غربت کی بڑھتی خوفناک شرح


دنیا میں جس تیزی سے آبادی بڑھ رہی ہے اسی تیزی سے غربت کی شرح میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 2021 میں غربت کی انتہائی سطح پر رہنے والے افراد کی تعداد بھی بڑھ کر 69 کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔ یعنی کہ مجموعی آبادی کا 9 اعشاریہ 3 فیصد طبقہ کی شرح آمدنی 1 اعشاریہ 9 ڈالر یا پاکستانی 325 روپے بنتی ہے۔ اسی طرح سے مجموعی آبادی کا 43 اعشاریہ 5 فیصد طبقہ وہ ہے جو لوئر مڈل کلاس یا پھر سفید پوشی کی حالت میں زندگی گزار رہا ہے۔ ورلڈ بینک کی ہی رپورٹ کے مطابق 3 ارب 36 کروڑ سے زائد افراد ایسے ہیں جن کی اوسط آمدنی 5 اعشاریہ 5 ڈالر یا پھر پاکستانی 941 روپے بنتی ہے۔ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے آبادی کا تعلق جنوبی ایشیاء اور افریقن ممالک سے ہے۔ جہاں افراط زر کی شرح بھی مجموعی طور پر 30 سے 50 فیصد کے بیچ ہے۔

آسان الفاظ میں سمجھاتا چلوں تو ان ریجنز میں آمدنی جتنا کم ہے مہنگائی سے 50 گنا تک زیادہ ہے۔ بات کی جائے ارض پاک کی تو پاکستان میں 2018 میں 31 اعشاریہ 3 فیصد آبادی انتہائی غربت کی زندگی گزار رہی تھی جو 2021 میں بڑھ کر 40 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ یعنی کہ کل 21 کروڑ آبادی میں سے 8 کروڑ سے زائد افراد ایسے ہیں جو زندگی کی ڈور سے جڑے رہنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ ان مایوس کن اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں غربت کی شرح 31.4 فیصد، سندھ میں 45 فیصد، خیبر پختونخوا میں 49 فیصد اور بلوچستان میں خوفناک 71 فیصد ہے۔ پچھلے دو سالوں میں بڑھتی ہوئی افراط زر خصوصاً اشیائے خوراک کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کی وجہ سے بھی مزید لاکھوں افراد غربت کے قریب پہنچ گئے ہیں۔

پاکستان میں متمول طبقہ ایک اندازے کے مطابق اپنی آمدن کا تقریباً 20 سے 30 فیصد حصہ خوراک پر خرچ کرتا ہے لیکن نچلے متوسط اور غریب طبقے کے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اپنی آمدن کا 70 سے 80 فیصد حصہ خوراک پر ہی خرچ کرتی ہے۔ اس لیے اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافے نے اس طبقے کو بری طرح متاثر کیا ہے اور بیشتر کو مزید غربت کی طرف دھکیل دیا ہے۔ ماہرین معاشیات کے خیال میں صرف پچھلے دو سالوں کی افراط زر کی وجہ سے تقریباً 40 لاکھ نئے لوگ غربت کا شکار بنے ہیں۔

کورونا کی وبا کے دوران تو سب سے زیادہ متاثر سفید پوش طبقہ ہوا ہے۔ پاکستان میں ادارہ شماریات کے تازہ ترین اعداد و شمار پر نظر دوڑائی جائے تو مہنگائی کی مجموعی شرح 13 فیصد سے زائد ہے۔ افسوسناک طور پر یہ اعداد و شمار گزشتہ ماہ یعنی کہ ستمبر 2021 کے ہیں۔ کسی دور میں یہ کہاوت عام تھی کہ پاکستان دیہات میں بستا ہے مگر اب یہاں غربت بستی ہے۔ عالمی بینک کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق ملک کی 80 فیصد غریب آبادی دیہات میں بستی ہے۔

ڈولتی ہوئی معیشت، ڈالر کی اونچی اڑان، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ، اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو لگام ڈالنے میں ناکامی جیسے عوامل غربت کی بھٹی کو ایندھن فراہم کرنے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ پاکستان کی دیہی آبادی کا 80 فیصد غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہا ہے تو یہ دراصل وہ طبقہ ہے جس کا بنیادی ذریعہ معاش ہی زراعت ہے۔ اب اگر کسان ہی خوشحال نہیں ہو گا تو زراعت پر انحصار کرنے والی معیشت کا بھی ستیا ناس ہی ہو گا۔

میرا خود کو تعلق گاؤں اور اس خاندان سے ہے جس کا دار و مدار زراعت پر ہے۔ بیچارا کسان پورے چھ ماہ فصل پر خون پسینہ ایک کرتا ہے، آڑھتی سے زائد نرخوں پر کھاد، بیج اور ادویات اٹھاتا ہے۔ مہنگا ڈیزل خرید کر کھیتوں کو پانی لگاتا ہے۔ جب فصل کٹ کر تیار ہوجاتی ہے تو حکومتی نرخ کے برعکس مڈل مین یعنی کہ آڑھتی اپنے طے کردہ داموں پر وہ فصل خریدتا ہے۔

اب ہوتا یہ ہے کہ بیچنا بھی اسی کو ہی ہوتا ہے جس سے ادھار لیا ہوتا ہے۔ ادھار اور اس کے لگائے گئے نرخوں کے بعد اکثر اوقات تو ایسا ہوتا ہے کہ چھ ماہ کی محنت کا معاوضہ یا تو چند ہزار ہی بچتا ہے یا پھر ساری فصل اسی اٹھائے گئے ادھار میں ہی چلی جاتی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی طرح آبادی پر بھی قابو پانے میں ناکام نظر آ رہی ہے۔ اس وقت پاکستان کی آبادی خطرناک دو فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے اور 2050 میں ہماری آبادی 35 کروڑ سے بھی تجاوز کر چکی ہوگی۔ پہلے سے ہی موجود آبادی کو بنیادی سہولیات کی فراہمی میں ناکام ریاست کی جانب سے آبادی کے بڑھوتری میں کمی کے لئے بھی خاطرخواہ اقدامات نہ ہونا لمحہ فکریہ ہے۔ کیونکہ بڑھتی ہوئی آبادی مزید غربت پیدا کر رہی ہے اور غربت جرائم اور دیگر معاشرتی مسائل ہی پیدا کر رہی ہے۔

دیکھا جائے تو خطے کے دیگر مسلمان ممالک جن میں بنگلہ دیش، ایران، انڈونیشیا اور ملائیشیا شامل ہیں، نے ان منصوبوں پر کامیابی سے عمل کرتے ہوئے آبادی کے بے ہنگم پھیلاؤ کو روک کر اپنے ممالک میں غربت میں نمایاں کمی لائی ہے۔ پاکستان کی تقریباً آدھی سے زیادہ آبادی ان پڑھ ہے اور اس وقت غربت کی وجہ سے تقریباً 80 لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ ایک مطالعے کے مطابق نائجیریا کے بعد پاکستان میں سب سے زیادہ بچے سکولوں میں نہیں جا پاتے ہیں۔ حکومت پاکستان کو فوری طور پر آبادی پر قابو پانے کے لئے نوے کی دہائی میں شروع کیے گئے اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ اشیائے ضروریہ کی ارزاں داموں پر فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے پرائس کنٹرول میکنزم مضبوط کرنا چاہیے۔

اسی کے ساتھ ساتھ ٹیکس نیٹ کو غریبوں سے نکال کر امیروں تک لے جانا چاہیے کیونکہ دیکھا جائے تو حکومت ڈائریکٹ ٹیکسز کے ذریعے عوام پر ہی بوجھ ڈال رہی ہے۔ صابن، گھی اور دیگر اشیائے ضروریہ پر جی ایس ٹی کے ذریعے اربوں روپے تو اکٹھے کیے جا رہے۔ مگر جتنا ریونیو اکٹھا کیا جاتا ہے اس کا نصف بھی عام آدمی پر نہیں لگتا نظر آ رہا ہے۔ امیر اور غریب کے بیچ اس گہری خلیج کو پر کرنے کے لئے اقدامات نہ اٹھائے گئے تو خدانخواستہ ہم کسی پسماندہ افریقی ریاست کی صف میں کھڑے نظر آئیں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments