیں تھا۔ اس کے بجائے وہ ایک سنیاسی تھا ایک مقدس آدمی جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے ترک دنیا کو اختیار کیا ہے۔

ان کی موت کے بعد سے افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ کس طرح اولے کے ایک طوفان نے ان کی آخری رسومات کو متاثر کیا تھا۔ اس میں شامل افراد مبینہ طور پر اس اچانک بارش سے پناہ لینے پر مجبور ہو گئے تھے اور پھر انھیں پتا چلا کہ لاش غائب ہے۔ بیوی نے سنیاسی کو اپنے مرحوم شوہر کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، اور بعد میں اسے عدالت میں بہروپیے کے طور پر چیلنج کیا۔ یہ مقدمہ تاریخ میں اپنی بدنامی کے لیے مشہور ہوا۔

کہا جاتا ہے کہ جج بوس نے خود کو تین مہینوں کے لیے ایک کمرے میں بند کر دیا اور 531 صفحات پر مشتمل فیصلہ خود سوچ سمجھ کر ٹائپ کرنے کے لیے بیٹھ گئے۔ جو ریمنگٹن رینڈ کے پورٹیبل ٹائپ رائٹر پر خوشنما حروف میں سامنے آیا۔ اس ٹائپ رائٹر کو ان کے خاندان والوں نے محفوظ کر رکھا ہے۔ جب اس نے اعلان کیا کہ رائے کی پہلے موت کے شواہد نہیں ہیں اور انھوں نے فیصلہ سنایا کہ سنیاسی واقعی نوجوان شہزادہ ہے۔

اس فیصلے پر جج کو دھمکیاں ملیں اور انھیں اپنی بیوی اور اپنے گیارہ بچوں کے ساتھ کلکتے سے فرار ہونا پڑا۔ ان کے اسباب میں ٹائپ رائٹر بھی تھا جس پر فیصلہ ٹائپ کیا گيا تھا۔ اس مقدمے سے متعلق اسرار میں اس وقت مزید اضافہ ہو گيا جب اس کے حق میں فیصلہ سنائے جانے کے دو دن بعد سنیاسی شہزادہ شکریہ ادا کرنے کے لیے ایک مندر میں جا کر مر گیا۔

انڈیا میں رہنے والے بزرگ شہریوں کے لیے ٹائپ رائٹر گہری پرانی یادوں کا ذریعہ ہے۔

نومبر سنہ 2019 میں کووڈ 19 نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پالٹا نے جنوبی ہند کی ریاست کرناٹک میں ایک خاندان کے لیے 90 سالہ ٹائپ رائٹر ٹھیک کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ جب یہ ان کے پاس بھیجا گیا تھا تو یہ انتہائی خراب حالت میں، ٹوٹا ہوا اور زنگ آلود تھا۔ اس کے مالکان بہت خوش ہوئے کہ انھیں اسے مکمل طور پر بحال کرنے میں کامیابی ملی۔ انھوں نے اس ٹائپ رائٹر کو گود میں رکھ کر ایک گروپ تصویر بھیجی جہاں وہ سب ایک صوفے کے گرد بیٹھے تھے۔ کیپشن میں لکھا ہے کہ ‘ہم اپنے خاندان کے رکن کی گھر واپسی پر خوش ہیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments