مانگیے مانگیے … شرم کیسی


مانگنے کی مختلف قسمیں ہیں۔ کوئی داد مانگتا ہے تو کوئی امداد کا۔ کوئی پیسہ مانگتا ہے تو کوئی پیار۔ لیکن مانگتا ہر کوئی ہے اور مانگنا ہمارا محبوب مشغلہ ہے، اس میں شرم کیسی۔ کچھ مجبوری کی وجہ سے مانگتے ہیں، کچھ عادتا اور کچھ کا یہ بس روزگار ہے۔ کچھ مانگنے والے بھلے روز مانگیں لیکن اپنی ضرورت سے زیادہ نہیں مانگتے۔ اور کچھ ایسے ہیں جو ہمیشہ ضرورت سے کچھ زیادہ ہی مانگتے ہیں۔ مانگنا ایک پیشہ ہے۔ غالباً یہ وہی پیشہ ہے جس کے بارے ابتدا ہی سے کہہ دیا گیا تھا، ہینگ لگے نہ پھٹکری تے رنگ وی چوکھا آوے۔

مانگنا کمتر لوگوں کا ہی نہیں معززین کا بھی پیشہ ہے۔ کوئی کشکول پکڑ کر مانگتا ہے تو کوئی کشکول توڑ کر۔ کچھ لوگ سڑکوں پر مانگتے نظر آتے ہیں تو کچھ ایوانوں میں بیٹھ کر۔ یہ دنیا کا واحد کاروبار ہے جس میں آپ کو کچھ بھی انویسٹ نہیں کرنا پڑتا۔ اس پیشے سے وابستہ افراد کو نقصان کی فکر ہوتی ہے نہ بھوکا رہنے کی۔ کہ مانگنے والے ہمیشہ بھرے پیٹ رہتے ہیں۔ اس میں فائدہ ہی فائدہ ہے خسارہ ہرگز نہیں۔ دلجمعی سے یہ کام کیا جائے تو اللہ کا بہت کرم ہوتا ہے۔

یہ اتنا منافع بخش کام ہے کہ جو ایک بار اس میں ہاتھ ڈالے وہ لوگوں کے دلوں میں موجود خوف اور رب کے فضل سے خالی نہیں لوٹتا۔ اور بالآخر پھر اسی کام کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ پھر اگر اپنے بچوں کو بھی اسی کام پر لگا دے تو سمجھیے سونے پہ سہاگہ۔ بچوں کی تربیت اچھی ہوجاتی ہے، وہ شروع سے ہی جان لیتے ہیں کہ کس طرح کے لوگوں سے کیسے مانگنا ہے، ہسپتال کے باہر لوگوں کو شفا کی دعا دینی ہے، تو شادی ہال کے باہر کھڑے ہو کر ڈھیر سارے بچوں کی۔

بنا سرمائے کے اچھی آمدن والا کام ہے۔ بس مانگنا اچھے طریقے سے آ جائے، تو پھر یہ گھاٹے کا سودا نہیں۔ ایک سڑک پر مانگنے والا کشکول لے کر کھڑا ہو اور آواز لگائے، دے جا سخیا راہ خدا، تو خود کو سخی ظاہر کرنے کے چکر میں اکثر بخیل بھی اس کے جھانسے میں آ جاتے ہیں۔ ویسے تو مانگنے والوں کو دنیا بھر میں حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ لیکن ہماری اکثریت چونکہ زیادہ تر مانگنے کو ہی ترجیح دیتی ہے اور محنت کی بجائے امداد پر کڑا یقین رکھتی ہے۔

لہذا اپنے ہاں اس بات پر خوشی منائی جاتی ہے، کہ مانگنے کا ڈھنگ خوب آتا ہے۔ یہ کیا کم ہے کہ امداد ہمارے ملک سے باہر نہیں جاتی، بلکہ زیادہ تر باہر کے ملکوں سے بھی مانگ لی جاتی ہے اور یہ کوئی برائی نہیں کہ ڈالر کی آمد سے معیشت کو کڑا فائدہ ہوتا ہے۔ بلکہ اس پر تو شکر بنتا ہے کہ دنیا بھر سے جتنی بھی امداد آئے ہم اس کی غیر منصفانہ تقسیم آسانی سے کر لیتے ہیں۔

یہ اب ایک مکمل ٹیکنیکل کام بن چکا ہے۔ بنا سیکھے مانگیں گے تو شاید چند سو ہی اکٹھے کر سکیں۔ ان پڑھ بندہ جس کے گلے میں موٹے منکوں کی مالا ہو۔ الجھے بال، ٹوٹی چپل، خستہ حال، لنگڑا کر چلتا، یا اپنے کسی اعضا کو اس طرح بنا لینا کہ دیکھنے والے کا دل پسیج جائے، ایسا انسان اگر کسی سڑک پہ کھڑا ہو کے اللہ کے نام پر مانگے تو دینے والے دلی جذبات سے مغلوب ہو کر دس بیس یا سو پچاس کشکول میں ڈال کر چلتے بنتے ہیں۔ دس بیس روپے سارا دن اکٹھے کیے جائیں تو زیادہ سے زیادہ شام تک ہزار پانچ سو ہو جائیں گے۔

لیکن تھوڑا پڑھ لکھ کر مانگا جائے تو مانگنے کے فن میں بہتری آ سکتی ہے۔ پڑھے لکھے شخص کو مانگنے والا ہرگز نہیں سمجھا جاتا۔ اگر کوئی سمجھ بھی لے تو مانگت ہرگز نہیں کہے گا، ممکن ہے ضرورت مند کہہ دے۔ تعلیم یافتہ ہو کر مانگنے کے انداز ہی بدل جاتے ہیں۔ مانگنے کے سو ڈھنگ آ جاتے ہیں۔ اور اگر کسی بڑی یونیورسٹی سے پڑھ لکھ کر مانگیں تو یقین کریں مانگنے کی مہارت نکھر کر یوں سامنے آتی ہے جیسے الھڑ مٹیار کا ساون میں جوبن۔

اور یہی پڑھے لکھے لوگ اگر سیاست سے وابستہ ہوجائیں تو سبحان اللہ، ملکی معیشت کو بارہ چاند لگ سکتے ہیں۔ مانگنے والا اپنے فن میں ماہر ہو تو سرکاری ٹی وی بھی اسے پرموٹ کرتا ہے۔ ایسے میں اگر وہ ٹی وی پر تقریر کرے تو اس کی تصویر کے ساتھ bagging کا لوگو بھی لگا دیتا ہے۔ اس سے ہوتا یہ ہے کہ عالمی سطح پر شہرت ملتی ہے۔ ڈالروں میں عالمی امداد ملنے کے نہ صرف چانسز بڑھ جاتے ہیں۔ بلکہ من چاہی خیرات و صدقات کی صورت ملک میں کثیر زرمبادلہ لایا جا سکتا ہے۔

سو اگر مانگنا ہی ہے تو پرانے بوسیدہ روایتی طرز سے نکل کر تھوڑا ماڈرن ہونا ہو گا۔ اس پیشے کی باقاعدہ تربیت حاصل کر نے کے لیے ٹریننگ سنٹر قائم کرنا ہوں گے۔ اور اگر اس میں آکسفورڈ کے ڈگری ہولڈرز ٹرینر ہوں تو پھر دیکھیں دولت آپ پر کس قدر مہربان ہوتی ہے۔ یقین نہ آئے تو پینٹ کوٹ پہن کر ٹائی لگائیں، کوئی این جی او بنا لیں اور پھر ایک بیرونی دورہ کر کے دیکھ لیں۔ ہمارے سیاسی بھائی جب بھی ملک کے نام پر مانگنے کی مہم پر نکلے اللہ کے فضل سے ہمیشہ سرخرو ہوئے۔

ہمارے ہاں تو مانگنا اتنا مقبول ہے کہ حکومت تک مانگنے میں شرم محسوس نہیں کرتی۔ جب بھی کوئی بھی مشکل آن پڑے حکومت موقع کی نزاکت سے خوب فائدہ اٹھاتی ہے اور بلا جھجک بلا تفریق مانگنے کی مہم پہ جھٹ نکل آتی ہے۔ دنیا میں کوئی آفت آن پڑے تو وہاں کی حکومتیں مصیبت زدہ لوگوں کی پریشانی دور کرنے میں مدد کرتی ہیں۔ جبکہ پاکستان واحد ملک ہے جہاں کسی مصیبت کے آنے پر حکومت عوام سے ہی مدد کی اپیل کرتی ہے۔ اور عام و خاص حکومت کے قائم کردہ سیل میں اپنے صدقات عطیات جمع کرواتے ہیں۔ سوچیئے اگر مانگنے والے نہ ہوتے سخی بیچارے کدھر جاتے، یہ اپنی فیاضی کسے دکھاتے۔ مانگنے والوں کو دعائیں دیں جو مانگ کر لوگوں کو سخی بننے کا موقع دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments