تعلیمی بورڈز کے نتائج اور طلبہ کا مذاق


انٹر اور میٹرک کے امتحانی طریق کار اور رزلٹ نے حکومت کے پالیسی سازوں کی اہلیت کو عیاں کر دیا ہے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ کووڈ کی گمبھیر صورت حال کے باوجود، ان طلبہ نے کتاب اور نصاب کا ساتھ نہیں چھوڑا جن کے پیش نظر ہمیشہ کوئی واضح مقصد ہوتا ہے۔ موجودہ حالات میں ہمیشہ کی طرح وہی طلبہ نمبر لینے میں کامیاب ہوئے ہیں جو اپنی پڑھائی کے معاملات میں نہ صرف سنجیدہ تھے بلکہ اہل بھی تھے۔

خوشی اس امر کی ہے کہ طلبہ کو جتنا نصاب دیا گیا۔ انھوں نے اس کے مطابق بھرپور کوشش کی اور نمبر لیے۔ انھیں اگر تین یا چار اختیاری مضامین کے علاوہ لازمی مضامین میں بھی امتحان دینے کا کہا جاتا تو وہ تیار ہوتے بلکہ وہ تیار تھے۔ یہ تو بن مانگی مہربانی حکومتی کار گزاروں کی طرف سے تھی۔ جب تمام مضامین کے نصاب کو کم کر دیا گیا تھا تو پھر ان کا امتحان لینے میں کیا قباحت تھی؟ کیونکہ جب اختیاری مضامین کے امتحان لیے گئے تھے تب کووڈ کی صورت حال کافی بہتر ہو چکی تھی۔

بہرحال ”ان سے“ کون پوچھے کہ جہاں آپ نے تین یا چار اختیاری مضامین کا امتحان لینے کا فیصلہ کیا تھا وہاں تین لازمی مضامین کا امتحان لینے سے آپ کو کون روک رہا تھا؟ اگر کووڈ کی وجہ سے حالات اتنے خراب تھے تو مزید تھوڑا اور صبر کر لیا جاتا۔ نمبروں کی اس بارش میں ان طلبہ کا کسی کو خیال نہیں آیا جو لازمی مضامین میں بہت اچھے تھے۔ بورڈ کے سابق نتائج کا شماریاتی ڈیٹا یہی بتاتا ہے کہ پری میڈیکل اور پری انجینئرنگ کے امتحانات میں حاصل کردہ کل نمبروں میں فرق، انھی لازمی مضامین سے حاصل کردہ نمبر ڈالتے ہیں۔

لازمی مضامین کا امتحان لینے سے کم ازکم پورے پورے نمبر حاصل کرنے والے طلبہ جو اب میڈیا اور عوام کے مذاق کا نشانہ بن رہے ہیں، وہ سرکار کے مذکورہ عمل سے شرمندہ ہونے سے بچ جاتے۔ اب عوامی حلقوں اور میڈیا کی طرف سے ان نتائج کا جو مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ مستقبل میں اس کے اثرات کم از کم پالیسی سازوں پر تو نہیں پڑیں گے ہاں طلبہ اس اذیت ناک بوجھ کو ساری عمر اٹھاتے پھریں گے۔ حکومت اگر کووڈ کے حوالے سے طلبہ پر کچھ مہربانی کرنا چاہتی تھی تو کووڈ کے بعد نارمل صورت حال تک ایم۔

کیٹ جیسے امتحانات کے فضول ڈرامہ کو ملتوی کر دیتی۔ میڈیکل کالجز اور انجینئرنگ کالجز میں سیٹیں بڑھا کر اچھے نمبر لینے والوں کو سرکاری سطح پر پڑھنے کا موقع فراہم کرتی۔ ایک طرف ایم۔ کیٹ جیسے امتحانات نے طلبہ کو پریشان کیا ہوا ہے اور دوسری طرف نتائج میں نمبرات کی بھر مار اور میڈیا کی دہائی نے انھیں شرمندہ کیا ہوا ہے۔ جنھیں شرمندہ ہونا چاہیے وہ ایک ہی راگ الاپے چلے جا رہے ہیں۔ گھبرانا نہیں۔ پتا نہیں وہ ملکی جہاز کو کس ”بندر“ گاہ پر لنگر انداز کرنا چاہتے ہیں۔

سب جانتے ہیں کہ سائنس کے مضامین میں پہلے بھی پورے پورے نمبر آتے ہیں۔ ہاں یہ سوال اپنی جگہ پر بہت اہم ہے کہ کیوں آتے ہیں؟ اس کا درست جواب تو ملک کے سائنس دانوں یا سائنس پڑھانے والوں کے پاس ہو گا لیکن اس سوال کا ایک سادہ سا جواب جو سمجھ میں آتا ہے وہ یہی ہے کہ ابتدائی اور ثانوی کلاسز کے سائنسی مضامین کا نصاب اور امتحان کا انداز سادہ ہے اور ویسے بھی سائنسی معاملات ایک مخصوص تعلیمی سطح تک دو جمع دو چار کی مانند واضح ہوتے ہیں۔ اور پڑھنے والے طلبہ کے لیے رائج اسٹرکچر کو ازبر کرنا یا سمجھنا کوئی بڑی بات نہیں۔ اس کے علاوہ سوالات کی نوعیت بھی زیادہ تر معروضی طرز کی ہوتی ہے۔ ایسے میں طلبہ کے لیے پورے نمبر لینا کوئی حیرت کی بات نہیں۔

بہرکیف موجودہ امتحانی تناظر میں نتائج کو دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ تاریخ، سیاسیات، پنجابی، ایجوکیشن، نفسیات، اسلامیات یا دوسرے آرٹس کے مضامین پڑھنے والے طلبہ کے پورے پورے نمبر نہیں۔ سوال یہ ہے اس دفعہ نمبر بانٹ میں ان طلبہ کا کیا قصور تھا؟ جو آرٹس کے مضامین پڑھتے ہیں کیونکہ آرٹس کے مضامین کے حوالے سے ہم نے پہلے سے طے کر لیا ہے کہ ان میں پورے نمبر نہیں آسکتے۔ اگر طے کر لیا ہے تو یہ کلیہ سائنس کے مضامین میں بھی اپنایا جاسکتا ہے۔ کیونکہ سائنس بھی انسانی علم ہے اور کوئی بھی انسانی علم حرف آخر نہیں ہو سکتا ۔ بہرحال یہ طویل بحث ہے ابھی رہنے دیجیے۔

ہاں، یہ بات سمجھنے کی ہے کہ انٹرمیڈیٹ کی سطح تک طالب علم کو نصاب کے ذریعے اس قابل بنانا ہوتا ہے کہ وہ لازمی مضامین مثلاً اردو، انگریزی، مطالعہ پاکستان اور اسلامیات کو اس درجے تک پڑھ کر کم از کم اتنا اہل ہو جائے کہ آئندہ وہ جس بھی شعبے میں جائے اس کے پاس زندگی گزارنے کے حوالے سے ملکی اساس سے منسلک علوم کی تھوڑی بہت واقفیت ہو۔ اس لیے انٹر اور میٹرک تک کے طالبہ کی ذہانت کو متعین کرنے کا ہمارے پاس ایک پیمانہ ہے یعنی نصاب میں شامل سارے مضامین میں حاصل کردہ نمبر۔

حقیقت بھی یہی ہے کہ ایک ذہن طالب علم صرف ایک مضمون میں اچھا نہیں ہوتا بلکہ تمام مضامین میں اس کی کارکردگی مثالی ہوتی ہے۔ جو طلبہ بورڈ میں پوزیشنیں لیتے ہیں ان کے حاصل کردہ نمبروں کا ڈیٹا اس بات کا گواہ ہے۔ ہاں آگے چل کر وہ اپنی مرضی کے مضامین میں اعلی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اگر مذکورہ لازمی مضامین کو خارج نہ کیا جاتا تو موجودہ نتائج، طلبہ کے لیے شرمندگی کا باعث نہ بنتے۔ بہرحال ماہرین نے اس حوالے سے کمال کر دیا ہے کہ بہت سے ایاز، محمود کے ساتھ کھڑے کر دیے ہیں۔ اب محمود کو ڈھونڈتے رہیے اور یکساں نصاب سے پہلے یکساں نتائج کے ثمرات اپنی جھولی میں سمیٹیے۔

اس مقام فکر پر ہمارے پالیسی سازوں کو کون سمجھائے کہ وہ نہ صرف اپنے قائم کردہ تعلیمی نظام کے حقائق اور مقاصد سے دور ہیں بلکہ اپنے آپ اور اپنے بچوں سے بھی بہت دور ہیں۔ اور ان مطالب سے بھی لاعلم ہیں جن کو پیش نظر رکھ کر ہمارے ہاں گزارے لائق نصاب تشکیل دیا گیا ہے۔ اس مضمون میں اگرچہ یہ بحث فالتو ہے کہ حکومت کے یہ ماہرین تعلیم جو کورونا کے دنوں میں کوئی کام کا مشورہ حکومت کو نہیں دے سکے وہ آنے والے دنوں میں کس طرح کا یکساں نصاب تعلیم متعارف کروائیں گے؟ لیکن یہ بتانے میں کوئی حرج نہیں کہ ان کی اہلیت اور قابلیت کا بھانڈا تو انٹر اور میٹرک کے امتحانی نتائج نے بیچ سڑک کے پھوڑ دیا ہے۔ موجودہ امتحانی نتائج کی طرح کا یکساں نصاب سامنے آیا تو اب کے پالیسی سازوں کی اہلیت کا بھانڈا تو پھوٹے گا، ساتھ کبڑے تعلیمی نظام کی کمر بھی ٹوٹ جائے گی۔

یہ سچ ہے کہ جب محض خوشامد اور جی حضوری اعلی عہدے داروں کا وتیرہ بن جائے تو عمدہ منصوبہ بندی، مشاورت اور تجزیاتی بنیادوں پر استوار مکالمہ دم توڑ دیتا ہے۔ بس خوش کیجیے اور خوش رہیے، کل کا کل سوچیں گے۔ بھلا ہو سر سید کا جو اس قوم کو ترقی کے لیے کتاب کی اہمیت سے آگاہ کر گیا ورنہ جس گئی گزری تعلیم کا چلن اب ہمارے ہاں ہے، وہ بھی نہ ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم مدینہ کی ریاست کے نام لیوا آج بھی عرب کے عہد جہالت کی تاریکیوں کو اپنی روح میں سمائے ہوئے ہیں۔ ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہم اسلام سے پہلے عرب کی جہالت اور ثقافت کو سمجھنے کے لیے تاریخ کے اوراق کی ورق گر دانی کریں۔ جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی۔

بہرحال کووڈ کے حوالے سے اگر طلبہ کو رعایتیں دینا مقصود تھا تو انھیں بہتر مستقبل کی سہولیات فراہم کی جاتیں۔ ان کے گرد ایسی تعلیمی اور پیشہ ورانہ فضا تخلیق کرنے کی پیش بندی کی جاتی جو ان کی صلاحیتیں نکھرا سکتی۔ نمبروں کی بھرمار سے انھیں محض نفسیاتی الجھنوں میں مبتلا کیا گیا ہے۔ نمبروں کے ڈھیر تو لگ گئے ہیں لیکن وہ ان کا کریں گے کیا۔ کیونکہ ایم۔ ڈی کیٹ جیسے نام نہاد امتحانات کے نتائج نے ان کے سامنے بہتر مستقبل کے سارے دروازے بند کر دیے ہیں۔

یا تو تعلیمی نصاب اور اس کے امتحانات کے نظام کو بھی اس طرح کا بنایا جائے کہ جس سے گزر کر وہ ہر اگلے امتحان کو پاس کرنے کے اہل ہو جائیں۔ یا ایسی مہربانی کی جائے کہ جن طلبہ نے نوے فیصد نمبر لیے ہیں وہ کم ازکم اپنے خواب کے مطابق اپنے لیے مزید تعلیم کے لیے شعبے چن سکیں۔ نوے فیصد نمبروں کے باوجود طلبہ روایتی تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ انٹری ٹیسٹ میں وہ طلبہ بھی میرٹ پالیسی کا انتظار کر رہے ہیں جن کے بورڈ میں پورے پورے نمبر ہیں یا ایک دو کم ہیں۔ اس صورت حال میں وہی طلبہ محفوظ ہیں جن کے والدین صاحب حیثیت ہیں۔ ظاہری بات ہے باقی بیٹھ کر اپنی کامیابی کا نوحہ پڑھیں گے۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ موجودہ امتحانی نتائج کی وجہ سے طلبہ کی محنت، ان کی کوشش اور ان کی فطری ذہانت حکومت کے نا اہل مشیروں کی بدولت مذاق بن کر رہ گئی ہے۔ طلبہ کے چہروں پر پورے نمبر حاصل کرنے کے باوجود خوشی نہیں۔ قصور طلبہ کا نہیں کیونکہ انھوں نے ہمیشہ ویسا پڑھا جیسا ہم نے پڑھایا، وہی سیکھا جیسا ہم نے سکھایا۔ یقین جانیے آپ انھیں نظام دیں وہ آپ کو تاریخ میں مقام دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments